تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     01-10-2021

لِٹل ایکسٹرا

کامیاب لوگوں اور ان کی کامرانیوں کا عمیق جائزہ لے کرتحقیق کرنے والوں کی اکثریت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ تاریخِ انسانی میں کار ہائے نمایاں سرانجام دینے والوں نے ہمیشہ اپنے لیے مشکل راستوں کا انتخاب کیا، دوسروں سے ہٹ کر سوچا، جب کچھ مختلف کر گزرنے کی ٹھان لی تو زندگی نے اُن کے مصمم ارادوں اور عظیم مقاصد کی تکمیل کی راہوں سے کانٹے ہٹا کر انہیں گل و لالہ سے آراستہ کر کے کامیابی کی شاہراہوں میں بدل دیا۔ ان عہد ساز شخصیات پر ہونے والی تحقیق نے ثابت کیا کہ ہمیشہ وہ مختلف کرنے کی جستجو میں مصروف رہے اور منفرد طرزِ فکر اپنا کر بڑی کامیابی کی طلب میں جہدِ مسلسل سے آگے بڑھتے رہے۔ وہ گرے تو پھر اٹھ کر‘سنبھل کر انہی راستوں پر چل دیے اور اپنی نظر یں اسی منزلِ مراد پر جمائے رکھیں جہاں افق کے پار‘ ستاروں سے آگے اِک نئے جہان کی تلاش میں انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اُن سب قابلِ تحسین ہستیوں کی قدرِ مشترک تھی:دوسروں سے ذرامختلف سوچنا اور تھوڑا سا زیادہ کرنا۔ اے لِٹل ایکسٹرا! اگر آپ نے کبھی گھوڑوں کی دوڑ یا ڈربی ریس کو قریب سے دیکھا ہواتو فِنش لائن عبور کرتے ہوئے آخری لمحات میں لگ بھگ دس گھوڑے اور اُن کے سوار بظاہر ایک ہی لمحے میں لائن پر پہنچتے نظر آتے ہیں مگر کامیابی سے ہمکنار ہونے والا خوش نصیب گھوڑا دوسروں سے تھوڑی سے زیادہ محنت اور قوت کو بروئے کار لا کر کامیابی کا سہرا اپنے ماتھے پر سجا لیتا ہے۔ یہی جذبہ زندگی کے ہر میدان میں ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس حکمتِ عملی سے آپ بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ بھی یہ ٹھان لیں کہ آپ نے عام لوگوں کی روش سے ہٹ کر ذرا سا زیادہ کرنا ہے تو یقینا آپ بھی میدانِ عمل میں کامرانیاں سمیٹ کر کچھ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس پر دوسرے محض رشک ہی کر سکتے ہیں۔
میں اسے اپنی خوش بختی ہی کہوں گا کہ بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں میرے زیرِ مطالعہ رہتی ہیں۔ میں ان سے سبق سیکھ کر اپنی ذاتی زندگی اور کارِ سرکار کی انجام دہی میں رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔ ہمیشہ اپنے اردگرد پر نظر دوڑاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ بہتری کی گنجائش کہاں ہے‘ وہ کیا ہے جو آج تک نہیں کیا گیا۔ وہ کیا ہے جو میں کر سکتا ہوں یا مجھے کرنا چاہئے۔ گزشتہ دسمبر میں مجھے ایف بی آر میں کمشنر سرگودھا تعینات کیا گیا تو جاتے ہی میں نے اپنے لئے مشکل ٹارگٹ چن لیے۔ میں نے اپنے دفتر کے دروازے ٹیکس گزاران، عام سائلین، تاجر برادری، وکلا اور شعبۂ صحافت سے وابستہ دوستوں کیلئے کھول دیے ، اپنی ٹیم میں شامل افسران اور رفقائے کار کی مشاورت سے ان کیلئے اہداف مقرر کئے اور پھر ان کی مکمل رہنمائی کرکے اُن اہداف کا حصول ممکن بنانا شروع کر دیا۔ میں نے یہ طے کر لیا کہ ایف بی آر اور عوام کے مابین بدگمانی کا خاتمہ کرنا ہے، بڑھتے ہوئے فاصلے کم کرنے ہیں اور باہمی اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ہے تاکہ وہ اپنی آمدن اور مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا کریں جس سے شاید وہ پہلو تہی کرتے آئے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول میں رکاوٹیں دور کرنے کیلئے سرگودھا، خوشاب، میانوالی اور بھکر کے چار اضلاع پر مشتمل اپنے زون میں ٹیکس گزاروں کا اعتماد جیتنے کیلئے میں نے ہر ضلع میں ہفتہ وار جامع مساجد میں کھلی کچہری منعقد کرنے کا اعلان کیا اور پھر باری باری ان اضلاع میں جمعہ کی نماز کے وقت امام مسجد اور خطیب کی اجازت سے نمازیوں کو ٹیکس کی اہمیت اور قومی معیشت کی مضبوطی میں ٹیکسز کی کلیدی حیثیت کو اجاگر کرنا شروع کیا،لوگ خوشگوار حیرت سے میری باتوں کو توجہ سے سننا شروع ہو گئے۔ میں نے منبرِ رسولﷺ پر کھڑے ہو کر قومی ذمہ داری کی انجام دہی میں اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کیلئے کہا تو انہوں نے میری گزارشات کو توجہ سے سنا۔ اس کے ساتھ ہی چاروں اضلاع میں موجودافسران اور ان کی ٹیموں کو کاروباری علاقوں کا مکمل سروے کرنے کا ایک مربوط نظام وضع کر کے دیا تا کہ ان افراد کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جا سکے جو اپنے کاروبار میں دن دُگنی، رات چوگنی ترقی تو کر رہے تھے مگر وطنِ عزیز کے خزانے میں اپنا حصہ ڈالنے سے گریزاں تھے۔ ہم نے صرف پانچ ماہ کی قلیل مدت میں تقریباً 20ہزار نئے ٹیکس گزاران کا اضافہ کیا۔ اعتماد کا تعلق بڑھا تو جون میں گزشتہ سال کے مقابلے میں تین گنا زیادہ انکم ٹیکس اور دو گنا سیلز ٹیکس اکٹھا کیا گیا اور پورے زون میں بددیانتی، دھونس یا بدزبانی کی ایک بھی شکایت نہیں ملی۔
نئے مالی سال کا آغاز ہوا تو میں نے اپنے ٹیم افسران کو ان کی شاندار کارکردگی پر ایک سادہ مگر پُر وقار تقریب میں انعامی سندِ امتیاز کے ساتھ ساتھ انہیں شاباش دی اور اگلے اہداف پر مکمل طور پر بریف کیا۔ ہمارا سب سے نمایاں ہدف تھا سالانہ گوشواروں کے حصول میں چلائی جانے والی بھرپور مہم۔ ضلع کی معروف سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات کے مختصر وڈیو میسج کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام مؤثر انداز میں لے جانے کی حکمتِ عملی اپنائی تو پتا چلا کہ پاکستانی قوم کے ہیرو اور مایہ ناز بلے باز محمد حفیظ کی شادی سرگودھا کے ایک معروف گھرانے میں ہوئی ہے۔ فوراً محمد حفیظ سے رابطہ کیا جنہوں نے ویسٹ انڈیز سے ہی ایک خوبصورت آگاہی پیغام ریکارڈ کر کے ہمیں بھیج دیا جس میں اہلِ وطن سے اپنا سالانہ انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے کی اپیل شامل تھی۔ یہ ادارے کی تاریخ میں کسی بھی قومی ہیرو کی طرف سے دیا جانے والا پہلا پیغام تھا جو دِنوں میں ہی وائرل ہو گیا۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں مجھے اسلام آباد میں ڈائریکٹر میڈیا تعینات کیا گیا تو میں نے بلا تاخیر اور بلا تامل پہلے ہی دن چیئر مین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق سے قومی ہیروز کے پیغامات پر مبنی آگاہی مہم چلانے کی اجازت منظور کرالی۔ سیلولر کمپنیوں کے ذریعے ملک بھر کے موبائل صارفین کو انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرانے کا میسج بھجوانے کے احکامات کی بھی منظوری لی گئی۔ علاوہ ازیں ملک کے تقریباً سبھی ٹی وی چینلز اور قومی اخبارات پر ایک بھرپور آگاہی مہم کا آغاز بھی کر دیا گیا مگر جس طرح ہمارے قومی ہیروز نے اس آگاہی مہم کو چار چاند لگائے اور ہمارا پیغام عام آدمی تک پہنچانے میں ہماری بے لوث خدمت کی‘ اس پر وہ سب دادِ تحسین کے مستحق ہیں۔ ایک طرف شان شاہد، مہوش حیات، عائشہ عمر اور احسن خان جیسے فلمی ستارے شامل ہوئے تو دوسری جانب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے تقریباً تمام موجودہ کھلاڑی اور سابقہ آل رائونڈر وسیم اکرم، عبد الرزاق ، راشد لطیف اور سرفراز احمد نے بھی اس مہم میں حصہ لیا، پھر اپنے سہیل احمد عزیزی جیسی ہردلعزیز شخصیات ہیں تو ڈاکٹر محمد امجد ثاقب اور انصار برنی جیسے سماجی رہنما بھی ہیں، عہدسازجہانگیر خان ہیں تو انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے پیغامات نے بھی سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے۔ سب سے منفرد پیغام پاکستان کے ممتاز عالمِ دین اور کروڑوں پاکستانیوں کے پسندیدہ مولانا طارق جمیل نے بھی ریکارڈ کرا یا اور محض دس دنوں میں ملک کے طول و عرض میں ایف بی آر اور سالانہ گوشواروں کی آواز گونجنا شروع ہو گئی۔ جگہ کی قلت کے باعث میں کئی قد آور شخصیات کا نام نہیں لکھ پا رہا مگر ان سب کی خدمات ٹیکس مہم کو کامیاب بنانے میں اپنی جگہ اہم ہیں۔ یہ بلا شبہ ایف بی آر کی تاریخ میں سالانہ انکم ٹیکس گوشواروں کے بارے میں چلائی جانے والی سب سے ہمہ گیر، مقبول ترین اور مضبوط و مربوط مہم بن گئی۔
میں سوچ رہا تھا کہ کبھی کبھی ذرا مختلف سوچنے اور تھوڑا سا زیادہ کرنے سے اتنا زیادہ فرق پڑ جاتا ہے کہ وہ ہمارے فہم و ادراک کی سبھی حدیں پارکر جاتا ہے۔ اے لٹل ایکسٹرا دراصل زمانے سے ہٹ کر چلنے اور کچھ منفرد کرنے کا ایک خوبصورت نظریہ ہے جسے اپنا کر آپ بھی وہ کچھ کر گزریں جو آج تک نہیں ہوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved