تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     22-07-2013

مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی نئی لہر

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دو روز قبل 6افراد کی ہلاکت کے خلاف کشمیری عوام کی احتجاجی تحریک جاری ہے۔ حکومت نے پرتشدد مظاہروں کے خدشات کے پیشِ نظر سری نگر کے علاوہ ریاست کے تمام بڑے شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ لیکن جمعہ کے روز ساری وادی میں لوگ کرفیو کی پابندیوں کو توڑ کر سڑکوں پر نکل آئے۔ بے گناہ شہریوں کی شہادت اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے بھارتی فوج اور حکومت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔ بعض مقامات پر ان کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور ان میں مظاہرین کے علاوہ ریاستی پولیس کے متعدد سپاہی بھی زخمی ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام کی طرف سے بھارتی فوج اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج کا یہ نیا اور پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 1990ء سے آج تک مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہزاروں کشمیری نوجوان شہید ہوچکے ہیں۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دوسری اقوام کی طرح اپنے لیے آزادی کا حق مانگ رہے تھے۔ آزادی‘ جس کا وعدہ ان سے نہ صرف اقوام متحدہ نے کیا تھا بلکہ بھارت کے سابق وزیراعظم پنڈت نہرو نے بھی اس کی ہامی بھری تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں آج تک جتنی بھی خون ریزی ہوئی ہے اور آئے روز کہیں نہ کہیں احتجاج کی جو آگ بھڑک اٹھتی ہے اس کی بنیادی وجہ بھارت کی طرف سے بزور طاقت کشمیر پر اپنے قبضے کو جاری رکھنے کی کوشش ہے حالانکہ خود بھارت کے اندر سنجیدہ حلقے بھی اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ طاقت کے بے تحاشا استعمال پر مبنی بھارتی حکومت کی یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے اور اس کا بھارت کے دیگر حصوں میں جاری علیحدگی پسند اور مسلح تحریکوں سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قانونی طور پر کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن حقائق سے آنکھیں بند کرکے بھارت نے اب تک کشمیر کے بارے جو اپروچ اختیار کیے رکھی ہے اس کی وجہ سے حالات سدھرنے کی بجائے پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بدتر ہوچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی بپا ہوئی بلکہ خود بھارت کے لیے یہ صورتحال نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک معمول کے مطابق پرامن تعلقات قائم نہیں ہوئے تو اس کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ امید تھی کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ اپنی وزارت عظمیٰ کی دوسری مدت میں کشمیر پالیسی میں لچک پیدا کرکے اس کے دیرپا حل کی طرف اہم قدم اٹھائیں گے کیونکہ خود ان کے ایک سابق بیان کے مطابق 2004ء سے 2007ء کے عرصہ میں پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن بھارتی حکومت نے سلسلے کو آگے بڑھانے کی بجائے چند ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں اعتدال پسند عناصر نے بھی مایوس ہو کر کشمیری مجاہدین کی حمایت شروع کردی ہے۔ ان اقدامات میں سب سے قابل مذمت وہ قانون ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی افواج کو خصوصی اختیارت دیے گئے ہیں۔ ریاست کشمیر کے وزیراعلیٰ عمرفاروق کی حکومت‘ جس میں کانگریس بھی شامل ہے، نے متعدد بار اس ایکٹ کی تنسیخ کا مطالبہ کیا لیکن اطلاع کے مطابق بھارتی فوج کی مخالفت کی وجہ سے سپیشل پاورز کے اس قانون کو واپس نہیں لیا جاسکا۔ اگر ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت آرٹیکل 370کو معطل کرکے مقبوضہ کشمیر میں 1954ء سے پہلے کی صورتحال بحال کر دیتی تو کشمیر ی عوام کی ناراضگی کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا تھا لیکن اس سمت قدم بڑھانے کی بجائے ہر بھارتی حکومت نے‘ جن میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت بھی شامل ہے، کشمیری عوام کی آزادیوں کو اس مفروضے پر سلب کرنے کی کوشش کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں عوام کے ہر مطالبے اور تحریک کو طاقت کے بے دریغ استعمال سے دبایا جاسکتا ہے۔ جمعرات کے روز سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک بھی بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے نہتے اور غیر مسلح شہریوں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال کا نتیجہ ہے۔ اس کا اعتراف خود وزیراعلیٰ عمر فاروق نے کیا ہے اور بی ایس ایف کی اس بلا اشتعال فائرنگ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جس کے نتیجے میں جموں کے علاقے رادیش میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ریاستی حکومت کے علاوہ بھارت کی دیگر سیاسی جماعتوں‘ جن میں بھارتی کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) بھی شامل ہے، نے بھی فائرنگ اور ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کی تحقیقات اور اس کے ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کو سختی سے دبانے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ ماہ وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کے ہمراہ مقبوضہ کشمیر تشریف لے گئے تھے۔ ان کے دورے کا مقصد جموں کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی ریلوے لائن کا افتتاح تھا۔ اس دورے میں انہوں نے کشمیر کے حوالے سے صرف ترقیاتی اقدامات کا ذکر کیا حالانکہ پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی جس طرح شدید خواہش کا دونوں جانب سے اظہار کیا جارہا ہے اس کے پیش نظر اگر ڈاکٹر من موہن سنگھ مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کے بارے میں کوئی بیان دیتے تو موجودہ ناخوشگوار صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ 2014ء میں لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر کانگریس کی موجودہ حکومت کشمیر پر لچک دار موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ کیونکہ اس سے کانگریس کی مخالف جماعتوں خصوصاً بی جے پی کو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت پر تنقید کا موقع ملے گا۔ کشمیر میں لگی آگ کو بجھانے کے بجائے کانگریس حکومت کی نظریں 2014ء کے پارلیمانی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں۔ اس کے خیال میں کشمیر میں سخت گیر پالیسی اختیار کرکے وہ آئندہ انتخابات میں پوزیشن بہتر بنا سکتی ہے‘ لیکن بھارتی حکومت کو یہ احساس نہیں کہ اس کی کوتاہ نظری کی اس پالیسی سے خطے کے امن پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ کشمیر میں یہ تلاطم عین اس موقع پر پیدا ہوا ہے یا پیدا کیا گیا ہے جب پاکستان کی نئی منتخب حکومت جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی کی خاطر ہمسایہ ممالک بشمول بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے پر تیار نظر آتی ہے۔ اگر بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی اور بے اعتنائی کی وجہ سے کشمیریوں کی شکایات دور نہیں کی جاتیں اور طاقت کا استعمال جاری رہا توبھارت پاکستان کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک تاریخی موقع ہاتھ سے گنوا دے گا۔ اس کوتاہی کے جو نقصانات ہوں گے ان کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved