تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     02-10-2021

تحائف بھی قومی راز؟

سوال یہ نہیں کہ کون کتنا ایماندار ہے، سوال یہ ہے کہ کسی ترغیب کی صورت میں کون اپنے قدموں پر جما رہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی کو کچھ حاصل کرنے کا موقع ہی نہ ملے اور وہ اپنی ایمانداری کا ڈھنڈورا پیٹتا رہے۔ کیا کیا جائے کہ اب ہمارے یہاں یہی سب کچھ رہ گیا ہے۔ اِس کی مثال ایک مرتبہ پھر توشہ خانے کے شوشے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ مختصراً یہ جان لیجئے کہ جب حکمران دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہیں تو اپنے ساتھ وہاں کے حکمرانوں کے لیے مختلف تحائف لے کر جاتے ہیں۔ میزبانوں کی جانب سے بھی مہمانوں کو قیمتی تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ تحائف کسی شخصیت کو نہیں بلکہ عہدے دوسرے لفظوں میں ریاست کو ملتے ہیں جس کے باعث یہ تحائف واپسی پر توشہ خانے میں جمع کرا دیے جاتے ہیں۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ شعبہ زندگی کے ہر شعبے پر نظر رکھنے والے افراد توشہ خانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز کریں۔ غالباً اِسی لیے قانون پاس کیا گیا کہ اگر تو کوئی تحفہ تیس ہزار روپے سے کم مالیت کا ہو تو اُسے بغیر کوئی قیمت ادا کیے گھر لے جایا جاسکتا ہے۔ اگر قیمت تیس ہزار روپے سے زیادہ ہو تو اِس کا دس فیصد ادا کرکے حقوقِ ملکیت حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مطلب اگر کسی تحفے کی مالیت دوکروڑ روپے ہے تو صرف بیس لاکھ روپے ادا کرکے اِسے اپنے گھر کی زینت بنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں پہلا حق اُس کا ہوتا ہے جسے تحفہ ملا ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں اِن تحائف کو سرکاری ملازمین کے سامنے نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ تیسری صورت میں اِن کی عام نیلامی کی جاتی ہے۔ اِس حوالے سے اتنا ضرور ہوتا رہا ہے کہ مجاز اداروں کی طرف سے تفصیلات طلب کرنے پر اِنہیں افشا کردیا جاتا تھا۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کو بھی اقتدار میں آنے سے پہلے اِس طریقہ کار پر شدید اعتراضات رہے تھے۔ اِسی تناظر میں اِن دنوں ان کا ایک وڈیو کلپ وائرل ہے جس میں وہ انتہائی غصے سے بتا رہے ہیں کہ ایک مرتبہ اسرائیلی وزیراعظم نے ملنے والے تحائف میں ہیرا پھیر ی کی تو پولیس اُن سے تحقیقات کرنے کے لیے پہنچ گئی۔ اُن کے مطابق کم قیمت پر تحائف لینا بھی بدعنوانی ہی کے زمرے میں آتا ہے لیکن خود پر بات آئی ہے تو عجیب عجیب تاویلات پیش کی جارہی ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک شہری نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت پاکستان انفارمیشن کمیشن کو درخواست کہ اُسے تحریک انصاف کی حکومت کو بیرونی ممالک سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات درکار ہیں۔ کمیشن نے یہ درخواست منظور کرلی۔ اب اِس پر حکومت کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور یہ معلومات سامنے لانا '' قومی مفاد‘‘ کے خلاف ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایسی معلومات سامنے لانے پر میڈیا بات کا بتنگڑ بنا سکتا ہے جس سے دوست ممالک سے تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اِسی تناظر میں محترم شہباز گل صاحب کا ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا ہے کہ ''ہم نے دس فیصد قیمت کی ادائیگی کو بڑھا کر پچاس فیصد تک کردیا ہے‘‘۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ یہ پالیسی کب منظور کی گئی تو جواب ندارد۔
توشہ خانے کی بہتی گنگا کا ذکر کیا جائے تو اس میں سب نے حسبِ توفیق ہاتھ دھوئے ہیں، کیا جمہوری حکمران اور کیا آمر‘ سب ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہے کہ ایک مرتبہ محترم پرویز مشرف صاحب سعودی عرب کے دورے پر گئے تو وہاں سے اُن کی اہلیہ کو ایک جیولری باکس تحفے میں دیا گیا۔ وطن واپس پر جب اِسے کھولا گیا تو اِس میں سے بے شمار قیمتی اشیا نکلیں۔ فیصلہ ہوا کہ ''قانون کے مطابق‘‘ مارکیٹ سے اِن اشیا کی قیمت لگوائی جائے تاکہ اصل قیمت کا دس فیصد ادا کرکے بیگم صاحبہ ان اشیا کو اپنے پاس رکھ سکیں۔ غالباً تب یہ تمام اشیا لگ بھگ ستر‘ پچھتر لاکھ روپے ادا کرکے اپنے پاس رکھ لی گئی تھیں، واضح رہے کہ یہ کل قیمت کا دس فیصد تھا۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ اِن اشیا کی اصل قیمت کیا ہوگی۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ جب بھی کوئی حکمران سعودی عرب یا دیگر ممالک کے دورے پر جاتا ہے اسے ایسے ہی تحائف پیش کیے جاتے ہیں۔ سابق حکمرانوں میں سے نواز شریف، زرداری صاحب اور گیلانی صاحب ''توشہ خانہ ریفرنسز‘‘ کا سامنا بھی کررہے ہیں؛ البتہ اِس فہرست میں بزورِ طاقت اقتدار میں آنے والے کسی حکمران کا نام شامل نہیں۔
اب بات تحریک انصاف کی حکومت پر آئی ہے تو یہ بھی اُسی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں جس میں ماضی کے حکمران کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس سارے ہنگامے میں کابینہ ڈویژن کی طرف سے ایک مراسلہ سامنے آیا ہے کہ قانون کے مطابق 170اشیا نیلام کی گئی جن میں قیمتی گھڑیاں، ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی تحائف شامل تھے۔ البتہ اِس ''نیلام عام‘‘ میں صرف سرکاری ملازمین نے ہی حصہ لیا تھا۔ غالباً جن لوگوں کو نوازنا مقصود تھا‘ اُن کے لیے نیلامی کا اہتمام کردیا گیا۔ یہ کون خوش قسمت لوگ تھے جنہیں انتہائی کم داموں میں بیش قیمت اشیا حاصل ہوگئیں، یہ ظاہر کرنا بھی 'قومی مفاد‘ کے خلاف ہے لہٰذا تمام تر تفصیلات صیغۂ راز میں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جن صاحب نے موجودہ حکومت کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات جاننے کی درخواست دائر کی‘ اُنہوں نے نواز حکومت میں بھی دوبار ایسی ہی درخواست کی تھی اور بالآخر وہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے مگر بعد میں‘ اسی دور میں ''قومی مفادات‘‘ کے پیش نظر حکومت نے یہ پالیسی انتہائی سخت کردی تھی۔کیسی عجیب بات ہے کہ آج ایک طرف تو فیک نیوز کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے اور دوسری طرف مصدقہ معلومات کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔
بات اتنی سی ہے کہ سوال یہ نہیں کہ کون کتنا ایماندار ہے، سوال یہ ہے کہ موقع ملنے پر کون کس حد تک اپنے قدموں پر جما رہتا ہے۔ جانے والوں نے بھی قومی مفادات کی آڑ لے کر کروڑوں روپے کے قیمتی تحائف سمیٹ لیے اور بعد میں آنے والے بھی اُن سے پیچھے نہیں رہے۔ یہی ہمارے قول و فعل کا تضاد ہے جس نے ملک میں بے یقینی کی ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ کسی بات کا اعتبار ہی نہیں رہا۔ یہ ہیں ہمارے رول ماڈل‘ یہ ہیں وہ لوگ جنہیں ہم نعرے لگا لگا کر اقتدار میں لاتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کے دعووں پر یقین کرکے ہم اُن کی کامیابی کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو ہمیں اقتدار میں آنے سے پہلے ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ عقل ماؤف ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور یہی ہیں وہ لوگ جو اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ عوام سے لاتعلق ایسے ہی حکمرانوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ لوگ غربت اور مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ کہاں چلی گئی ہیں ہماری اخلاقیات کہ ہمیں قانون کی کوئی پروا رہی ہے نہ اپنے قول کا کوئی پاس۔ بس ''قومی مفاد‘‘ کا نعرہ بلند کرو اور جو چاہے کر گزرو اور اگر کوئی مخالفت کرے تو اُسے سبق سکھا دو۔ ایک ایمانداری کا بیانیہ ہی تو بچا تھا لیکن اگر اُس پر بھی عوام کا اعتماد متزلزل ہورہا ہے تو پھر معلوم نہیں کہ آگے کیا ہوگیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved