1895ء میں جب ملارمے کو کیمبرج اور آکسفرڈ یونیورسٹیوں نے نئے فرانسیسی شعر اور اس شعری انقلاب کے بارے میں، جو فرانسیسی شاعری میں رونما ہوچکا تھا، خطبہ دینے کے لیے مدعو کیا تو اس نے کہا، میں آپ کے لیے خبر لایا ہوں، ایک انتہائی حیران کن خبر، ایسی خبر جو پہلے دیکھی نہ سنی گئی۔ انہوں نے فرانس پر شعر کے ساتھ تشدد کردیا ہے۔ میرے لیے بہتر ہے کہ میں فوری طورپر آپ کو آگاہ کردوں، ایک ایسے مدعو مہمان کی طرح جو اس حادثے کا عینی شاہد ہے (عبدالرشید، دیباچہ ’’اطراف‘‘) تاہم، اردو افسانے کے ساتھ جو تشدد روارکھا جارہا ہے، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ یہ کچھ اس کے ساتھ پہلے بھی ہوچکا ہے ،جب افسانے میں سے کہانی کو یکسر نکال کر اسے ایک چیستاںبنادیا گیا تھا اور جس کارخیر میں ہمارے دوست انور سجاد اور رشید امجد پیش پیش تھے۔ افسانے کا مطلب اگر کہانی ہے تو اس میں یہ موجود ہونی چاہیے ورنہ اسے کچھ بھی نام دیا جاسکتا ہے، کہانی نہیں، اگر اس کا مقصد افسانے کے قاری کو بھمبل بھوسے میں ڈالنا ہوتو اس کا مطلب یہ ہے کہ قاری کو افسانے سے دور بھگایا جارہا ہے۔ کہانی یا داستان جب شروع ہوئی تھی تو اس کی کشش محض کہانی پن تھا۔ ہاں اگر کہانی کے ذریعے کوئی پیغام دینا مقصود ہوتو وہ ایک سیدھی سادی کہانی کے ذریعے بھی دیا جاسکتا ہے۔ اسے ایک معمہ اور چیستان بناکر رکھ دینا خود کہانی کے ساتھ زیادتی ہے، قاری تو ایک طرف رہ گیا۔ کہانی میں استعارے کے استعمال سے بھی کوئی انکار نہیں، لیکن کہانی میں اس کا کوئی سرپیر بھی ہونا چاہیے، نہ کہ اسے ایک لاینحل مسئلہ بناکر پیش کردیا جائے ۔اس صورت میں تو افسانے کے آخر میں پرچۂ ترکیب استعمال بھی درج ہونا چاہیے تاکہ قاری کے پلے کچھ تو پڑ سکے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے معروف جریدہ ’’ادبیات ‘‘ کا تازہ شمارہ، پیش نظر ہے ۔اس میں افسانوں کے حوالے سے سراسر یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس فہرست میں ہمارے محبوب اور معروف نام بھی ہیں، لیکن کم وبیش سبھی افسانوں میں یعنی ایک آدھ کو چھوڑ کر کہانی کو غائب کردیا گیا ہے اور جسے افسانے کے ساتھ تشدد کہا جاسکتا ہے اور قاری کے ساتھ بھی ۔ورائٹی کے لیے آپ اس کے کہانی پن میں بھی خاطر خواہ تبدیلی لاسکتے ہیں لیکن اس میں کہانی پھر بھی موجود رہنی چاہیے، اور کم ازکم اس حدتک ضرور کہ قاری اسے کسی اور کے سامنے بیان بھی کرسکے۔ چنانچہ اس میں سے کہانی کو نکال کر افسانہ نگار گویا خود اپنے ساتھ بھی ایک تشدد روارکھ رہا ہوتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کم و بیش یہی کچھ غزل کے سلسلے میں کیا جارہا ہے ، جس کا اساسی موضوع ہی عشق ہے ، لیکن اس میں سے بھی عشق کو تقریباً یکسر نکال دیا جارہا ہے۔ بیشک یہ بہت پٹا ہوا موضوع ہے اور اس میں کوئی نئی یا تازہ بات کہنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے اور اگر شاعر واقعتاً اس معاملے میں عاجز ہے تو اسے کم ازکم اس کے خالص پن کو خراب کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عشق کے علاوہ بھی اس میں موضوعات باندھے گئے ہیں لیکن یہ بھی ایک انحرافی کارنامہ تھا اور جس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ شاعر اپنے آپ کو اس مضمون تک پابند نہیں کرنا چاہتا لیکن صورت حال وہی افسانے جیسی ہوجاتی ہے۔ ’’آبِ رواں‘‘ کا ایک شعر ہے: غزل کہ تھی ہی، ظفر، حرف بازناں گفتن کہاں کہاں لیے پھرتے رہے غریب کو ہم قاری شاعر کی ذہنی کیفیات اور ان کے اتار چڑھائو میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا، نہ ہی وہ اس مقصد کے لیے غزل پڑھنے بیٹھتا ہے۔ اعجاز حسین بٹالوی کا کہنا ہے کہ غزل کے شعر کو خوش مزہ ہونا چاہیے جبکہ فیض ؔصاحب کے بقول شعر کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ تازہ ہو۔ چنانچہ غزل کا شعر اگر خشک، ڈل اور بے کیف ہے تو اسے غزل کا شعر نہیں کہا جاسکتا۔ جو شاعر عشق نہ کررہا ہو یا جس نے کبھی عشق نہ کیا ہو، اسے غزل گو ئی کی بجائے دوسری اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنی چاہیے جبکہ یہ اس کے عشق کے خالص پن اور شدت پر منحصر ہے کہ وہ غزل کے ساتھ کس حدتک انصاف کرسکتا ہے۔ ان حالات میں غزل شاعر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔ مثلاً میں اگر اس موضوع کے اندر رہ کر شعر کہتا ہوں اور وہ شعر بن نہیں پاتا تو وہ میری ناکامی ہے اور عشق کا یہ موضوع غیرمتعلقہ اور پیش پا افتادہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ عشق ایک ایسی عالمگیر حقیقت ہے کہ جنسِ مخالف کے لیے ایک زبردست کشش انسان کی جبلت میں رکھ دی گئی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا یعنی ؎ کاروبار شوق جب تک گرم ہے زیرفلک باغ میں پریاں، ظفرؔ، جنگل میں آہوآئے گا لیکن حالت یہ ہوچکی ہے کہ عشقیہ شعر کو ایک طرح کی پسماندگی سے موسوم اور تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ یہ بھی اپنے عجز کو چھپانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ کھیل کے قواعد کی پابندی بہرحال کرنی چاہیے۔ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض نوجوان شعراء اس موضوع پر طبع آزمائی کررہے ہیں اور اس ہزارہا بار کے پٹے ہوئے موضوع پر تازہ شعر بھی نکال رہے ہیں یعنی ناممکن کو ممکن بناکردکھا رہے ہیں حالانکہ اس میں نوجوان یا جوان ہونے کی بھی کوئی شر ط نہیں ہے۔ چنانچہ غزل کے مطالعہ کا بنیادی مقصد اس سے لطف اندوز ہونا ہے ، شاعر کے علم و فضل اور عرفان وآگہی کا حصول نہیں۔ آپ اسے ذہنی عیاشی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن شعر وادب میں اتنی سی ذہنی عیاشی کی گنجائش تو ہونی ہی چاہیے جبکہ دیگر کمالات دکھانے کے لیے دوسری اصناف شعر موجود ہیں اس لیے افسانہ نگاروں اور شعرائے کرام سے یہ گزارش کرنا کچھ زیادہ نا مناسب نہ ہوگا کہ افسانے اور غزل کو جہاں تک ہوسکے، ان کی اصل کے اندر ہی رہنے دیا جائے۔ اس شمارے میں غزلیں بھی پوری فراخدلی کے ساتھ شائع کی گئی ہیں جن میں گریز کا یہ پہلو بطور خاص نمایاں ہے ؛ تاہم اس سے قطع نظر ایک غیرمعروف شاعر منیر فیاض کی یہ غزل آپ کی تفننِ طبع کے لیے پیش ہے: دھیان کی ریت پر لکھا ہوا میں تیری یادوں کا نقش پا ہوا میں مجھ کو ہرلمحہ بھولتا ہوا تو تجھ کو ہرآن سوچتا ہوا میں کیسے کرب طرب سے گزرا ہوں تیرے ہاتھوں میں ٹوٹتا ہوا میں اک زمانے کی انتہا ہوکر آخر کار ابتدا ہوا میں ایک تصویر کے تعاقب میں جانے کس کس کو دیکھتا ہوا میں کہکشائوں کی سیر کرتا ہوا، خود کو پیروں میں روندتا ہوا میں آج کا مطلع وہی دریا تھا، مگر، اور ہی گہرائی میں تھا فرق اب کے جووہاں اپنی پذیرائی میں تھا نوٹ :گزشتہ روز کے کالم میں ’ مباحث ‘کی جگہ غلطی سے مباحثہ چھپ گیا۔درست عنوان یوں ہوگا ، سرخیاں ، متن اور تحسین فراقی کا ’ مباحث ‘ قارئین تصحیح فرمالیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved