تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     01-10-2021

چین‘ امریکا سرد جنگ اور ہم!

کورونا کی وباجہاں نئی عالمی جنگ کا ایک محاذ ثابت ہوئی ہے‘ وہیں اس سے یہ بھی علم ہو گیا کہ اس قدرتی آفت کے خلاف کون کامیابی سے لڑا اور کون تا حال اس کے سامنے بے بس ہے۔ اس وبا سے متعلق تا حال تین نظریات نما مفروضے قائم ہو چکے ہیں۔ ان تینوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں مگر اس سے پہلے ذکر اس وبا کے خلاف لڑنے والی عالمی طاقتوں کا‘ چین وہ ملک ہے جس نے اس وبا کو سب سے زیادہ کامیابی سے قابو کیا اور اس کی معیشت اب دوبارہ اضافے کی طرف گامزن ہے، جبکہ امریکا سمیت یورپی ممالک ابھی تک اس کے خلاف زیادہ واضح کامیابی حاصل نہیں کر سکے ہیں بلکہ ان ممالک کے عوام اب ایک ہیجان میں مبتلا نظر آرہے ہیں اور گاہے کووڈ پابندیوں کے خلاف مظاہرے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
اب ذکر ان تین مفروضوں یا نظریوں کا۔ پہلا مفروضہ یہ کہتا ہے کہ یہ وبا انسانی تخلیق ہے اور اس وبا کے جراثیم سب سے پہلے چین میں چھوڑے گئے تا کہ چین کی تیز ترین ترقی کو روکا جاسکے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو یہ چین کی ہمت اور قابلیت تھی کہ اس نے اس وبا پر قابو پا لیا اور بہت حد تک اب کورونا سے محفوظ ملک بن چکا ہے۔ اس طرح چین فاتح ٹھہرا۔ دوسرا مفروضہ کہتا ہے کہ یہ وبا چین نے خود شروع کی یا انہوں نے اس وبا کے جراثیم کی ایک نئی طرز پیدا کر کے اس کو مغربی ممالک سمیت دیگر دنیا کی طرف چھوڑ دیا لیکن مغربی ممالک چونکہ اس کو چین کی طرح قابو نہیں کرسکے‘ اس لیے یہ چین کی فتح ہے۔ تیسرامفروضہ یہ ہے کہ اگر یہ وبا قدرتی ہے تویہ بات بہت تلخ ہے کہ دنیا کی چوٹی کی میڈیکل سائنس اس پر مکمل قابو پانے سے قاصر ہے، پھر تو یہ پوری دنیا کی شکست ہے مگر یہاں بھی چین ہمیں باقی دنیا سے ممتاز نظر آتا ہے۔ اب نتیجہ صاف ہے کہ چین اور امریکا کی اکیسویں صدی کی اس نئی سرد جنگ کے پہلے محاذ میں مغرب کو اپنے سربراہ امریکا سمیت شکست ہوئی ہے۔
چھوڑیں اس بحث کو، ہم اپنے پیارے ملک کی بات کرتے ہیں اور چین کی کامیابی کی وجوہات کے رازوں سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وبا سے متعلق باقی دنیا سے جداایک انوکھا نظریہ بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ملک کی ایک غالب اکثریت کورونا کو عالمی وبا یا بیماری ماننے سے انکاری ہے۔ یہ بہت ہی مہلک تصورہے۔ اس تصور کے پیچھے وہ طبقہ پیش پیش ہے جس کو اس وبا کی وجہ سے کاروباری طور پر نقصان ہوا ہے، اسی طرح مخصوص طرز کے خیالات والے کچھ لوگ اسے مسلمانوں کے خلاف سازش کا نام دے کر لوگوں کو بہکا رہے ہیں۔ اس کے لیے ایک عجیب منطق یہ پیش کی جا رہی ہے کہ اس وبا کا مقصد لوگوں کو مذہب اور عبادت گاہوں سے دور کرنا ہے۔ اس ضمن میں ایک گزارش یہ ہے کہ بد قسمتی سے مسلم ممالک پہلے ہی کرپشن، باہمی فسادات، جدید علوم سے دوری اور دیگر دلدل نما مصیبتوں کی وجہ سے اپنے دین کی اصل اساس سے کوسوں دور ہو چکے ہیں لہٰذا اس وبائی بیماری کو ایک حقیقت مانیں اور اس سے بچائو کی تدابیر اختیار کریں جو زیادہ مشکل نہیں ہیں۔
سب سے پہلے چین اور مغربی دنیا کے فرق سے سیکھتے ہیں۔ اس بیماری کے دوران مریض کو تنہا‘ قرنطینہ کرنا ضروری ہوتا ہے جو مریض کے لئے بیماری کی تکلیف کے ساتھ ایک اضافی دقت ہوتی ہے۔ مغربی دنیا میں خاندان کا تصور قدرے تحلیل ہو چکا ہے اور وہاں اوسطاً ایک گھر میں دو افراد رہتے ہیں۔ اس تناظر میں جب لاک ڈائون لگتا ہے تو لوگ ایک مکمل قید کے تصور میں چلے جاتے ہیں، اس کا حل مے نوشی کے علاوہ کچھ اور نہیں بچتا، وہاں بہت ساری اموات کثرتِ مے نوشی سے ہوئی ہیں اور بعض مواقع پر خود کشیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں، جبکہ چین قدرے مشرقی ملک ہونے کی وجہ سے خاندانی نظام میں بہت مضبوط ہے۔ اب ہوتا یوں ہے کہ جو مریض قرنطینہ ہوتا ہے‘ وہ بھلے علیحدہ کر دیا جاتا ہے لیکن خاندان کے دیگر لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہے، فون کے ذریعے دیگر رشتہ دار بھی بے لوث گفتگو کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض مکمل قید کا شکار نہیں ہو پاتا۔ اس کے بعد دوسر ی ثابت شدہ بات اس بیماری کے خلاف جسم میں وٹامن ڈی کا ہونا ہے جبکہ اس وٹامن کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ دھوپ میں کم از کم بیس منٹ گزارنا ہے۔ اب یہ قدرت کی تقسیم ہے کہ اس نے اکثر مغربی دنیا کو دھوپ سے محروم رکھا ہے، اسی لئے ان ممالک کو کورونا سے نمٹنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اب آپ اپنے ملک میں بکثرت موجود اس وٹامن ڈی سے فائدہ اٹھائیں اور دن میں کم از کم بیس منٹ دھوپ میں ضرور گزارا کریں۔ اس کے لئے سب سے اچھا دورانیہ صبح نو بجے سے گیارہ بجے کا وقت ہے۔
اب آتے ہیں میڈیکل سائنس کی ثابت کردہ دیگر باتوں کی طرف۔ اس سلسلے میں ایک بات طے ہے کہ یہ بیماری کھانسی اور نزلہ کی ہی ایک شاخ ہے، اسی لیے اس میں سب سے زیادہ اہمیت پھیپھڑوں کی ہوتی ہے۔ اس کے لیے ٹھنڈی چیزوں سے گریز لازم ہے‘ خاص طور پر رات سونے سے پہلے ہر گز کوئی ٹھنڈی چیز مت کھائیں۔ اگلی بات جو ثابت شدہ ہے‘ وہ یہ کہ اس بیماری کے خلاف سب سے اہم چیز قوتِ مدافعت ہے جس کے لیے وٹامن ڈی کے بعد وٹامن سی کا نمبر آتاہے۔ اب اس کے ذرائع کے طور پر سب سے اہم لیموں ہے، اگر آپ یہ بات پہلے سے جانتے ہیں تو بھی بغور اس بات کوسمجھ لیں کہ دو طرح کے لیموں کا استعمال کریں‘ ایسے لیموں جو زرد رنگ کے ہوں اور ساتھ ہی وہ لیموں جو سبز رنگ کے یعنی قدرے کچے ہوں، دونوں کی افادیت مختلف ہے اور دونوں ضروری ہیں۔ دن کے دو مختلف مواقع پر ان کا استعمال نیم گرم پانی کے ساتھ کریں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ لیموں کا استعمال رات کے وقت ہر گز نہ کریں کیونکہ اس سے نزلہ اور کھانسی مطلب پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اب بات جسم کو توانائی دینے کی‘ تو اس سلسلے میں دار چینی، ادرک، پودینہ کا قہوہ شہد کے ساتھ اور اگر شہد نہ ہو تو شکر یا گڑ کا استعمال کریں، اس سے بہت افاقہ ہو گا۔ اس کے ساتھ اگر آپ لہسن کی ایک بڑی پھانک (جوا) چبا کر کھالیں یا چھوٹے ٹکڑے کر کے پانی کے ساتھ کھا لیں تو جسم کو بہت زیادہ قوتِ مدافعت حاصل ہو جائے گی۔
سب سے آخرمیں ذکر ایک ایسی بات کا جو آپ کو چونکا دے گی، اس کو Feel Good Factor کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد دن کا کچھ خاص حصہ ایسی حالت‘ مطلب ایسے لوگوں اور ایسی کیفیت میں گزارنا ہے جس میں آپ ہر طرح کے تکلف، پروٹوکول، بناوٹ اور دکھاوے کے بغیر ہوں۔ کوئی دوست‘ عزیز جس سے آپ کافی بے تکلف ہو، اس سے یہ ہو گا کہ آپ کے دماغ کا غبار، گند،دھند وغیرہ نکل جائیں گے۔ سائنس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ آپ کے جسم کی مدافعت کا اس بات سے گہرا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں اگر آپ بھی اس پچھتاوے نما خیال کا شکار ہیں کہ وبا کی وجہ سے آپ کی ترقی کی رفتار کم ہو گئی ہے تو کم از کم اس بات پر ہی شکر ادا کریں کہ اس وبا کے دوران آپ محفوظ ہیں اور آپ کی زندگی کسی جنگی کیفیت کے بجائے نارمل انداز میں ہے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر بیس سے تیس منٹ کی سیر ضرور کریں بلکہ یہ تحریر پڑھنے کے بعد سیر کرتے ہوئے مذکورہ تمام باتوں کا جائزہ لیں‘ وہ بھی خوشی محسوس کرتے ہوئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved