تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     01-10-2021

ووٹ ڈالنے والے یا گننے والے؟

چوائس بہت ہی سادہ ہے کہ کون جیتے گا کون ہارے گا۔ فیصلہ صرف دو کے درمیان ہوتا ہے، ووٹ ڈالنے والے یا ووٹ گننے والے؟؟
یہ قول میرا نہیں، جوزف سٹالن کا ہے‘ جنگ عظیم دوم کے فاتح روسی کمانڈر۔ اس قول کو رشین آئرن مین جوزف سٹالن کے سیکرٹری مسٹر Boris Bazhanov نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب The Memoirs of Stalin's Former Secretary میں شائع کیا۔ مسٹر Boris Bazhanov روسی رہنما جوزف سٹالن کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے 1923ء تا 1925ء ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ بورس نے روسی Politburo اور گورنمنٹ سیکرٹریٹ میں اور بھی اہم عہدوں پر ذمہ داریاں نبھائیں۔ 9 اگست 1900ء کو روس میں پیدا ہونے والے بورس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ وہ 1928ء میں فرانس کے دورے پر جا کر روس سے منحرف ہو گیا اور فرینچ شہریت حاصل کر لی۔
روس کا تو پتہ نہیں لیکن اپنے ہاں تقریباً ہر الیکشن کا رزلٹ آنے کے بعد جوزف سٹالن کا قول میڈیا ہیڈلائنز میں سچ بن کر اُبھرتا ہے۔ ووٹ ڈالنے والے یا ووٹ گننے والے کے درمیان کی اس سچائی پر ہمارے کئی ووٹنگ تجربات بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ضیاالحق صاحب کے زمانے میں اسلامی نظام بذریعہ مارشل لا نافذ کرنے کے نام پر جو ریفرنڈم ہوا، وہ پرفیکٹ کیس سٹڈی بن گیا۔ اتنا بڑا کیس سٹڈی کہ جس پر نثر کے ساتھ ساتھ لٹریچر میں نظم تک متاثر ہوئی۔ وکی پیڈیا کے مطابق اس کا عنوان پاکستانی اسلامائزیشن پروگرام ریفرنڈم 1984ء رکھا گیا تھا۔ ریفرنڈم کو ضیاالحق صاحب نے مزید پانچ سال تک حکمرانی کرنے کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔ اس ریفرنڈم سے ووٹ گننے والوں کی صلاحیتیں کھل کر دنیا والوں کے سامنے آئیں، جس میں کہا گیا کہ ضیاالحق صاحب کے اقتدار کے حق میں 98.5 فیصد ووٹرز نے اپرووَل کا ووٹ دیا جبکہ اُن کے خلاف پورے ملک سے صرف 3 لاکھ 16 ہزار 918 ووٹ پڑ سکے۔ اُس وقت پاکستان میں ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 49 لاکھ 92 ہزار 425 تھی۔ ایشین سروے نے اس ایکسرسائز کو ووٹنگ ماننے سے انکار کر دیا۔
اس حوالے سے عوامی شاعر حبیب جالب کی ریفرنڈم کے عنوان سے لکھی گئی نظم نے دھوم مچا دی‘ جس کے چند اشعار اس طرح ہیں:
شہر میں ہُو کا عالَم تھا/ جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ/ باہر شور بہت کم تھا
مرحومین شریک ہوئے/ سچائی کا چہلم تھا
دن انیس دسمبر کا/ بے معنی بے ہنگم تھا
یا وعدہ تھا حاکم کا/ یا اخباری کالم تھا
اس کے17 سال 4 مہینے اور 11 دن بعد پرویز مشرف صاحب کے ریفرنڈم کا نزول ہوا۔ اس ریفرنڈم میں ووٹ گننے والوں نے پاکستان کی سرحدیں تو کیا، ساتھ ساتھ 7 سمندر بھی پار کر ڈالے۔ قوم کو بتایا گیا، بیرون ملک پاکستانیوں نے بھی اس ریفرنڈم میں جنرل مشرف صاحب کو ووٹ ڈال دیئے ہیں۔
