تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-09-2021

سرخیاں، متن، بصیرت اور اقتدار جاوید

قانون‘ آئین کی حکمرانی مفاہمت سے
ملے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''قانون‘ آئین کی حکمرانی مفاہمت سے ملے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘ اور یہ بھی دیکھیے کہ مفاہمت کو ایک ایسی چیز سے مشروط کیا ہے کہ جو دراصل کوئی شرط ہے ہی نہیں کیونکہ قانون اور آئین کی حکمرانی تو ملک میں پہلے سے ہی موجود ہے جو ہمارے لوگوں کے عدالتوں میں پیش ہونے ہی سے ثابت ہے جبکہ اس بیان کو ایک واضح یوٹرن بھی کہہ سکتے ہیں اور چونکہ پارٹی بیانیے کا سٹیرنگ میرے اپنے ہاتھ میں ہے، اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ آپ اگلے روز ساہیوال ڈویژن کے اجلاس سے وڈیو خطاب کر رہے تھے۔
شہباز شریف دم کرائیں ، نون لیگ میں
تین گروپ بنیں گے: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف دم کرائیں ، نون لیگ میں تین گروپ بنیں گے‘‘ اور دم کے لیے ہماری خدمات ہر وقت حاضر ہیں اور اگر شہباز شریف پر کوئی سایہ ہے تو اسے دور کرنا بھی ہمارے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے جبکہ دائیں ہاتھ کو زحمت ہی نہیں دی جاتی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موصوف کو کوئی جن چمٹا ہوا ہو جسے نہایت آسانی سے نکالا جا سکتا ہے حتیٰ کہ خود شہباز شریف کو اس قابل بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود ان کاموں میں مہارت حاصل کر سکیں اور ان کی پارٹی میں اس طرح کی ہر محتاجی ختم ہو جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
خواب دیکھا ہے، اکتوبر 2022
میں الیکشن ہوں گے: منظور وسان
پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے نائب صدر اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر منظور وسان نے کہا ہے کہ ''خواب دیکھا ہے، اکتوبر 2022ء میں الیکشن ہوں گے‘‘ اور اگر نہ بھی ہوئے تو اس کی تیاریاں ضرور ہو رہی ہوں گی جبکہ ویسے بھی کافی عرصے سے میری پیش گوئیاں اور خواب غلط ثابت ہورہے ہیں بلکہ کچھ پتا نہیں چلتا اور اچھا بھلا خواب بدخوابی میں تبدیل ہو جاتا ہے اس لیے میں نے خواب دیکھنا ہی چھوڑ رکھے ہیں، اور اب میں کافی خواب دن میں ہی دیکھ لیتا ہوں؛ البتہ ایک خواب دیکھنے کی تیاری میں زور و شور سے کر رہا ہوں جس کے ذریعے میں اپنے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کو دورۂ امریکا کے حوالے سے کوئی خوشخبری دے سکوں کیونکہ اب ہمارا سارا دارومدار اسی پر ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ماضی میں منصوبے کم، ناجائز
اثاثے زیادہ بنائے گئے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''ماضی میں منصوبے کم، ناجائز اثاثے زیادہ بنائے گئے‘‘ حالانکہ اگر دونوں کا حساب برابر رکھا جاتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا کہ آخر تناسب اور مساوات بھی کوئی چیز ہے، اور یہ کام کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں تھا اور جس کا نہایت سہل طریقہ یہ تھا کہ اگر ایک منصوبہ بنایا جاتا تو ساتھ ہی ایک اثاثہ بھی بنا لیا جاتا جس سے حساب بھی برابر رہتا اور کسی کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوتا؛ چنانچہ ہم نے اس ضمن میں پوری احتیاط برتی ہے اور اگر خدانخواستہ ہمارے اثاثے نکلے بھی تو منصوبوں کی تعداد ان سے زیادہ ہی ہو گی، کم نہیں، لہٰذا ہم سے اس قسم کی بداحتیاطی کی توقع نہ کی جائے،پیشگی شکریہ۔ آپ اگلے روز لاہور میں رائے حسن نواز، فیصل نیازی اور صاحبزادہ محمود سلطان سے ملاقات کر رہے تھے۔
بصیرت
یہ حال ہی میں انتقال کر جانے والے سابق بیورو کریٹ، کالم نویس، محقق اور دانشور ڈاکٹر صفدر محمود کی تصنیف ہے، انتساب اہلِ بصیرت کے نام ہے۔ پس سرورق مصنف کی طبع شدہ دیگر تصانیف کا اندراج ہے جو انگریزی اور اردو ملا کر 18 بنتی ہیں۔ پسِ سرورق درج اطلاع کے مطابق یہ کتاب محترم جناب ڈاکٹر سید وارثی صاحب (شکاگو) اور محترم جناب ڈاکٹر سید جاوید ہاشمی صاحب (فلوریڈا) کے تعاون سے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے لیے تحفتاً تقسیم کی جا رہی ہے۔ پیشِ لفظ مصنف کا قلمی ہے، بصیرت کے متلاشی افراد کے لیے عمدہ مضامین پر مشتمل یہ کتاب ایک گراں قدر تحفے اور سوغات سے کم نہیں ہے۔
اور‘ اب آخر میں اقتداو جاوید کی نظم:
سرخ مینار پر نصب
زمانے میں ہے اک گھڑی / آخری کھونٹ میں / سرخ مینار پر نصب/ کوئی بھی اس سمت جاتا نہیں ہے/ کئی راز ہیں اس جگہ کے / مگر کوئی رازوں سے پردہ اٹھاتا نہیں ہے/ زمانے کی آنکھوں سے اوجھل کھڑی/ دائمی وقت پر اک گھڑی / میں جڑا ہوں/ اسی دائمی وقت سے / جوزمانے سے اوجھل کھڑے/ سرخ مینار والی گھڑی پر کھڑا ہے/ مگر کون جانے / گھڑی کون سے وقت پر/ منجمد ہوگئی تھی/ وہ کیسی پُراسرار طاقت تھی/ جو وقت آگے بڑھاتی تھی/ اور سوئیوں کی پُراسرار ٹک ٹک / زمانوں میں رستے بناتی تھی/ ماضی کو ماضی بھرے غار میں ڈالتی تھی/ اجالوں میں لاتی تھی دن/ چپ درختوں کے تاریک سائے میں / گم صم کھڑی / کچھ بتاتی نہیں ہے/ وہ کیسی نگاہوں کو بھرتی ہوئی/ صبحِ خنداں تھی/ کیسی سیہ رات تھی / کس پہاڑی کے پیچھے/ افق لال کرتے ہوئے شام اتری تھی/ جب وہ گھڑی رک گئی تھی / کوئی تو بتائے/ کوئی تو زمانوں کے بوجھل، سیہ رنگ/ پردے اٹھائے/ ہوا کوئی آئے، اڑائے/ مجھے لے کے جائے/ درختوں کے پیچھے کھڑے / سرخ مینار کے پاس / کہنہ گھڑی سے ملائے مرا وقت/ میں خود ہوں بچھڑا ہوا وقت سے/ جاکے خود کو گھڑی سے ملائوں/ گھڑی بھر گھڑی کو میں دیکھوں / میں لَے میں اترتے ہوئے/ خود کو / طاقت بھری سوئیوں سے ملائوں / میں خود چل پڑوں / میں گھڑی کو چلائوں
آج کا مقطع
ظفرؔ وہ سانولا، چھوٹا سا ہاتھ رکھ دل پر
کہ وہ بھی دیکھے سفینہ خطر میں اتنا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved