''جواہر لال نہرو 1947ء میں ریفرنڈم کے سلسلے میں جب صوبہ سرحد میں اپنی رابطہ عوام مہم پر آئے تھے تو ان پر گندے انڈے اور ٹماٹر ہم قبائلیوں نے ہی پھینکے تھے‘‘۔ یہ الفاظ ایک بوڑھے قبائلی کے تھے جو اس نے اپریل2004ء میں مولوی نیک محمد اور اس وقت کے کور کمانڈپشاور کے مابین ہونے والے معاہدۂ شکئی کے وقت ادا کیے تھے۔ شاید قبائلیوں کی پاکستان سے وارفتگی اور بے لوث محبت ہی کی وجہ سے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنتے ہی حکم جاری کر دیا تھا کہ وزیرستان میں گزشتہ پچیس برسوں سے انگریزی حکومت کی تعینات کردہ فوج کو واپس بلایا جائے۔ اس وقت وزیرستان میں فوج کو رزمک بریگیڈ، بنوں بریگیڈ،وانا بریگیڈ اور کرزئی بریگیڈ کے نام سے تعینات کیا گیا تھا۔ یہ فورس وزیرستان ایریا کمانڈ کے تحت تھی اور اس کا ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اسما عیل خان میں تھا۔ قائد اعظم کے اس حکم پر سول انتظامیہ کے بڑے لوگوں اور فوج میں موجود انگریز افسروں نے یہ کہتے ہوئے ڈرانا شروع کر دیا کہ وزیرستان سے فوج واپس بلانے کا نتیجہ منفی ہو گا اور قبائلی ہمیں سخت پریشان اور تنگ کرناشروع کر دیں گے مگر قائد اعظم نے ان کے اعتراضات سننے کے بعد بھری میٹنگ میں ان سب سے کہا '' قبائلیوں کی پاکستان سے وفاداری عسکری طاقت کے ذریعے حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ یہ مجھ سے الگ ہو جائیں‘‘۔ پھر سب نے دیکھا کہ قائد کے حکم پر اکتوبر1947ء میں ''آپریشن کرزن‘‘ کے نام سے قبائلی علاقوں سے پاکستانی فوج کے انخلا کا حکم جاری کر دیا گیا۔ یہ امن وا مان اس وقت تک رہا جب تک2004ء میں ان قبائلی علاقوں میں سماج دشمن عناصر اور مفرور مجرمان نے پناہ نہیں لے لی۔
قبائلی علا قوں میں رہنے والے غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کی شرائط پر ہونے والے معاہدہ شکئی پر دستخط ہوئے مگر ابھی اس معاہدے کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ نیک محمد نے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ وہ پہلے کی طرح‘ القاعدہ سے بھر پور تعاون جاری رکھے گا۔ اس کا یہ بیان اس بات کا اشارہ تھا کہ'' شکئی امن معاہدے‘‘کی کوئی حیثیت نہیں۔ابھی نیک محمد کے اس انٹر ویو کی باز گشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کچھ دنوں بعد اس نے ایک اجتماع میں کھلے عام سربراہِ مملکت کو قتل کرنے کا اعلان کر تے ہوئے اس معاہدے کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکال کر رکھ دی جس کے بعد 6 جون 2004ء کو پاکستان کی سر زمین پر امریکا کی جانب سے پہلا ڈرون حملہ کیا گیا جس میں نیک محمد ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد اس وقت کے کور کمانڈر پشاور کی کوششوں سے ایک بار پھر شدت پسندوں کے ساتھ 7 مئی2005ء کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سراروغا قلعہ میں ایک امن معاہدہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ تحریک طالبان پاکستان کے بانی امیر بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا گیا تھا، اس تقریب میں عسکری حکام‘سول انتظامیہ اور بیت اللہ محسود کے ساتھ آئے ہوئے اس کے ایک ہزار کے قریب لشکرنے شرکت کی تھی۔ اس میں بیت اللہ محسود کی جانب سے واضح یقین دہانی کرائی گئی کہ القاعدہ یا کسی بھی دوسری شدت پسند تنظیم سے نہ تو کسی قسم کا رابطہ رکھا جائے گا اور نہ ہی انہیں پاکستان کے قبائلی علا قوں میں پناہ دی جائے گی، اگر اس قسم کا کوئی گروہ اس علاقے میں موجود پایا گیا تو نہ صرف یہ کہ سکیورٹی فورسز کو اطلاع دی جائے گی، بلکہ اسے پکڑ کر خود سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا جائے گا۔ سراروغا معاہدہ ٔامن کی اس شاندار تقریب میں بیت اللہ محسود کو خصوصی طور پر ہار پہنائے گئے اور اسے ''امن کا سپاہی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا،لیکن یہ سب بھی ایک دھوکا اور فریب ثابت ہوا۔شاید بیت اللہ محسود کے ساتھ معاہدے کرنے کے بعداس کی اور قبائلی علاقوں کی طرف سے مکمل اطمینان کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لی گئی تھیں۔ اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیت اللہ محسود نے غیر محسوس طریقے سے اپنی طاقت بڑھانا شروع کر دی،اس نے وزیرستان سمیت ارد گرد کے علا قوں کے نوجوانوں کو بھاری اور پُر کشش مشاہروں پر اپنے لشکر میں بھرتی کرنے کے بعد انہیں کڑی گوریلا تربیت دینے کا آغاز کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے قائم کیا گیا یہ لشکر بیس ہزار سے بھی تجاوز کر گیا۔ علاقے کی سول انتظامیہ سمیت پولیٹیکل ایجنٹ یہ تک نہ جان سکے کہ اتنی بڑی گوریلا فوج کی بھاری تنخواہوں‘ گاڑیوں‘ جیپوں‘ ہیوی موٹر سائیکلوں‘اسلحے‘ خوراک اور پٹرول وغیرہ کے اخراجات کیسے ادا کیے جا رہے ہیں، بیت اللہ محسود کو فنڈز کون فراہم کر رہا ہے؟
بیس ہزار کے قریب جب بیت اﷲ محسود کے ایک اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے والا لشکر تیار ہو گیا تو اس کے رویے میں واضح تبدیلی آ گئی، اس نے علاقے کے قبائلی عمائدین کو ایک ایک کر کے اپنے راستے سے ہٹانا شروع کر دیا اور اس کیلئے اس نے اپنے لشکر میں یہ بات پھیلانا شروع کر دی کہ یہ قبائلی امریکا اور مغرب کے ایجنٹ اور مخبر ہیں۔اس طرح ملک بھر میں جھوٹے بیانیے پر مبنی ایک سوچ کو پھیلایا گیا اور پنجاب، کے پی، آزاد کشمیر، کراچی اور قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے عام نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی کہ یہ سب افراد ملک و مذہب کے دشمن اور امریکا کے ایجنٹ ہیں اور انہیں قتل کرنا عین ثواب ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں بیت اﷲ محسود نے125 کے قریب سر کردہ قبائلی عمائدین کو ان نوجوانوں کے ہاتھوں اس طرح قتل کر ا دیا کہ ان کی لاشیں کھمبوں کے ساتھ چوکوں اور چوراہوں میں لٹکائی جانی لگیں۔ پہلے جہاں قبائلی مَلکوں کا حکم چلتا تھا‘ جو اپنے علاقوں میں سیاہ وسفید کے مالک ہوا کرتے تھے‘ اب وہ بیت اﷲمحسود کے لشکراور اس کے کمانڈروں کے رحم و کرم پر رہ گئے تھے۔ 125 بڑے بڑے قبائلی سرداروں کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد بیت اﷲ محسود اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے کہ انہوں نے30 اگست2007ء کو عساکر کے200 سپاہیوں پر مشتمل ایک دستے کو جنوبی وزیرستان میں گرفتار کر لیا اور انتظامیہ کو پیغام بھیجا کہ اس کے گرفتار کیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ دو دن بعد اس نے تین فوجیوں کے سر قلم کر کے ایک چوک میں پھینک دیے جس پراس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے مختلف جیلوں میں بند بیت اﷲمحسود کے ساتھی25 دہشت گردوں کو رہا کرنے کا حکم دیا مگر ان کی رہائی کے بعد بھی فوجیوں کو فوری نہیں بلکہ دو ماہ بعد نومبر 2007ء کے پہلے ہفتے میں ٹی ٹی پی نے تھوڑا تھوڑا کر کے رہا کیا۔
افغانستان‘ جہاں ٹی ٹی پی کومحفوظ پناہ گاہیں، اسلحہ اور دولت کے انبار ملتے رہے‘ اب وہاں طالبان اپنے قدم جما رہے ہیں لیکن ابھی تک پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بہت سے کمیونسٹ اور ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے لوگ خود کو چھپائے ہوئے ہیں جن کی ہمدردیاں بھارت اور این ڈی ایس سمیت کرزئی اور اشرف غنی ٹولے کے ساتھ ہیں۔ کبھی کسی لسانی اور قومیتی جماعت تو کبھی کسی قوم پرست لیڈر کی شکل میں بلوچستان اور قبائلی علاقوں سمیت کے پی میں غیر ملکی فنڈنگ پر پلنے والے اس ٹولے کو سیف ہائوسز فراہم کئے جاتے رہے۔ شمالی وزیرستان میں آئے روز سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے بتا رہے ہیں کہ کرزئی اور غنی انتظامیہ اور را کے پالتو یہ لوگ ابھی دبک کر بیٹھے ہیں‘ ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔ این ڈی ایس افغانستان سے بھاگ کر دو ہی جگہ پناہ لے سکتی ہے؛ بلوچستان اور کے پی کے افغان سرحدی علاقوں میں یا پھر پنج شیر کے تاجک سرحدی علاقے میں۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایجنٹس اب بھی انہیں سنگلاخ پہاڑوں کے پوشیدہ غاروں اور خفیہ ٹھکانوں میں روپوش ہیں اور یہیں سے وہ سکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