یہ ریفرنڈم 30 اپریل 2002ء میں منعقد ہوا جس کے ذریعے جنرل مشرف نے کرپٹ وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے حواریوں کے احتساب کی خاطر اگلے پانچ سال اقتدار مانگا۔ یہاں بھی ووٹ گننے والے شائننگ سٹار بن کے سامنے آئے‘ جن کی گنتی نے جنرل مشرف کو 97.97 فیصد ووٹ ڈلوائے۔7 کروڑ 83 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف 8 لاکھ 83 ہزار 676 لوگوں نے مشرف صاحب کے صدارتی پروپوزل کو مسترد کیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز نے یکم مئی 2002ء کو ووٹ گننے والوں کی اس تاریخی کامیابی پر یہ سرخی جمائی تھی، ''Musharraf wins huge backing‘‘۔ ہماری تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ووٹ گننے والوں کے اس تاریخی کارنامے کی وجہ سے صدر رفیق تارڑ کو جی ٹی روڈ کے ذریعے گھر بھجوا دیا گیا جبکہ اُن کے قائد نواز شریف کو چارٹرڈ طیارے کے ذریعے بحیرہ احمر کے ایک کنارے پر سرور پیلس نامی شاہی محل تک پہنچا دیا گیا۔
تاریخ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے اپنے کرشمے دہرانے کی عادت پڑ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف صاحب کو بھی ووٹ کو عزت دینے اور گنتی کروانے والوں سے قریبی رابطے کے لیے عربستان سے انگلستان تک سخت جدوجہد کرنے کی پکی عادت ہے‘ اس لئے ایک بار پھر وہ شاہی محلات کے فرنگی محلہ میں پناہ گزین ہیں۔ اس محلے کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے لیے نواز شریف صاحب کے والد بزرگوار نے کمر باندھ کر دبئی اور قطر کے صحرائوں میں سخت محنت کی تھی‘ جس کا انکشاف اور اعتراف نواز شریف صاحب نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے ایاز صادق صاحب کو یہ کہہ کر کیا تھا، ''جناب سپیکر یہ ہیں وہ وسائل اور ذرائع، جن کے ذریعے ہم نے مے فیئر فلیٹ بنائے‘‘۔
ہماری تاریخ کے تیسرے طلسماتی کردار وہ ہیں، جنہوں نے ان دونوں مارشل لائوں سے جی بھر کر مزے اور سرور لوٹا۔ ایسا سرور جو بحیرہ احمر کے کنارے بادشاہوں کے سرور پیلِس تک جا پہنچا۔ آج کل سرور اُٹھانے کیلئے اس مارشل لائوں کے سب سے بڑے بینی فشری اور اُن کا خاندان دریائے ٹیمز کے کنارے انگلش بادشاہوں سے بڑھ کر عیاشی والی زندگی گزار رہا ہے۔ پروین شاکر نے پتہ نہیں کیوں اور کس حوالے سے کہا تھا:
بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا، اُس پہ ترا جمال بھی
مگر اس شعر کا سرور بھی صحیح معنوں میں پچھلے سرور پیلس والوں کے ہی حصے میں آیا۔ جب نواز شریف رائے وِنڈ پیلس کی شاہی بالکونی میں، پَرجا کو دَرشن دان کرنے کے لیے نو رتنوں کے ساتھ باہر نکلے‘ اس سے گھنٹوں پہلے شام پانچ بجے پولنگ کا سرکاری وقت ختم ہو چکا تھا۔ ووٹرز اور سپورٹرز تمبو اور بینر اُکھاڑ کر گھروں کو جا چکے تھے کہ شاہی فرمان صادر ہوا، ان لفظوں میں: ''دیکھو دیکھو، سنو! مجھے صرف اکثریت نہیں چاہئے‘ مجھے ٹُو تھرڈ میجارٹی دینا‘‘۔ آپ اسے حُسن اتفاق کی فائونڈری کا سیاسی کرشمہ کہہ لیں کہ اُس وقت ووٹ ڈالنے والے تو موجود نہیں تھے لیکن ووٹ کی پرچیاں، اُن کی گنتی کرنے والوں کے ہاتھ میں تھیں۔ پھر جو کرشماتی گنتی ہوئی، اُس کے بارے میں ووٹ ڈالنے والے یہ کہتے رہ گئے:
پھر یوں ہوا کہ ہم پہ اِک دیوار آ گری
یہ دیکھ نہ سکے پسِ دیوار کون تھا
الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے مخالف وہی ہیں جو گنتی میں جیتتے چلے آئے ہیں۔ تین دفعہ وزیر اعظم بننے والے پر مرحوم جنرل حمید گل صاحب کا بیان نکال کر پھر پڑھ لیں۔ ای وی ایم میں خامی یہ ہے کہ وہاں ووٹوں کی گنتی کرنے والا کرشمے برپا کرنے سے محروم ہو جائے گا۔ باقی سارے ہم نوا ایسے ہی کرشموں کے بینی فشری ہیں۔ گنتی مشین پر چلی گئی تو جمہوریت کے نام پر کاروبار کرنے والے بے روزگار ہو جائیں گے۔ باقی رہی ووٹ کی عزت تو وہ ہمیشہ مرضی کی گنتی کروا کر جیتنے والوں کے ہاتھوں لٹتی رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved