تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-10-2021

حکومتی رِٹ ہی قائم کر دیجیے

یا تو تسلیم کرلیجئے کہ قانون شکن طاقتور ہیں اور حکومت کمزور‘ نہیں تو یہ تسلیم کریں کہ حکومت اور قانون شکن‘ دونوں یکجا ہو چکے ہیں۔ کیا گلیوں اور سڑکوں پر گندگی پھیلانے والے، کمزور کے گھر‘ زمین اوراس کے وسائل پرقبضہ کرنے والوں کے سامنے حکومت بے بس ہو چکی ہے؟ پنجاب ہی نہیں‘ ملک بھر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اورشاہراہیں بھی حکومت کی بے بسی پر قہقہے برساکرحکومتی رٹ کو چیلنج کر رہی ہیں اور حکومت ہے کہ کچھ کر ہی نہیں رہی، کیوں؟ حکومتی احکامات کا ماننا تو دور کی بات‘ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی حکومت کی سنتا بھی نہیں۔ پھر ایسے اقتدار اور ایسے منصب کا کیا فائدہ؟ یہاں تو آنکھ کے ایک اشارے اور پولیس کے بھاری بوٹ کے ایک جھٹکے سے سات پشتیں سیدھی ہوتی رہی ہیں‘ یہاں تو ایک گورنر کے حکم سے بد معاشی کو ایک کوڑھ کی طرح شہر سے دور بھگا دیا جاتا تھا، یہاں تو مونچھوں کو بل دینے پر ہی گوداموں میں کئی کئی برسوں سے ذخیرہ کی گئی اشیا باہر نکلناشروع ہو جاتی تھیں‘ یہاں تو ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک پیسہ قیمت بڑھانے کیلئے کئی کئی دن تک سوچ بچار ہوتی تھی‘پھر ایسا کیا ہوا کہ آج ہر طرف مہنگائی اور من مانی قیمتوں کا سیلابِ بے کراں ہے کہ جس طرف چاہے‘ بہنا شروع کر دے، کسی کو کوئی ڈر اور کوئی خوف سرے سے ہے ہی نہیں۔
سوات میں جب ملا فضل اﷲ نے اپنی حکومت قائم کر نے کے بعد اپنی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کو حکم کا درجہ دیتے ہوئے اپنی پسند‘ ناپسند کی بنیاد پر گلی گلی میں عدالتیں لگا نا شروع کی تھیں، مٹہ کے چوک میں پھانسی کے میناروں پر انسانی جسم جھولتے دیکھے جانے لگے تھے تو اسلام آباد میں ملکی سلامتی کے اداروں کو خیال ستانے لگا تھا کہ سوات میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے‘ لہٰذا اب اسے بہرصورت بحال کرنا ہے، اس پر ان باغیوں کے خلاف ایک بہت بڑا آپریشن شروع ہوا جس میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو سینکڑوں جانوں کی قربانیاں دینے کے بعد ہی اس قدر کامیابی مل سکی تھی کہ لوگ وہاں پھر سے آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ وزیرستان اورکراچی میں حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا تو پاکستان رینجرز، پولیس اور پاک فوج سمیت دیگر سکیورٹی فورسز کے جوانوں نے تین ہزار سے زائد شہادتیں دے کر حکومتی رٹ کو بحال کیا تھا۔ دوسری طرف آج ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں‘ایک وسیع سروے میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ملک بھر میں کہیں بھی‘ کسی بھی جگہ پر‘ کسی بھی دفتر میں حکومتی رٹ قائم نہیں رہی۔ اگرچہ سوات والے حالات نہیں مگر...
آپ مجھ سے اگر اتفاق نہیں کرتے‘ میری اس منطق سے متفق نہیں ہیں تو میرا آپ سے پہلا سوال یہی ہو گا کہ کیا آپ اپنے علاقے‘ اپنے ڈویژن میں واقع بجلی، گیس اور پانی کی کمپنیوں کے دفاتر کی کار کرد گی سے مطمئن ہیں؟ کیا آپ کے بجلی کے بل ہمیشہ سے درست آ رہے ہیں؟ کیا آپ کے علا قے میں ٹرانسفارمرز آپ کو متواتر یا چوبیس میں سے کم از کم اٹھارہ گھنٹے بجلی مہیا کر رہے ہیں؟ کیا آپ نے جو بجلی ایک ماہ میں استعمال کی تھی‘ صرف اسی کے حساب سے آپ کی بل ریڈنگ آتی ہے؟ معمولی تار گرنے یا ڈی گرنے سے اگر آپ کے علاقے میں‘ آپ کے محلے میں بجلی بند ہو گئی تھی تو آپ کے ایک بار ہی فون کرنے پر بجلی کمپنی کے اہلکار آ کر اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے وہ مسئلہ حل کر گئے تھے یا آپ کو بار بار دفتروں سے رابطہ کرنے‘ وہاں جا کر فقیروں کی طرح بیٹھ جانے اور کئی گھنٹوں تک گرمی اور حبس زدہ موسم میں انتظار کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد بھی خرابی دور کرنے کے لیے آنے والے اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنا پڑی تھی؟
آپ کی سوسائٹی، محلے، گلی، گائوں یا قصبے میں اگر گیس سپلائی میں کوئی مسئلہ ہے یا آپ نے پانی، بجلی اور گیس کا کوئی نیا کنکشن لینا ہے اور آپ نے اس محکمے کی تمام ضروریات پوری کرتے ہوئے اپنی درخواست جمع کرا دی ہے تو کیا آپ کوبغیر کوئی نذرانہ دیے کنکشن مل گیا ہے؟ اگر ایسا نہیں اور کئی کئی ماہ کے انتظار کے بعد آپ کو کنکشن ملا ہے تو اس کی آپ نے سرکاری کے بعد کتنی ''محکمانہ فیس‘‘ ادا کی ہے؟ اگر آپ نے رشوت دے کر‘ منتیں ترلے کر کے‘ اپنے لئے بجلی اور گیس کے کنکشن حاصل کئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس علا قے میں‘ اس دفتر میں‘ اس محکمے میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے اور وہاں پر لاقانونیت کا کو ئی نمائندہ بیٹھا حکومتی رٹ کا مذاق اڑا رہا ہے۔ آپ نے پانی کا کنکشن لینے کیلئے اگر کئی کئی ماہ دفتروں کے چکر لگائے ہیں‘ ایک ایک میز پر جا کر دھکے کھائے ہیں اور پھر بھی آپ کوپانی کا کنکشن کچھ لے دے کر ہی ملا ہے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پانی کے اس دفتر میں بھی حکومتی ر ٹ کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے۔ زراعت، تعلیم، ایکسائز، ریونیو، صحت عامہ، انہار، جیل خانہ جات، امیگریشن، پاسپورٹ، نادرا اور تھانوں سمیت دیگر سرکاری محکموں اور اداروں میں لمبے ہاتھوں سے جو رشوت کبھی چوری چھپے لی جاتی تھی‘ اب کھلے عام ''فیس‘‘ کہہ کر وصول کی جا رہی ہے، سڑکوں، کچہریوں، تھانوں اور سرکاری دفاتر کے احاطوں اور بر آمدوں میں نہیں بلکہ اب تودفاتر کے اندر‘ اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہی رشوت کا کھلے بندوں لین دین کیا جارہا ہے۔ وہ کون سا محکمہ ہے جہاں بغیر رشوت کے کام ہو رہاہے؟ اگر کوئی ایک بھی ہے تو دکھا دیجئے یا کم از کم بتا ہی دیجیے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مان لیجئے کہ ان دفاتر میں بھی کوئی ایسا طبقہ ہے جو اپنا لشکر لیے‘ کسی قدر ہی سہی‘ حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ملک میں ایک پارلیمانی نظام ہے، حکومت ہے، وزرا ہیں، ایک آئینی صدر ہیں، صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے نام سے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں اور ا ن پر آئینی گورنر بھی بطور نگران بٹھائے گئے ہیں‘ اس کے علاوہ جرم کی روک تھام اور قانون کے نفاذ کے محکمے بھی ہیں‘ تو کیا ان میں سے کسی کو نظر نہیں آ رہا کہ ان کے ماتحت محکموں، اداروں، ہسپتالوں اور سرکاری دفاترمیں عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟کیاکسی تھانے، سرکاری آفسز، انہار کے محکموں، بلدیاتی اور ترقیاتی کاموں کے دفاتر اور تعلیمی بورڈز میں (سوائے ٹائوٹوں کے)سائلین کو عزت سے اندر جانے دیا جاتا ہے ؟ اگر آج کے حالات پر غور کریں تو کچھ بھی پوشیدہ یا ڈھکا چھپا نہیں ہے، اس کے لیے آنکھ کھول کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، بند آنکھوں سے بھی سب کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ دیکھنے کی ہمت کریں تو کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ ہر کوئی اس کرب میں بلک رہا ہے کہ ان سے سبزی سے لے کر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں اور بجلی گیس کے بلوں تک نجانے کس کس قسم کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، اشیائے خورو نوش میں جس قسم کی غلیظ ملاوٹ کی جا رہی ہے‘ کیا بلدیات کے وزرا، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز سمیت انسدادِ ملاوٹ کے محکموں اور ٹی ایم اے کے اہلکاروں کو وہ نظر نہیں آ رہی؟ ایک عوامی سروے نے تو یہ بتا کر حیرا ن کر دیا کہ اس وقت لاہور میں سرکاری محکموں میں 'نذرانوں‘ کے ریٹ تھانوں کی منتھلی سے بھی تین گنا بڑھ چکے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب اخراجات اور جرمانے عوام کی جیبوں سے ہی نکالے جا رہے ہیں۔ کل تک بینک لوٹے جاتے تھے مگر اب جرائم کے بادشاہوں نے کریانے اور حجام کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو بھی اپنا نشانہ بنا نا شروع کر دیا ہے، سٹریٹ کرائمزپورے ملک میں ناسور کی صورت اختیار کر چکے ہیں، ایسے مجرموں کو کسی کی تو پشت پناہی حاصل ہو گی‘ کسی کو توان کے ان ذرائع آمدن کا علم ہو گا۔گھر سے نکلتے ہوئے اگر عام شہریوں کو انجانا خوف لاحق رہتا ہو تو اس مطلب یہی ہے کہ معاشرے میں امن و امان نہیں‘ اگر امن و امان نہیں تو حکومتی رٹ کہاں ہے؟اگر ان قانون کے باغیوں کے گریبان تک‘ جنہوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے‘ آپ کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے تو پھر ایسی حکومت‘ ایسا منصب اور ایسے اقتدار کا کیا فائدہ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved