تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     02-10-2021

اِن ادوار سے مشرف کا دور بہتر تھا

جتنے نام نہاد دانشور اِتنے ہی جمہوریت کے ٹھیکیدار۔ جمہوریت کی ایسی ایسی تشریح یہاں کی جاتی ہے کہ استحکامِ جمہوریت ہو تو گُل کھِل اٹھیں گے۔ جمہوریت کو کسی نے چاٹنا ہے؟ جن کے نصیب میں تھانوں میں لِتروں کی چھترول ہو اُن کا یہی حشر ہوگا چاہے جمہوریت ہو یا آمریت۔ جمہوریت کے تب گیت گائے جائیں اگر معاشی استحکام اِس کی وجہ سے ملک میں ہو۔ خان صاحب کی جمہوریت سے ملک کی جو معاشی درگت بن رہی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ نوازشریف دور میں معیشت کی حالت بہتر تھی اُنہیں کچھ موازنہ مشرف دور سے کرلینا چاہئے۔
اگر نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ میں ڈالر ایک سو تیس پہ تھا تو مشرف کے وقت ڈالر ساٹھ روپے پر تھا۔ یہ چینی چینی جو اب ہم کررہے ہیں مشرف دور میں چینی کی قیمت ستائیس روپے فی کلو تھی۔ ملکی قرضے جو آج کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں مشرف دور میں یہ قرضہ تینتیس بلین ڈالر تھا۔ پچھلی دو فوجی حکومتوں میں یہ ضرور تھا کہ افغانستان کی وجہ سے باہر سے ڈالر آرہے تھے‘ لیکن جو وجہ بھی ہو اِس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ کئی اعتبار سے مشرف دور میں آج کی نسبت ملک زیادہ خوشحال تھا۔ کہنے کو تو آمریت تھی لیکن اُس آمریت سے سوائے نون لیگ کے اور کسی کا کیا نقصان ہو رہا تھا؟ فوجی حکومت ہونے کے باوجود سیاست پہ کوئی پابندی نہ تھی، پریس مکمل طور پر آزاد تھا اور جو آج کا الیکٹرانک میڈیا ہے اُس کا تو جنم ہی مشرف دور میں ہوا تھا۔ کسی جمہوری حکمران میں ہمت نہ تھی کہ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہو جائے لیکن مشرف نے ایسا کیا۔ پہلا پاکستانی حکمران تھا جو لائیو پریس کانفرنسیں کرتا تھا۔ یہ اور بات کہ ایسی چیزوں کا اقرار ہم نہیں کرتے۔ ایک وجہ اِس کی یہ ہے کہ کسی فوجی ڈِکٹیٹر کی تعریف ہم جیسوں کیلئے کرنا آسان نہیں۔ بہرحال وہ گزرا ہوا وقت اچھا تھا۔ آج کی نسبت یا نواز شریف کے دور کی نسبت سوشل لحاظ سے وہ دور زیادہ relaxed تھا۔
ناکامی جنرل مشرف کی یہ تھی کہ بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن یہ موقع اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے جانے دیا۔ پہلے دو سال ملک میں اپوزیشن نام کی چیز کوئی نہیں تھی۔ نون لیگ ویسے ہی پِٹی ہوئی تھی، قیادت اُس کی منتیں ترلے کرکے باہر جا چکی تھی‘ یعنی سیاسی مزاحمت کے بجائے نون لیگی قیادت نے جلاوطنی کا آسان راستہ منتخب کیا۔ سیانے تو بہرحال تھے، سعودی عرب سے حیلے بہانے کرکے انگلستان چلے گئے۔ رہی پیپلز پارٹی تو اِس نے کیا مزاحمت کرنی تھی۔ بے نظیر بھٹو تو مشرف کے ساتھ چلنے کیلئے تیار تھیں‘ لیکن مشرف کو یہ بات دیر بعد سمجھ آئی۔ اِن حالات کا تذکرہ یہ بتاتا ہے کہ مشرف کو تقریباً دو سال تک کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ جو چاہتے کرسکتے تھے لیکن اُن کا وژن یا سوچ محدود تھی۔ اُن کے سامنے کوئی خاکہ نہیں تھا کہ ملک میں یہ ہونا چاہئے۔ بس وقت ٹپاتے رہے اور کچھ زیادہ نہ کرسکے۔ ملک میں سیاسی استحکام تھا، امریکی امداد کی وجہ سے معیشت بھی ٹھیک چل رہی تھی لیکن مشرف کی قسمت خراب نکلی کہ عین اُس وقت جب اُن کی سیاسی پوزیشن ناقابل تسخیر لگتی تھی وکلا کی موومنٹ شروع ہو گئی۔ مشرف اور اُن کے ساتھی اُس تحریک کو سمجھ نہ سکے۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے اور اس پہ قابو پالیا جائے گا۔ جب خطرے کا احساس ہوا تو حالات قابو سے باہر ہو چکے تھے۔
ساتھ ہی لال مسجد والا قضیہ پیدا ہو چکا تھا۔ اِس واقعہ کو بھی مشرف اور اُن کے ساتھی صحیح طور پر نہ سمجھ سکے۔ شروع میں اِس معاملے کا حل بآسانی ڈھونڈا جا سکتا تھا‘ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ ایک طرف وکلا تحریک دوسری طرف لال مسجد کی سلگتی ہوئی آگ۔ اِن دو مسئلوں نے مشرف کی گرفت کو کمزور کردیا۔ بیچ میں بڑا مبہم کردار جنرل کیانی کا تھا۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے لیکن پیچھے دیکھا جائے تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ جس انداز سے اُنہیں مشرف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا وہ اِس سے گریزاں رہے۔ وکلا تحریک کو کچلا نہ بھی جاتا تو ایک چیز حکومت کرسکتی تھی جو اُس نے نہ کی‘ وہ تھا الیکٹرانک میڈیا پر کنٹرول قائم کرنا۔ وکلا تحریک نے اس وجہ سے زور پکڑا کہ اُس کے ہر قدم کی بھرپور تشہیر ٹی وی چینلوں پر ہو رہی تھی۔ معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری جہاں کہیں جاتے ٹی وی کیمروں کا ہجوم اُن کے ساتھ ہوتا۔ ہمارے دوست علی احمد کُرد اپنی جوشیلی تقریریں فرماتے تو لفظ بہ لفظ کورِیج ٹی وی چینلوں پر ہو رہی ہوتی۔ یہ آج تک معمہ بنا ہوا ہے کہ کوریج پر پابندی کیوں نہ عائد کی گئی۔ وکلا تو بے قابو ہو ہی چکے تھے اور اوپر سے اُنہیں میڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اُس ماحول میں عدلیہ بھی طاقتور ہو گئی اور مشرف کی اقتدار پر گرفت مزید کمزور ہوتی گئی۔
ایمرجنسی کا نفاذ بھی ایک بلَنڈر تھا۔ اس کے نفاذ سے حالات مزید خراب ہوئے۔ پھر ایک اور غلطی مشرف سے سرزد ہوئی۔ جب اُنہوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ فوج کے سربراہ نہیں رہیں گے تو مسئلہ یہ اُٹھا کہ اُن کے جانشین کون ہوں گے۔ دل میں اُن کے وسوسے تھے لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے جنرل کیانی کو اپنا جانشین چنا۔ ان کا اپنا ایجنڈا تھا اور اُن کے آرمی چیف بننے سے جنرل مشرف بالکل ہی بے یار و مددگار ہو گئے۔
اِن پرانی یادوں کو چھیڑنے کا کیا فائدہ؟ وقت گزر چکا ہے۔ دریاؤں میں پانی بھی بہت بہہ چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اُس نیم آمرانہ دور کے بعد خوشحالی کے اُفق سامنے آتے‘ لیکن آمریت کیا گئی جمہوریت کی نالائقی کا ایک طویل دور شروع ہو گیا۔ پہلے آصف علی زرداری کے کرشمات ملک کی تقدیر پر نازل ہوئے اور پھر شریفوں کا دور آیا۔ اب تیسری جمہوری حکومت ہم بھگت رہے ہیں، ایسی حکومت جس نے ملک کے کڑاکے نکال دیئے ہیں۔ ابھی یہ عمل اپنے اختتام کو نہیں پہنچا۔ ملک کے مزید کڑاکے نکالے جا رہے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی، جائیں تو جائیں کہاں۔ ڈھونڈنے نکلیں تو کس چیز کو؟
ایک عجیب کہانی ہمیں سنائی جاتی ہے کہ ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں یہ ملک معرضِ وجود میں آیا۔ جمہوری عمل ضرور تھا لیکن ہماری طرف سے نہیں۔ جمہوری عمل انگریزوں کا تھا۔ اُن کی پارلیمنٹ کے ایک قانون کی بدولت ہندوستان آزاد ہوا اور پاکستان ایک نئے ملک کے طور پر نمودار ہوا۔ آئینی جدوجہد ہوئی تو انگریزوں کے دیئے ہوئے سیاسی فریم ورک کے درمیان۔ انگریزوں نے ظلم بھی کئے لیکن برصغیر کو جمہوریت بھی دے گئے۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوریت صحیح طور پر ہم چلا نہیں سکے۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور سنگاپور کے لی کوان یو بھی انگریزوں کے دیئے گئے سیاسی نظام کی پیداوار تھے۔ اُنہوں نے اپنے ملکوں کی شکل بدل ڈالی۔ ہندوستانی جمہوریت بھی معاشی ترقی لانے میں کامیاب ٹھہری ہے۔ ہمیں پتا نہیں کیا بیماری لگی ہوئی ہے کہ کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن اِس جمہوریت نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کوئی تو حکیم آئے اور علاج تشخیص کرے۔ اندھیروں میں کتنی دیر بھٹکتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved