تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     28-09-2021

مغرب کی نئی سرد جنگ

افغانستان میں امریکی شکست کے بعد‘ مغربی دنیا کے فطری زوال کے بارے میں پھیلنے والے تاثر کی بدولت یہاں چین سمیت علاقائی طاقتوں کے ساتھ معاشی، سیاسی اور ثقافتی رشتے بڑھانے کے بیانیے کو بے پناہ مقبولیت ملی ہے، جس نے رائے عامہ کی قوت کو سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کی پشت پہ لاکھڑا کیا ہے۔ اسی تغیر کی بدولت ہماری قومی پالیسیوں پہ امریکا کے اثرات کم ہونے کے علاوہ قوم کے اجتماعی تخیل سے مغربی تہذیب کی بالادستی کے نفسیاتی اثرات بھی ختم ہونے لگے ہیں؛ چنانچہ ذہنی آزادیوں کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی خاطر عالمی طاقتیں براہِ راست قومی سیاست کے مقبول کرداروں سے روابط بڑھا کے رائے عامہ پہ اپناکنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔ شاید اس لئے پہلی بار کھلے عام کسی امریکی وفد نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ ہمیں مولانا فضل الرحمن کی ثابت قدمی اور اخلاص پہ تو کوئی شبہ نہیں لیکن ایک برادر مسلم ملک کی وساطت سے امریکا ان مذہبی جماعتوں کو نیوٹرلائز کرنے کی جسارت ضرور کرے گا جو کھلے عام امریکا کی مسلم کش پالیسیوں پہ تنقیدکرکے مسلمانوں کو مغربی استعمار کے خلاف ابھارنے میں مصروف رہتی ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے اپنی بے رحم خاموشی کے ذریعے ایک جانب ہمیں دبائو میں رکھا اور دوسری طرف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ان قومی سیاسی جماعتوں کی تسخیر میں جُت گئے جو چین سمیت علاقائی طاقتوں سے اقتصادی تعلقات بڑھا کے ملک کو مغرب کے مالیاتی اداروں کے پنجۂ استبداد سے نکالنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے بلوچ، سندھی اور پشتون قوم پرست تنظیموں کا ایجنڈا نہایت واضح ہے، وہ پیپلزپارٹی کی قیادت میں امریکا سے وابستگی میں اپنا مفاد تلاش کرتی ہیں؛ تاہم پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی‘ دو ایسی جماعتیں ہیں جو تاحال سی پیک منصوبے سمیت چین نواز بیانیے کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی لئے‘ میری نظر میں‘ عالمی طاقتیں انہیں مسخر کرنے کی تگ و دو ضرور کریں گی حتیٰ کہ اس مقصد کے حصول کی خاطر امریکا امارت اسلامی کو تسلیم کرنے کے علاوہ طالبان حکومت کو غیرمحدود مالی معاونت دینے کو بھی تیار ہو سکتا ہے لیکن تیزی سے بدلتے عالمی تناظر میں شکست خوردہ امریکا کے لیے اب اُن مقاصد کا حصول ممکن نہیں جنہیں بیس سال قبل فاتح کی حیثیت سے وہ حاصل نہیں کر سکا۔
افغانستان میں امریکی منصوبے کی مکمل سٹریٹیجک ناکامی نے مغرب کے نفسیاتی غلبے کو جو ناقابلِ تلافی زک پہنچائی‘ اس کے مضمرات کو کم کرنا آسان نہ ہو گا۔ امریکی پالیسی سازوں کیلئے سب سے پہلی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی اس شکست کا ذمہ دار کس کو ٹھہریں؟ ویتنام میں شکست کا ملبہ کمبوڈیا پہ ڈال کر اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا لیکن افغان تنازع میں پڑوسی ممالک کی تلویث آسان نہیں ہو گی۔ پاکستان کو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی طرف سے ناقابل اعتبار اتحادی سمجھا اور دکھایا گیا لیکن اس نازک مرحلے پہ مایوسی اور غصے کو پاکستان کی طرف موڑنا ایک اور سنگین سٹریٹیجک غلطی ہوگی۔ اس وقت امریکی مقتدرہ کا مخمصہ یہ ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ جتنا کم جڑے گا‘ خطے سے اس کا رابطہ اتنا ہی منقطع اور اس کا اثر و رسوخ اتنا ہی کم ہوتا چلا جائے گا۔ کوئی بھی جگہ جو امریکا چھوڑتاہے‘ وہ چین اور کسی حد تک روس پُر کرلیں گے۔ اندرونِ ملک پھر یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے پاکستان پر غیر مستحکم افغانستان کے منفی اثرات سے آنکھیں پھیر لیں۔ جس ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے 83 ہزارشہریوں اور 10 ہزار کے لگ بھگ سکیورٹی فورسز کے جوان کھوئے ہوں، 500 سے زیادہ خودکش حملوں کا سامنا کیا ہو، جنہوں نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا اور زندگیوں کے تحفظ اور ہر شہری کے اوسط معیارِ زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ 126 بلین ڈالر کا معاشی نقصان کے بدلے واشنگٹن سے ملنے والی 6 بلین ڈالر کی حقیرامداد کو اہمیت دی، کمزور معیشت کے حامل ایسے ملک میں‘ جہاں 14 لاکھ رجسٹرڈ اور تقریباً 15 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہوں‘ وہاں معیشت اور تنگ انتظامی ڈھانچے کی افسردگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بہرحال! امریکیوں کے پیش کردہ تمام ثبوت اس تصور کو جواز کا لبادہ پہنانے کیلئے ناکافی ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ وزیراعظم صاحب نے بالکل درست سوال اٹھایا ہے کہ اس میں پاکستان کا کیا عمل دخل‘ اگر تین لاکھ افراد پہ مشتمل افغان فورسز سترہزار طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور بڑے پیمانے پر ناپسندیدہ اور بدنام زمانہ افغان حکومت آخر کار اپنے عوام کو چھوڑ کے چلی گئی۔
قبل ازیں امریکا نے خود طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرکے انخلا کی صوابدیدی حتمی تاریخ طے کرکے غنی حکومت کی قسمت پر مہر لگائی تھی۔ اسے ہم امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہی کہیں گے کہ امریکی فوجوں کے تیزی سے انخلا اور طالبان کے افغانستان پر قبضے کے باعث پیدا ہونے والا بحران پاکستان اور امریکا کے درمیان تقسیم کو مزید بڑھا گیا۔ کابل کے ہوائی اڈے پر 26 اگست کو ہونے والا دہشت گردانہ حملہ‘ جس کی ذمہ داری داعش کی مقامی اتحادی جماعت اسلامک سٹیٹ خراسان (ISKP) نے قبول کی ہے‘ دو دہائیوں سے جاری ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں واشنگٹن کی شکست کا مظہر اور اس بات کی علامت تھا کہ صدر جو بائیڈن افغان بیانیے پر اپنی گرفت کھو رہے ہیں۔ اب بائیڈن انتظامیہ کوافغانستان سے ہنگامی پسپائی کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ا تو واشنگٹن بہت سی خرابیوں کیلئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے الزام لگانے لگا ۔ یہ واضح ہے کہ جب ٹرمپ انتظامیہ نے خصوصی ایلچی کو طالبان سے مذاکرات کی میز پر بٹھا کر امن معاہدے پر دستخط کئے تو جنگ پہلے ہی ہاری جا چکی تھی۔ اسلام آباد کیلئے بائیڈن حکومت کی سردمہری دنیا بھر میں امریکی ساکھ کیلئے تباہ کن نقصان کا سبب بنے گی۔ واشنگٹن کی واضح ناراضی کے باوجودبائیڈن انتظامیہ کو یقین ہے کہ پاکستان‘ طالبان کے زیر اثر افغانستان میں کردار ادا کرسکتا ہے۔
موجودہ جیو پولیٹیکل منظر نامے کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ چین حالیہ برسوں میں پاکستان کا نمبر ون آپشن بن کر ابھرا ہے، پاکستان ترکی کو قریب لانے میں بھی کامیاب رہا ہے جبکہ روس اور ایران‘ دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے بامعنی اقدامات بھی کرتا نظر آ رہا ہے؛ تاہم ابھی ان تعلقات کو ایک مستحکم علاقائی سکیورٹی آرڈر کی صورت میں ڈھالنے میں کامیابی کی منزل دور ہے۔ طالبان کے تحت افغانستان کا استحکام انتہائی نازک مرحلہ ہے‘ بلاشبہ روس، چین، ایران اور پاکستان کے افغانستان کے نئے گریٹ گیم میں کردار ادا کرنے کے حقدار ہونے کے باوجود شکست خوردہ امریکا یہاں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کیلئے ہاتھ پائوں مارے گا۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو‘ افغانستان میں جو کچھ ہوتا ہے‘ اس سے الگ نہیں کر سکتا؛ تاہم یہ وقت بتائے گا کہ پاکستان ان سفارتی پیچیدگیوں کو کس طرح سنبھالتا ہے۔ مغربی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات بگاڑنے سے عالمی طاقت کے طور پر امریکا کی پوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی جبکہ اتحادیوں کے درمیان اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اب بھی پاکستان ہی واحد ملک ہے جو مؤثر طریقے سے تمام فریقوں کے درمیان ثالثی کر سکتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں سابق امریکی سفیر ریان سی کروکر نے کچھ دن قبل نیویارک ٹائمز میں لکھا: امریکا نے 1990 کی دہائی میں پاکستان سے علیحدگی کی غلطی کی اور اب اسلام آباد سے منہ موڑ کر اس غلطی کو دہرانے جا رہا ہے۔ کروکر کا کہنا تھا: ہمیں اس بڑھتے ہوئے خطرے کا جائزہ لینے اور اس سے نمٹنے کے طریقوں پر پاکستان کے ساتھ انگیج رہنے کی ضرورت ہے، ان دونوں ممالک کے مفادات اب پہلے سے کہیں زیادہ جوڑے رکھنے کی ضرورت ہے، امریکا کو پاکستان کے ساتھ مضبوط اور پائیدار شراکت داری کے عزم کی تجدید کرنی چاہیے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved