افغانستان میں ڈیڑھ ماہ کے دوران جو کچھ ہوا‘ اُس نے پورے خطے کے معاملات بدل کر رکھ دیے ہیں۔ کل تک جن معاملات کو خفیف سی اہمیت دی جارہی تھی‘ اب انہیں غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہو جانے کے نتیجے میں خطے کا سیاسی اور تزویراتی نقشہ بدل گیا ہے۔ خطے کا ہر ملک چاہتا ہے کہ اس نئی صورتِ حال سے اپنے لیے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور کشید کرے۔ چین اور روس چونکہ بڑے، طاقتور اور نمایاں ہیں اس لیے انہیں اس صورتِ حال سے، منطقی طور پر زیادہ فائدہ پہنچنا چاہیے‘ اور پہنچ رہا ہے۔ روس اس حوالے سے غیر معمولی تحرک کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چین بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چینی قیادت کہیں بھی عسکری تصادم اور خونیں مناقشے سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ وہ اب تک نرم قوت پر منحصر رہی ہے۔ اُس کی بھرپور کوشش ہے کہ معاملات کو مل بیٹھ کر‘ بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ افغانستان کے معاملے میں اُس کا غیر معمولی احتیاط سے کام لینا بھی اِسی ذیل میں ہے۔
افغانستان سے امریکا جس بھونڈے انداز سے نکلا اُس پر دنیا بھر میں طنز کے تیر بھی برسائے گئے اور تنقید بھی بہت ہوئی ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس کی طرح چینی میڈیا نے بھی امریکا کی ساکھ میں واقع ہونے والی خرابی اور کمزوری کو خوب نمایاں کرکے دنیا کے سامنے رکھا۔ چینی میڈیا نے امریکا کو دنیا بھر میں شدید بے چینی اور خرابی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ بھی قرار دیا۔ امریکا کو ہر معاملے میں بالا دستی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ وہ باقی دنیا کو مطیع و فرماں بردار بناکر رکھنا چاہتا ہے۔ بالا دستی یقینی بنائے رکھنے کے جنون پر مبنی پالیسیوں کے باعث امریکا کو دنیا بھر میں شدید تنقید اور مخالفت کے ساتھ ساتھ مخاصمت کا بھی سامنا ہے۔
افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ امریکا کے لیے انتہائی پریشان کن تھا کیونکہ عالمی برادری کے سامنے اُس کی خاصی سُبکی ہوئی۔ اس کی سپر پاور کی حیثیت متاثر ہوئی ہے کیونکہ بہت کوشش کرنے پر بھی وہ افغانستان میں معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں ناکام رہا ہے۔ سپر پاور ہونے پر بھی اسے جس انداز کی سُبکی کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ چین کے لیے ایک اچھا موقع ثابت ہوئی۔ چینی قیادت نے افغانستان میں معاملات کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کی طرف قدم بڑھانے میں دیر نہیں لگائی۔ طالبان رہنماؤں نے چین کے دورے کیے اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات بھی کی۔ طالبان قیادت چاہتی ہے کہ اُن کے ملک کو حقیقی استحکام سے ہم کنار کرنے میں چین نمایاں کردار ادا کرے۔ یہ نمایاں کردار معیشت کے حوالے سے ہوسکتا ہے۔ طالبان قیادت کی خواہش ہے کہ چین بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے۔ سرمایہ کاری کے لیے چین تیار ہے اور کر بھی رہا ہے؛ تاہم اُس نے ابھی تک احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ افغانستان میں کم و بیش 300 ارب ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر ہیں۔ اِن میں لیتھیم بھی شامل ہے جس کا استعمال ہائی ٹیک سیکٹر میں زیادہ ہے۔ معدنیات کی تلاش اور پیداوار یقینی بنانے میں چین گہری دلچسپی لے رہا ہے اور سرمایہ بھی لگا رہا ہے۔ تانبے کی کانوں میں بھی چین نے خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے باوجود چینی قیادت اس بات کو ذہن نشین کیے ہوئے ہے کہ افغانستان میں صورتِ حال کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہے یا کوئی ایسا رُخ اختیار کرسکتی ہے کہ بہت کچھ اُس کے ہاتھ میں نہ رہے۔
طالبان چاہتے ہیں کہ افغانستان میں مصالحتی عمل کو پائیدار اور بارآور بنانے کے لیے چین نمایاں کردار ادا کرے۔ چین اس معاملے میں ضامن کا کردار ادا کرنے کے لیے بظاہر تیار نہیں؛ تاہم وہ اس عمل میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کرے گا؛ البتہ معاملات کی پیچیدگی دیکھتے ہوئے چینی قیادت افغانستان میں کوئی بڑا یا واضح کردار ادا کرنے سے حتی الامکان گریز کرے گی۔ چینی قیادت کے محتاط ہوکر چلنے کا ایک سبب تو یہ ہے کہ افغانستان اُس کی سٹریٹیجک ترجیحات میں کبھی اِتنا نمایاں نہیں رہا کہ وہ اِس طرف بہت زیادہ متوجہ ہو۔ افغانستان میں امن چین کی بھی خواہش ہے مگر وہ اس معاملے کو اتنا زیادہ نہیں بڑھانا چاہتا کہ دوسرے بہت سے معاملات خرابی کی نذر ہو جائیں۔
واشنگٹن کے نیوز لائنز انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجی اینڈ پالیسی کے تجزیہ کار عظیم ابراہیم کا کہنا ہے کہ افغانستان سے چین کے زیادہ مفادات وابستہ نہیں؛ تاہم پھر بھی وہ چاہے گا کہ اُس کے پڑوس میں امن و استحکام رہے تاکہ اُس کے معاشی منصوبے بحسن و خوبی تکمیل سے ہم کنار ہوں۔ افغانستان کا امن پاکستان کے لیے بھی ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری سے تیار کی جانے والی اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان سے گزر رہی ہے۔ اِس منصوبے کی کامیابی کے لیے افغانستان میں امن لازم ہے۔ یہی سبب ہے کہ چینی قیادت پاکستان میں معاملات کی بہتری کے لیے افغانستان میں بھی بہتری کی خواہاں ہے۔ یہ وقت ہمارے لیے بھی ڈٹ کر کھڑے رہنے کا ہے۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی اب بھی چین کی راہیں مسدود کرنے کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ افغانستان میں چین کے اثر و نفوذ کو ایک خاص حد تک رکھنے کے معاملے میں امریکا تساہل سے کام نہیں لے گا۔ وہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر چین کو بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے خطوں میں پریشان کرنا اور الجھاکر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے آسٹریلیا کو بھی ساتھ ملالیا گیا ہے۔
پاکستان اور چین کے مفادات لازم و ملزوم ہیں۔ مشترکہ دشمن‘ بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی چین سے دوستی اور شراکت لازم ہے۔ دوسری طرف چین بھی تجارت اور سٹریٹیجی‘ دونوں نقطۂ نظر سے پاکستان کا ضرورت مند ہے۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں متوازن اور زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہوں۔ چین اور روس کے ساتھ مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ چین غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ وہ کسی نہ کسی حد تک تحفظات کا شکار ہے۔ اگر ہماری پالیسیوں میں توازن پیدا ہو اور وہ خطے میں اپنے لیے کوئی واضح کردار متعین کرلیا جائے تو چین بھی آگے بڑھنے کا حوصلہ پائے گا۔ چین عالمی سیاسی و معاشی نظام میں اپنے لیے واضح اور نمایاں کردار چاہتا ہے۔ وہ عالمی مالیاتی نظام پر مغرب کی گرفت کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت عالمی تجارت مغرب کے تیار کردہ مالیاتی نظام سے چَھن کر گزرتی ہے جس کے نتیجے میں مغربی دنیا بظاہر کچھ کیے بغیر بہت سے غیر معمولی فوائد بٹور لیتی ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی کرنسیاں عالمی تجارت میں بہترین اور موزوں ترین زرِ مبادلہ کے طور پر کام کر رہی ہیں اور چین چاہتا ہے کہ اب اُس کی کرنسی یوآن کو بھی یہی درجہ ملے۔ علاقائی سطح پر وہ اِس کے کامیاب تجربے کر بھی چکا ہے۔ پاکستان اور روس کے ساتھ مل کر وہ ایک الگ دنیا بسانا چاہتا ہے۔ ہم اس وقت مخمصے کی حالت میں‘ ایک عجیب دوراہے پر کھڑے ہیں کیونکہ ایک طرف ہمارے مفادات مغرب سے جُڑے ہیں اور دوسری طرف چین بھی غیر معمولی کشش کا حامل ہے۔
چینی قیادت جنوب مشرقی ایشیا اور اوشیانا سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال اُس کے لیے سنہرے موقع کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سنہرے موقع سے وہ اُسی وقت فائدہ اٹھا سکتا ہے جب پاکستان حقیقی معنوں میں اُس کے ساتھ کھڑا ہو۔ چین کا متذبذب رہنا ہمارے لیے بھی دشواریاں پیدا کرے گا کیونکہ ایسی حالت میں ہم بھی صورتِ حال سے بھرپور فوائد کشید کرنے میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ یہ وقت چینی قیادت کو اس بات کا بھرپور یقین دلانے کا ہے کہ اُس کی درست اور بروقت پیش رفت یقینی بنانے کے لیے ہم اُس کے ساتھ کھڑے ہیں۔