تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     02-10-2021

اسلام آباد جرائم کی زد میں

حال ہی میں سینیٹ کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں سٹریٹ کرائمز پچھلے سال کے مقابلے میں خاصے بڑھ گئے ہیں۔ پچھلے ہفتے دارالحکومت میں پانچ افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ جولائی کے مہینے میں عثمان مرزا کی جانب سے خاتون کی ویڈیو بنا کر بھتہ خوری کا انکشاف ہوا۔ یہ قبیح دھندا ایک پوش سیکٹر E-11 میں ہو رہا تھا۔ پھر نور مقدم کا لرزہ خیز قتل ہوا۔ مجھے اس کیس کا بے حد رنج و غم ہے کہ نور کے والد سابق سفیر شوکت مقدم میرے کولیگ رہے اور شریف انسان ہیں۔کشمالہ طارق کے بیٹے والا کیس بھی ابھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ ایک عجیب خوف و ہراس کی فضا پورے شہر پر چھائی ہوئی ہے۔ کوئی شہری اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔آج سے گیارہ سال پہلے جی 13 میں میرے گھر میں مسلح افراد نے ڈکیتی کی واردات کی تھی۔ وہ رات اس قدر خوفناک تھی کہ میری فیملی آج تک نہیں بھولی۔ ڈاکو ٹریس ہو گئے‘ ہمارے مسروقہ موبائل فون ان کی شناخت کا باعث بنے۔ ان میں سے ایک بشیر ولد اکبر گرفتار بھی ہوا مگر ضمانت ہو گئی۔ یہ سب آزاد کشمیر کے رہنے والے ہیں۔ سرغنہ نصیر ولد مجنوں اٹھ مقام میں رہتا ہے۔ فیملی غریب ہے لیکن نصیر آسودہ حال ہے اس کا ٹرانسپورٹ کا بزنس ہے۔ اس ملک میں ڈاکوئوں کے وارے نیارے ہیں۔ہمارے ڈاکے کو چند سال ہی گزرے تھے کہ ہماری پچھلی سٹریٹ میں ایک گھر میں ڈاکا پڑا۔ یہ بڑے پروفیشنل لوگ تعداد میں چھ سات تھے اور ہر ایک مسلح تھا۔ ڈاکوئوں نے تیز آلے سے لکڑی کے دروازے میں اس مہارت سے سوراخ کیا کہ گھر والے نہیں جاگے۔ گھر کے مالک نے خطرہ بھانپ کر بندوق نکالنے کی کوشش کی تو ایک نقاب پوش ڈاکو نے پستول ان کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ بھاری نقصان ہوا۔ کوئی ریکوری نہ میرے کیس میں ہوئی اور نہ ہی اُن کے کیس میں۔
اب آتے ہیں زمانہ حال میں اور میں فوکس اپنے ہی سیکٹر پر مرکوز رکھوں گا کیونکہ یہاں ہونے والے افسوسناک واقعات اکثر دوستوں یا آشنا لوگوں کو پیش آئے ہیں۔ میرے عزیز دوست امجد جاوید خان او جی ڈی سی سے بطور جنرل منیجر ریٹائر ہوئے۔ ان کی بیگم ریٹائرڈ انکم ٹیکس کمشنر ہیں۔ 29 اپریل کو رات نو بجے اپنی بیٹی کے ہمراہ کار میں گھر واپس آئے۔ ننھا منا نواسا بھی ساتھ تھا۔ جیسے ہی پورچ میں داخل ہوئے مسلح ڈاکو بھی اندر آ گئے اور اسلحے کے زور پر نقدی اور زیور لے گئے۔ تھانہ گولڑہ میں ایف آئی آر لکھوائی گئی لیکن کچھ پتہ نہیں چلا‘ نہ کسی کو سزا ہوئی اور نہ ہی ریکوری۔ یہ فیملی آج کل G-13 چھوڑنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ مجھے ان کے جانے کا ذاتی افسوس ہو گا کیونکہ نفیس لوگ ہیں۔ عبدالخالق صاحب وزارت خزانہ میں سینئر عہدے سے ریٹائر ہوئے‘ وفاقی محتسب کے آفس میں بھی اہم ذمہ داری نبھائی‘ ان کے گھر میں 31 اگست کی رات چھ مسلح افراد داخل ہوئے۔ اہلِ خانہ کو پورا ایک گھنٹہ یرغمال بنائے رکھا اور قیمتی اشیا لے کر فرار ہو گئے۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے اور پولیس مجرموں کا سراغ نہیں لگا سکی۔ احسان الحق صاحب ڈپٹی کمشنر مردم شماری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے ان کے گھر سٹریٹ نمبر دوG13/2 میں 22 ستمبر کی رات ڈاکا پڑا۔ ان کی زوجہ محترمہ عرصے سے بیمار ہیں‘ چل پھر نہیں سکتیں‘ اس واقعے کے بعد وہ سکتے کی حالت میں ہیں۔ اسی قسم کا واقعہ ہمارے دوست اکرم علی زئی کے گھر 23 ستمبر کو ہوا۔ فلاحی تنظیم G-13 یونائیٹڈ کے صدر اورنگزیب خان ریٹائرڈ انجینئر ہیں۔ نیسکام میں ملک و قوم کیلئے حساس اور شاندار خدمات سر انجام دیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد شومئی قسمت سے G-13 میں آباد ہو گئے۔ عشا کے وقت پیدل گھر آ رہے تھے کہ دو موٹرسائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے لوٹ لیا۔ ایف آئی آر درج نہیں کرائی ‘ کہتے ہیں کہ پولیس کو اطلاع دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔جب امجد جاوید خان کے کارپورچ میں مسلح ڈکیتی ہوئی تو مسز فریدہ امجد‘ راقم الحروف اور جاوید قریشی آئی جی صاحب کو ملنے ان کے آفس گئے۔ انہوں نے ہماری بات غور سے سنی اور ڈی آئی جی افضال کوثر کو کہا کہ ہمارے ساتھ مفصل میٹنگ بھی کرے اور جی12 میں جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف آپریشن فی الفور کرے۔ اس ملاقات اور یقین دہانی کا کوئی اثر نہیں ہوا الٹا جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔
جی 12 ہمارے سیکٹر کے ساتھ ہی واقع ہے۔ یہ پرانی آبادی ہے۔ میراآبادی اور میرا جعفر کے گائوں بھی اسی میں شامل ہیں۔ یہاں نہ گلیوں کے نمبر ہیں اور نہ ہی گھروں کے۔ کرائے کم ہیں۔ مکینوں کا حکومت کے پاس پورا ریکارڈ نہیں۔ متحرک آبادی(Floating population) بھی اچھی خاصی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سیکٹر مجرموں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ بھی سنا ہے‘ چند مجرموں کو سیاسی حمایت بھی حاصل ہے۔ جی 12 میں ووٹوں کی تعداد جی 13 کے مقابلے میں زیادہ ہے لہٰذا کیا ایم این اے اور کیا دوسرے منتخب ارکان اپنے ووٹروں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس سیاست کا سراسر نقصان جی 13 کے شرفا کو ہو رہا ہے۔ اوپر مذکور تمام وارداتیں بزرگ شہریوں کے گھروں پر ہوئی ہیں۔
اسد عمر ہمارے ایم این اے ہیں۔ موصوف 2018 ء کے الیکشن کے بعد G-13 اور G-14 کو بھول چکے ہیں۔ لوگ انہیں امپورٹڈ ایم این اے کہتے ہیں‘ لیکن یہ بھی نہیں کہ انہیں اسلام آباد کے مسائل کا علم نہ ہو۔ موصوف 2016ء میں میرے گھر آئے تھے۔ سیکٹر کے معززین بھی موجود تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ پانی اور سکیورٹی G-13 کے دو بڑے مسائل ہیں۔ موصوف نے وعدہ کیا کہ دونوں مسئلوں کے حل کیلئے مکمل طور پر آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا لیکن 2018 ء کے بعد میں نے ان کی شکل صرف ٹی وی پر ہی دیکھی ہے۔ اہا لیان G-13 کو اسد عمر نے سخت مایوس کیا ہے۔
شیخ رشید ہمارے وزیر داخلہ ہیں اور ان کی وزارت داخلہ میں آمد کے بعد سے اسلام آباد کا خوبصورت شہر مسلسل گھنائونے جرائم کی زد میں ہے۔ بجائے اس کے کہ اپنے فرائض منصبی پر فوکس کریں شیخ صاحب دن رات ٹی وی پر ن لیگ سے ش لیگ نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پندرہ مرتبہ وزیر بنا ہوں‘ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ تحریک انصاف کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن فرزند ِراولپنڈی کے شہر سے ہاری ہے اور یہ حکومت کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔راولپنڈی کے لوگ شیخ صاحب سے نالاں لگتے ہیں وہ گزشتہ بیس سال سے نالہ لئی کے کنارے ٹرک چلا رہے ہیں اور لوگوں کو اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ موصوف ریلوے کے وزیر تھے تو وہاں حادثات میں اضافہ ہوا۔ وزیر داخلہ بنے تو شہرِ اقتدار جرائم کی زد میں آ گیا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اسلام آباد کا جغرافیہ مجرموں کو دعوت عام دے رہا ہے کہ بچنے کے راستے بہت ہیں ؟کیا گورننس میں سیاسی مداخلت لا اینڈ آرڈر کے مسائل کو جنم دے رہی ہے یا وزیر داخلہ کی عدم توجہ کے سبب جرائم بڑھ رہے ہیں ؟اور ہاں تحریک انصاف کے پولیس ریفارم کے وعدے کہاں گئے؟کیا ہماری پولیس میں شعیب سڈل‘ طارق کھوسہ اور ذوالفقار چیمہ جیسے افسر ختم ہو چکے ہیں؟ یاد رہے کہ اگر شہری کا فرض ٹیکس دینا ہے تو ریاست کا فرض اس کی حفاظت کرنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved