چور مسلط ہو گئے، پاکستان جاگ اٹھا: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''چور مسلط ہو گئے، پاکستان جاگ اٹھا‘‘ اگرچہ ملک عزیز کو چوروں کی جنت بھی کہا جا سکتا ہے لیکن چوروں کے مسلط ہو جانے سے عوام تنگ پڑ جاتے ہیں، اس لیے ان کی شہرت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اگر چوری کر رہے ہیں تو اس میں سے کچھ پیسے ترقیاتی منصوبوں اور قوم پر لگا بھی رہے ہیں جس سے ان کی مقبولیت میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ اگلے روزراولپنڈی ڈویژن اجلاس سے وڈیو خطاب کر رہے تھے۔
روپے کی قدر مزید گرنے سے مسائل
پیدا ہوں گے: عبدالرزاق دائود
وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے کہا ہے کہ ''روپے کی قدر مزید گرنے سے مسائل پیدا ہوں گے‘‘ اور یہ انکشاف میری انتہائی غور و فکر کا نتیجہ ہے جو میں قوم کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں کیونکہ آخر اتنے بڑے عہدے پر فائز ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتا ہوں ، اسی لیے میں عوام کو بروقت خبردار کر رہا ہوں کیونکہ اس سے اگر مہنگائی میں مزید اضافہ ہو تو عوام اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بروقت تیاری کر لیں جس پر ہمارا ویسے بھی کوئی اختیار نہیں ہے، اور عوام بھی مہنگائی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ یہ ان کے لیے روٹین کا معاملہ اور معمولی بات ہے۔ آپ اگلے روز ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کررہے تھے۔
بیورو کریسی میں مداخلت کی داغ بیل
شریف خاندان نے ڈالی: فیاض چوہان
پنجاب حکومت کے ترجمان اور وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''بیورو کریسی میں مداخلت کی داغ بیل شریف خاندان نے ڈالی‘‘ جبکہ ہم اس سے مکمل طور پر مبرا ہیں کیونکہ افسر شاہی ہمیں تو گھاس ہی نہیں ڈالتی بلکہ ہمارے ہر کام میں مداخلت کرتی اور اپنی مرضی سے ہی چل رہی ہے بلکہ ہمارے کام میں مداخلت کر کر کے اسے ایک پختہ روایت کے طور پر بھی تسلیم کروا لیا ہے، حتیٰ کہ ہم بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں اور خوب مزے میں ہیں، کیونکہ دونوں کا کام نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہے بلکہ سارے کام خود ہی چل رہے ہیں اور ہمیں کبھی کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ آپ اگلے روز حسبِ معمول لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
سیاسی کارکن ہوں، اداروں کی مخالفت
کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا: خواجہ آصف
مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''سیاسی کارکن ہوں، اداروں کی مخالفت کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا‘‘ البتہ ہمارے قائد محترم کی بات اور ہے کیونکہ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور انہیں سیاسی کہنا سراسر زیادتی ہے کیونکہ جیسے کاروباری آدمی کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، انہوں نے حکومت کو بھی تاجرانہ انداز ہی میں چلایا اور ہمیشہ منافع میں رہے ہیں جو ان کے ملکی اور بیرونِ ملک اثاثوں سے صاف ظاہر ہے اور اداروں کی مخالفت چونکہ ایک نہایت غیر سیاسی فعل ہے اس لیے مجھ سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کررہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں شعیب زمان کی شاعری:
گہرے احساس کی وضاحت ہے
اشک اظہار کی علامت ہے
بھول جاتا ہوں سب ضروری کام
اب یہی حافظے کی حالت ہے
ساری دنیا پرو بھی سکتے ہیں
مصرعِ تر میں اتنی وسعت ہے
چاروں جانب دکھائی دیتی ہے
اس اداسی میں کیسی برکت ہے
لوگ خود سے بھی مل نہیں سکتے
یہ ترقی بھی کیا مصیبت ہے
جب بھی چاہو خرید سکتے ہو
صرف ایک پھول مری قیمت ہے
٭ ...... ٭ ...... ٭
یہ بادل کوئی سازش کررہے ہیں
سمندر پر جو بارش کررہے ہیں
ستارہ چھو نہیں پائے ہمارا
اور اب ماتھے پہ خارش کر رہے ہیں
بہت خوش ہوں لکڑ ہاروں کا سن کر
شجر ہونے کی کوشش کر رہے ہیں
آج کا مطلع
شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا کوئی ہے بھی کہ نہیں