تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     01-10-2021

الیکشن کمیشن بائیو میٹرک اور آرٹی ایس کو جدید بنائے!

آئندہ عام انتخابات کے پس منظر میں پنجاب کے نئے چیف سیکرٹری نے نئی طرزِ حکومت کیلئے ویسا ہی وژن پیش کیا ہے جس طرح کا 1976ء میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بیوروکریٹس نے انتخابات میں کامیابی کے لیے پیش کیاتھا مگر جیسے ہی عام انتخابات کا طبل بجا تو ان کے سارے منصوبے زمین بوس ہوگئے۔ انہوں نے کرپشن کے تسلسل‘ مسلسل ٹرانسفر پوسٹنگ‘ عہدے کی میعاد سے متعلق عدم تحفظ‘ غلط ٹیم کا انتخاب اور نیب کے ڈر کو نئی طرز حکمرانی کو خراب کرنے کے بڑے اسباب قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ بلدیاتی نظام کی معطلی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے طرزِ حکمرانی پر منفی اثرات مرتب ہونے کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جبکہ تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ سیکرٹری صاحب نے ماضی کی حکومتوں کی ناکام پالیسیوں کی فائلوں میں سے پرانا مواد نئے انداز میں پیش کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایسے وژن پر دھیان نہیں دینا چاہیے بلکہ تحریکِ انصاف کے سیکرٹریٹ کے تھنک ٹینک سے بریفنگ لینی چاہیے اور عوام کی سوچ‘ مائنڈ سیٹ اور وفاقی اور صوبائی وزرا کی کارکردگی کے بارے جاننے کے لیے تحریکِ انصاف کے حقیقی کارکنوں کو مدعو کرنا چاہیے اور خوشامدانہ طرزِ عمل کو بالائے طاق رکھا جانا چاہیے۔ عوام کو حقیقت سے آگاہی ہوچکی ہے کہ تحریکِ انصاف نے حکومت میں آنے سے پہلے جو سودن کا وژن دیا تھا اس میں حکومت ناکام رہی اور احتساب کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے ابھی تک حکومت سابق حکمرانوں کا احتساب کرنے میں ناکام ہے اور تین سالوں میں اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لائی جاسکی اور اگلے بیس مہینوں میں بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس سے عوام کا احتسابی عمل سے اعتماد اٹھتا جائے گا اور اس کے اثرات آئندہ انتخابات کی مہم پر بھی پڑیں گے۔اگرچہ قومی احتساب بیورو کے سربراہ جسٹس (ر)جاوید اقبال نے احتساب کے عمل کو غیرجانبدار انہ رکھنے میں بڑی سعی کی ہے لیکن حکومتی ارکان نے دہری گیم کھیلتے ہوئے قومی احتساب بیوروکو مکمل اختیارات دینے سے گریز کیا۔ بھارت میں اسی طرز کا احتسابی ادارہ بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے بنایا تھا لیکن اس ادارے کو وزرا‘پارلیمنٹ کے ارکان اور بیوروکریسی کو براہِ راست گرفتار کرنے کے اختیارات نہیں تھے‘ مگر بعد میں صورتحال میں تبدیلی آئی اور وزیراعظم نرسمہا رائو کو کرپشن کے الزامات میں ہی مستعفی ہونا پڑا‘لہٰذا احتساب بیورو جیسے حساس ادارے کے بارے میں پالیسی بناتے وقت بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کو مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔قومی احتساب بیوروکو اپنے ماٹو کے طورپر حضرت عمر فاروق ؓ کی مثال کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ ریاست مدینہ میں حضرت عمر فاروق ؓنے ہی احتساب کا ایک مستقل محکمہ تشکیل دیا تھا ور انہوں نے جو اصول وضع کیے تھے وہ شبلی نعمانی کی کتاب ''الفاروق‘‘ سے اخذکیے جاسکتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن پر جارحانہ حملے ملک کے آئینی نظام کی بنیادوں کو ہلاکررکھ دیں گے۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرکے مثبت قدم اٹھایا ہے۔پارلیمانی کمیٹی دونوں ایوانوں کے ارکان پر مشتمل ہو گی اور انتخابی اصلاحات کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کرے گی۔ انتخابی اصلاحات کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مکمل خود مختاری دیتے ہوئے اسے قانون سازی کے اختیارات تفویض کیے جائیں اور انتخابی عملے کی کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 55میں ترمیم کرکے انتخابی عملے کو براہِ راست سزادینے کے اختیارات بھی دینے چاہئیں۔ پارلیمانی کمیٹی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن کے 37اعتراضات کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے اور ان کے ازالے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ پارلیمانی کمیٹی کو اپنے پہلے اجلاس میں ان وزرا کے رویے پر تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے جنہوں نے الیکشن کمیشن کی سالمیت اور ساکھ پر حملہ کیا۔ 21 ستمبر کو کابینہ کے اجلاس میں چیف الیکشن کمشنر کے لیے نئی حکمتِ عملی طے کرنے کے بارے میں اظہار ِخیال کیا گیا‘ یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 213 تا 226 کے مطابق الیکشن کمیشن حکومت کے تابع نہیں اور چیف الیکشن کمشنر کو ان کے عہدے سے سبکدوش کرنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 209کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس مسترد کرتے ہوئے جو واضح پالیسی دی ہے اس سے حکومت کو سبق سیکھنا چاہیے۔ اس سے صدرمملکت کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذہ کی تحریک بھی پیش ہوسکتی تھی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ آئینی اداروں سے محاذ آرائی سے حکومت کو ہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ آئینی ادارے کی حیثیت ملک کے آئین کی حیثیت کو ظاہر کرتی ہے۔
ملک میں انتخابات میں دھاندلی کرانے کا سلسلہ 1951ء سے جاری ہے اور اس دھاندلی کو روکنے کے لیے 1954ء میں جسٹس کارنیلئس نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے فارمولہ پیش کیا تھا جس کے مطابق ریٹرننگ آفیسرز کو پابند کیاگیا تھا کہ اپنے اپنے حلقے کے رزلٹ تیارکرتے ہوئے اور بیلٹ پیپر کے کائونٹر فائل پر لگے انگوٹھے کے نشانات چیک کرنے کے لیے مقامی طورپر انگوٹھے چیک کرنے کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔اب اس کا متبادل بائیو میٹرک سسٹم ایجاد ہو چکا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن اور نادرا کو مل کر بائیو میٹرک سسٹم کو فعال بنانا چاہیے اور بیلٹ پیپر ز ووٹر ز کو مہیا کرنے سے پہلے ان کے انگوٹھے کا نشان حاصل کرنا چاہیے جبکہ بیلٹ پیپر پر نشان انگوٹھا ایسی سیاہی سے ثبت ہونا چاہیے جو انمٹ ہو اور جسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نظام چونکہ متنازع ہوچکا ہے اورالیکشن کمیشن سمیٹ تمام سٹیک ہولڈرز نے اس پر عدم اعتماد کردیا ہے لہٰذا بائیو میٹرک سسٹم کو اپنا یا جاسکتا ہے۔یہ الیکشن مکمل مشینی اور مکمل غیر مشینی کے درمیان کی ایک صورت ہو گی جس میں انگوٹھے کے نشان کی حد تک ڈیجیٹل ریکارڈ موجود ہو گا۔ اس طرح آرٹی ایس کو بھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جاسکتا ہے۔آرٹی ایس انتخابی عملے کی مناسب تربیت نہ ہونے اور سمارٹ فونز کی بروقت دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہواتھا۔اس میں اس وقت کی الیکشن کمیشن کی انتظامیہ بھی برابر کی شریک تھی اور نادرا نے اسی خرابی کی نشاند ہی بروقت نہیں کی تھی۔
حاصلِ کلام یہ کہ آئندہ انتخابات کو آئین کے آرٹیکل 218کے مطابق منعقد کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کیا جائے‘وزرا بے جا بیان بازی سے اجتناب کریں اور جو وزرا اس ڈسپلن کی پاسداری نہیں کرتے وزیراعظم کو ا ن سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے‘ نیز بائیو میٹرک سسٹم کو فعال کرنے اور آرٹی ایس کو جدید بنانے کے لیے نادرا کی معاونت حاصل کرنا چاہیے۔یہ سسٹم الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے بہتر ثابت ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved