تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     29-09-2021

کاش ایسا ہوتا…

گوادر میں شرپسندوں نے بانیٔ پاکستان قائد اعظم کا مجسمہ دھماکے سے اڑا دیا۔ یقیناً یہ کارروائی بھی سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کی ایک کڑی ہے۔ مجسمے کو نشانہ بنانا پاکستانیوں کے جذبات مجروح کرنے کی اشتعال انگیز کارروائی ہے۔ دہشت گردوں نے مجسمہ دھماکے سے اڑایا ہے اور ہمارے حکمران اور عوام الناس قائد کی تعلیمات سے لے کر فرمودات تک سبھی کی دھول نجانے کب سے اڑائے چلے جا رہے ہیں۔ بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ جس خطے اور وطن کی آزادی کے لیے وہ اتنی جدوجہد کر رہے ہیں‘ آزادی کے بعد اس وطنِ عزیز کی تین چار دہائیاں تو بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے مارے صرف دو خاندان ہی کھا جائیں گے‘ جبکہ ہر دور میں شریک اقتدار ان دونوں خاندانوں کے کبھی حلیف تو کبھی رفیق بن کر سرکاری وسائل پر موجیں اڑانے والوں کی فہرست بھی خاصی طویل ہے‘ جن میں اکثر خاندان آج بھی نئے نظریات اور نئے بیانیوں کے ساتھ اقتدار کا حصہ بن کر کنبہ پروری اور بندہ پروری کی روایت کو دوام بخشے چلے جا رہے ہیں۔ بوئے سلطانی اور ہوسِ زر کے ماروں نے اس ملک کی جڑوں کو کب اور کیسے کھوکھلا نہیں کیا؟
بابائے قوم کو کیا معلوم تھا کہ تقسیمِ ہند کے وقت خاک اور خون کی دردناک داستان یہ سبھی اتنی آسانی سے فراموش کرکے بے حسی کا پہاڑ بنتے چلے جائیں گے؟ سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ کو محض ایک واقعہ قرار دے کر تاریخ کے اوراق میں دفن کردیں گے۔ سفارش اور سازش کے تحت کوئے اقتدار میں آنے والے اکثر تو میرٹ پر فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نقاب اور بے لباس ہو چکے ہیں جبکہ کچھ چہرے اور خاندان مکافات عمل کی چکی میں پسنے سے اس لیے بچ گئے کہ وہ اطاعت گزاری سے لے کر تابعداری تک کے سبھی ہنر جانتے ہیں اور ہر دور میں احتساب سے فرار حاصل کرنے کے لیے حلیف بن کر نہ صرف شریک اقتدار بن جاتے ہیں بلکہ اپنے اس طرز سیاست کو اصولی قرار دے کر نازاں اور شاداں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ برطانیہ میں بیٹھ کر ملکی سالمیت اور ملکی اداروں کے وقار کو نشانہ بنانے والے یہ نام نہاد نیتا مکافاتِ عمل کی چکی کے پاٹوں کے درمیان آ چکے ہیں لیکن اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی حالت زار کو انتقامی کارروائی ثابت کرنے پر بضد ہیں۔
بابائے قوم کو کیا خبر تھی کہ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت کا نام اس طرح ڈبو دیا جائے گا۔ پاکستان کی تخلیق‘ بقا اور سالمیت کی علامت یہ جماعت ایسے ایسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی جو حصولِ اقتدار سے کر طول اقتدار تک‘ اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے سے لے کر وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘ ملکی سلامتی دائو پر لگانے سے لے کر بھارت کے مذموم عزائم کی تکمیل اور اس کے بیانیوں کی تشہیر تک‘ سبھی کچھ اتنی آسانی سے کر سکتے ہیں کہ غیرتِ قومی کا جنازہ ہی نکل جائے۔
یہ کیسا خطہ ہے‘ اس میں بسنے والوں نے کیسا نصیب پایا ہے‘ سالہا سال گزر جائیں‘ کتنی ہی رتیں بیت جائیں‘ کتنے ہی موسم تبدیل ہو جائیں‘ کتنے ہی حکمران بدل جائیں‘ لیکن عوام کی سیاہ بختی کسی صورت کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ روزِ اول سے لمحہ موجود تک‘ سانحات اور صدمات قوم کا مقدر بنے چلے آرہے ہیں۔ حالات کا ماتم جوں کا توں ہے۔ عوام کی مت مارنے سے خواص کا ضمیر مارنے تک کیسی کیسی واردات صبح شام‘ جا بجا اور ہر سو‘ کس قدر ڈھٹائی سے کھلے عام جاری ہے۔ بوئے سلطانی کے مارے لیڈروں کا سایہ اس ملک پر کسی آسیب سے کم ثابت نہیں ہوا۔ یہ آسیب کیا کچھ نہیں کھا گیا‘ نیت سے لے کر معیشت تک‘ سماجی انصاف سے لے کر آئین اور قانون تک‘ میرٹ سے لے کر گورننس تک‘ رواداری سے وضع داری تک‘ تحمل و برداشت سے لے کر بردباری تک‘ سبھی کچھ تو تہ و بالا ہوچکا ہے۔ ماضی میں لگائی گئی پنیریاں برق رفتاری سے خاردار جنگلی بیل میں تبدیل ہوتے ہوتے سسٹم کو کس بے رحمی سے اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئیں‘ کسی کو پتا ہی نہ چل سکا اور نہ کسی کو کبھی ہوش آیا۔ اس خاردار بیل کے کچھ حصے آج بھی شریک اقتدار اور حلیف بن کر وسائل کو بھنبھوڑنے کے ساتھ ساتھ سیاسی تعاون اور مفاہمت کے نام پر پورا پورا حصہ وصول کر رہے ہیں جبکہ کچھ خاندان برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے بزرگوں کو زندہ ثابت کرنے کے لیے قانون اور ضابطوں سے لے کر مفاد عامہ سمیت سرکاری وسائل کو ادھ موا کیے ہوئے ہیں۔ کبھی اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں تو کبھی اقتدار کے زور پر ان کی فیکٹریوں، ملوں اور کمپنیوں کے ساتھ ساتھ کرنسی نوٹوں سے نکلنے والے انڈے بچے بھی انڈے بچے دے رہے ہیں۔
ماضی اور حال مستقبل کا آئینہ ہوتے ہیں‘ بد قسمتی سے ملک و قوم کا مستقبل ماضی اور حال سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔ گویا '''وہی چال بے ڈھنگی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔ پہلا قدم ہی دوسرے قدم کی منزل اور سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمارا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی خرابیاں کئی گنا اضافوں کے ساتھ بدستور جاری ہیں۔ حال کی بد حالی آنے والے وقت کا منہ چڑاتی ہے۔ ہمارے ارادوں سے لے کر نیتوں تک‘ معیشت سے لے کر گورننس اور میرٹ تک‘ سماجی انصاف سے لے کر قانون کی حکمرانی تک‘ تجاوزات سے لے کر احتساب تک‘ ملکی وقار سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ ذاتی مفادات سے لے کر مذموم عزائم تک‘ مصلحتوں اور مجبوریوں سے لے کر بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں تک‘ سبھی ملک و قوم کے مستقبل کے چلتے پھرتے عکس ہیں جو مستقبل کا منظر نامہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
جہاں حال ماضی سے بدتر ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کا آسیب‘ کردار اور چہروں کی تبدیلی کے باوجود ہمارے حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی جکڑے ہوئے ہے۔ مملکتِ خداداد کی حالتِ زار ڈھکی چھپی نہیں‘ تاہم اس کا مستقبل زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں خاندان اقتدار کی میوزیکل چیئر پر اپنی باریاں لگاتے رہے اور ایک دوسرے کو چور ڈاکو اور سکیورٹی رسک بھی برابر کہتے رہے اور جب سرکاری وسائل اور خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع آیا تو ایک دوسرے کے بھائی بن کر وسائل کے بٹوارے کے ساتھ ساتھ اقتدار کے بٹوارے پر بھی بخوشی راضی ہوتے رہے تاہم عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر برسانے کی نورا کشتی بھی اس سیاسی سرکس کا اہم آئٹم رہی ہے۔
دو پارٹی نظام سے تنگ آ کر عوام نے جنہیں نئے پاکستان کا بانی سمجھ کر مینڈیٹ دیا‘ انہوں نے بھی دونوں خاندانوں کے ریکارڈ‘ ریکارڈ مدت میں ہی توڑ ڈالے۔ کوئی پرانے پاکستان کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے تو کوئی نئے پاکستان پر نازاں ہے اور اترائے پھرتا ہے۔ ان سبھی سماج سیوک نیتاؤں کے اپنے اپنے ایجنڈے‘ اپنے اپنے عزائم‘ اپنی اپنی توجیہات‘ اپنے اپنے جواز‘ اپنی اپنی مجبوریاں‘ اپنی اپنی مصلحتیں اور اپنا اپنا پاکستان ہے۔ ان سبھی کے براہِ راست متاثرہ عوام ہر دور میں ہی ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا بھی کوئی ہے؟ کاش عوام کا بھی کوئی پاکستان ہوتا تو شاید نہ نئے پاکستان کا چورن بکتا اور نہ پرانے پاکستان کو کبھی یاد کیا جاتا۔ کاش ایسا ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved