تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     30-09-2021

ایف بی آر، ملکی معیشت اور عوام

قوموں کی ترقی کا انحصار کسی حد تک ٹیکس نظام کی مضبوطی پر ہوتا ہے‘ جس میں عوام کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہے۔ عوامی سطح پر ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری کا احساس ایک مضبوط معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لیں تو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ عوام ٹیکس کی ادائیگی کو زندگی کے دیگرمعاملات کی نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو مجرم اور چور کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں تو ٹیکس چوری کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ پاکستان کے شہری امریکا، یورپ اور کینیڈا میں سرکاری سہولتوں کی مثالیں دیتے ہیں‘ یہ بتایا جاتا ہے کہ تعلیم، میڈیکل، بے روزگاری سمیت تمام بنیادی چیزوں کی ذمہ داری سرکار نے لے رکھی ہے لیکن اس پہلو پر توجہ نہیں دی جاتی کہ ان ممالک کے عوام کتنی ذمہ داری سے اور کتنا زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ عمومی طور پر ہر شخص کی آمدن کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ سرکار ٹیکس کی مد میں وصول کرتی ہے اور کچھ ممالک میں 70 فیصد تک آمدن بطور ٹیکس سرکار کے خزانے میں جاتی ہے، اس کے بعد ہی وہ تمام شہریوں کو بنیادی سہولتیں دینے کے قابل ہو پاتی ہے۔ ان کے برعکس پاکستان میں عوام ٹیکس کو تاوان سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں اپنی مرضی سے ٹیکس دینے کا رجحان نہیں۔ جہاں مجبوراً ٹیکس ریٹرنز جمع کرانا پڑ جائیں تو تقریباً 90 فیصد غلط اعدادوشمار پیش کیے جاتے ہیں۔ اوّل تو صاحبِ حیثیت لوگوں کی اکثریت ٹیکس ادا نہیں کرتی اور اگر بحالت مجبوری ٹیکس ادا کرنا پڑ جائے تو بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ کم سے کم ادائیگی کرنا پڑے۔ ٹیکس بچانے کے لیے کنسلٹنٹ کو بھاری فیس ادا کر دی جاتی ہے لیکن سرکار کے خزانے میں رقم جمع کرانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ عوام کا یہ منفی رویہ ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو رہا ہے۔ ملک چلانے کے لیے آمدن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خصوصی طور پر کاروباری طبقہ ٹیکس ریٹرنز بھرے، اپنی اصل آمدن ظاہر کرے اور جتنا ٹیکس اس کے حصے آتا ہے‘ اسے بروقت ادا کرے۔ عمومی طور پر تنخواہ دار طبقہ ٹیکس چوری میں ملوث نہیں ہوتا کیونکہ تنخواہ ملنے سے پہلے ہی ان کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ ٹیکس چھپانا اور غلط اعدادوشمار پیش کرنا کاروباری طبقے میں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے جونہایت افسوسناک ہے۔
اب حکومت کی جانب سے عوام میں ٹیکس سے متعلق آگاہی پھیلانے کے حوالے سے جو کام کیا جارہا ہے‘ وہ قابلِ تحسین ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اس مقصد کے لیے بالخصوص استعمال کیا جارہا ہے۔ ملک بھر سے اداکاروں، مذہبی رہنماؤں، کالم نگاروں، معیشت دانوں اور سماجی شخصیات کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو بروقت ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی تلقین کی جارہی ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے والوں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت بڑھ جائے گی۔ عمومی طور پر اس طرح کی آگاہی مہم چلانے کے لیے اربوں روپوں کے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے جب میں نے ایف بی آر ذرائع سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس مہم کے لیے سرکار کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ ملک کی بااثر شخصیات سے درخواست کر کے مفت میں وڈیو پیغامات ریکارڈ کرائے گئے ہیں‘ یہاں تک کہ کیمرہ اور مائیک پر بھی کچھ نہیں خرچ کیا گیا۔ معروف شخصیات نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اپنے ذاتی کیمروں سے وڈیوز ریکارڈ کر کے ایف بی آر کو بھجوا دیں۔ ایسا‘ غالباً پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے اور یہ ادارے کی جانب سے بہتر پبلک ریلیشن قائم کرنے کی اچھی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وزیراعظم کی سوچ کے بھی عین مطابق محسوس ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب ہمیشہ سے کم خرچ میں زیادہ فوائد حاصل کرنے کے داعی رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزرا، مشیران اور بیوروکریسی کو تلقین بھی کرتے رہے ہیں۔ نئے چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے اس پالیسی پر کامیابی سے عمل کرنا خوش آئند ہے۔ دیگر محکموں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس طرز پر آگاہی مہم چلانے کے لیے اقدامات کریں‘ اس سے ایک طرف عوام کے ٹیکس کا پیسہ بچے گا اور دوسری طرف عوام اور سرکار کے درمیان تعلق مضبوط ہونے میں مثبت پیش رفت ہو گی۔ عوام میں یہ احساس پیدا کرنے میں بھی مدد مل سکے گی کہ وہ سرکار کے لیے اہم ہیں اورانہی کے عمل و ردعمل سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ایک طرف ایف بی آر کی جانب سے عوام کو ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کے لیے قائل کیا جارہا ہے اور دوسری طرف انہیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کرانے کی صورت میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ صدرِ پاکستان کی جانب سے منظور کیے گئے آرڈیننس کے مطابق‘ نان فائلرز کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں جن میں بجلی‘ گیس کے میٹر منقطع کرنے کے علاوہ موبائل فون سم بلاک کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔ میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح سرکار کو چکما دے کر نکل جائیں گے‘ ان کے لیے اس مرتبہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایف بی آر اور نادرا کو ایک دوسرے کے ڈیٹا تک رسائی دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بینک، شو روم اور ایکسائز سمیت کئی ادارے روزانہ کی بنیاد پر ٹیکس کا ڈیٹا ایف بی آر کو بھجوا رہے ہیں جو ایف بی آر کے سسٹم میں اَپڈیٹ ہو رہا ہے۔ اس بار اسی ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے والوں اور غلط اعدادوشمار دینے والوں کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے، جلد جلد ایسے افراد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق اب تک تقریباً 70لاکھ سے زیادلوگوں کی شناخت کی جا چکی ہے جن کا وِد ہولڈنگ ٹیکس کٹ رہا ہے لیکن وہ ریٹرنز جمع نہیں کرا رہے۔
یہ ایک دن کی محنت نہیں ہے۔ ٹیکس کے نظام کو ڈیجیٹل بنانے میں تحریک انصاف کی تین سال کی محنت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق پنجاب میں ای پے موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے سروسز پہ سیلز ٹیکس کی مد میں 25 ارب روپوں سے زیادہ آمدن وصول ہو چکی ہے۔ پہلے اس رقم کی ادائیگی کے لیے بینکوں کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن اب یہ کام گھر میں بیٹھ کر بآسانی موبائل کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کے چالان کی مد میں دو ارب روپوں سے زیادہ آمدن موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے ہوئی ہے۔ یہ ڈیٹا صرف پنجاب کے چند بڑے شہروں کا ہے جو یقینا حوصلہ افزا ہے۔ اس کے علاوہ وزیرخزانہ شوکت ترین کے پوائنٹ آف سیل سسٹم کو 5 لاکھ تک لے جانے کے عزم نے بھی ٹیکس سسٹم کو مزید مضبوط بنانے کی امید پیدا کی ہے۔ ٹیکس محصولات کے حوالے سے نیا مالی سال بھی خوشخبریاں لا رہا ہے۔ پہلے دو ماہ میں ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو جانا نظام کی درستی کی طرف اشارہ ہے۔ ممکنہ طور پردرست سمت میں کی گئی محنت ثمر آور ثابت ہو رہی ہے لیکن یہ کوششیں حقیقی معنوں میں اسی وقت رنگ لائیں گی جب عوام حکومت اور ادارے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ جتنی توانائی سرکار ٹیکس اکٹھا کرنے پر لگا رہی ہے‘ اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری عوام کو ٹیکس جمع کرانے کے لیے دکھانا ہو گی۔ آج ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے، اس لیے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فوری ٹیکس ریٹرنز اور واجب الادا ٹیکس جمع کرائیں اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved