تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-10-2021

پوچھئے اور سوچئے

دسویں جماعت کے امتحانی نتائج آنے والے ہیں۔ یہ بھی بہت عجیب وقت ہوتا ہے۔ دسویں جماعت کے امتحان میں کامیابی کے بعد کالج کی دنیا میں قدم رکھتے وقت نئی نسل کے دل و دماغ میں بہت کچھ ابھرتا اور پنپتا ہے۔ یہ وقت امنگوں اور آرزوؤں سے لبریز ہوتا ہے۔ بہت کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ دنیا کو مٹھی میں لینے کی تڑپ سی پنپتی ہے۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ فرید صاحب نے یاد کیا۔ وہ اور اُن کی اہلیہ اپنی بڑی بیٹی کی تعلیم کے حوالے سے تھوڑی سی الجھن کا شکار ہیں۔ خیر! بلائے جانے پر ہم (یعنی میں اور اہلِ خانہ) حاضر ہوئے۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ بچوں کے مستقبل کا معاملہ بھی زیرِ بحث رہا۔ فرید صاحب کی بڑی بیٹی خیر سے دسویں کرنے کو ہے۔ گفتگو کے دوران سوال یہ اٹھا کہ اب کون سی راہ پر گامزن ہوا جائے، کس شعبے کو گلے لگایا جائے۔ آج بچوں کے پاس پڑھنے اور کچھ کرنے کے لیے بہت سے آپشنز موجود ہیں۔ ایسے شعبوں کی کمی نہیں جن میں شاندار کیریئر بنایا جاسکتا ہے۔ آپشنز کا زیادہ ہونا اچھی بات ہے مگر یہ بہت بڑا چیلنج بھی تو ہے۔ نئی نسل اس مرحلے پر الجھ کر رہ جاتی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرف جایا جائے، کیا کِیا جائے۔ بہت سوں کو ہم نے اِس حال میں دیکھا ہے کہ کسی ایک شعبے میں قدم رکھتے ہیں اور ڈیڑھ دو سال کی محنت کے بعد تجربہ ناکام ہونے پر شعبہ بدلتے ہیں۔ گویا بقولِ غالبؔ ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بَر کو میں
بعض شعبوں میں صرف کامیابی اور دولت ہی نہیں، چمک دمک بھی ہے۔ بعض شعبے دیتے تو بہت کچھ ہیں مگر اُن میں عمومی سطح پر چمک دمک ہوتی ہے نہ کشش۔ بعض شعبے بہت مشکل ہیں مگر اِس کے باوجود اُن میں کامیاب ہونے والوں کو کچھ خاص نہیں ملتا۔ دوسری طرف ایسے کئی شعبے ہیں جن میں بھرپور کامیابی کے لیے کچھ خاص محنت نہیں کرنا پڑتی۔ بعض شعبوں کو محض اس لیے اپنایا جاتا ہے کہ اُن میں کشش بہت ہوتی ہے اور فخریہ طور پر بتایا جاتا ہے کہ فلاں ادارے میں کام کر رہا ہوں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ بہت سے لوگ دبئی، شارجہ وغیرہ میں کچھ خاص آمدن نہ ہونے کے باوجود محض اس لیے وہاں کام کرتے رہتے ہیں کہ اُن کے بچے سب کو فخریہ بتاتے ہیں ابو دبئی میں ہوتے ہیں!
نئی نسل کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خوابوں اور خیالوں کا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں خوش گمانیاں اور خوش فہمیاں پالتی رہتی ہے۔ حقیقت کی دنیا کچھ اور کہتی ہے۔ کوئی بھی شعبہ ایسا آسان نہیں کہ اُس میں قدم رکھیے اور کامیابی ہاتھ لگے۔ کم یا زیادہ‘ محنت تو کرنا ہی پڑتی ہے۔ یہ اصول ہر معاشرے پر اطلاق پذیر ہے۔ ہماری نئی نسل یہ نہ سمجھے کہ مشکلات صرف اُس کا مقدر ہیں۔ پوری دنیا میں الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ آسانیاں صرف اُن کے لیے ہیں جو مشکلات اور الجھنوں سے گھبراکر کچھ کرنے سے دامن کش رہتے ہیں۔ جب انسان یہ طے کرلے کہ کچھ نہیں کرنا اور حیوانی سطح پر جینا ہے تو پھر کوئی بھی مشکل یا الجھن راستا نہیں روکتی۔ نئی نسل کیریئر کے انتخاب کے معاملے میں دیکھا دیکھی کا چلن اپنانے میں دیر نہیں لگاتی۔ اگر قریبی حلقوں میں اکثریت فطری علوم و فنون کی طرف جارہی ہو تو ذہنی صلاحیت و سکت کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر فطری علوم و فنون کو گلے لگایا جاتا ہے۔ علم کا حصول سر بسر رجحان اور میلان کا معاملہ ہے۔ صرف وہی علم ڈھنگ سے حاصل کیا جاسکتا ہے جو فطری میلان یا موزونیتِ طبع کے مطابق ہو۔ اگر کسی شعبے سے برائے نام بھی دلچسپی نہ ہو تو اُسے محض اس لیے اپنایا نہیں جاسکتا کہ اُسے دوسروں نے اپنایا ہے یا یہ کہ اُس میں کام کرنے والوں کے لیے کامیابی کے زیادہ مواقع آسانی سے میسر ہیں۔ کالج کی دنیا میں قدم رکھتے وقت کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُسے کیا پسند ہے، کس شعبے کے متعلقات اُس کے ذہن پر سوار رہتے ہیں اور کس شعبے کی نمایاں شخصیات اُسے زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
فرید صاحب کی صاحبزادی کے اردگرد کے ماحول میں کوئی کمپیوٹر سائنس لے چکا ہے اور کوئی بزنس ایجوکیشن کی طرف جاچکا ہے۔ فرید صاحب نے پوچھا بتائیے اسے کس شعبے میں جانا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا یہ سوال تو بیٹی سے پوچھا جانا چاہیے۔ پوچھئے اور سوچئے کہ اُس کے لیے کیا موزوں ہے۔ سوال اُس کے میلانِ طبع کا ہے کیونکہ اگلے چار پانچ سال کالج یا یونیورسٹی میں اُسے گزارنا ہیں۔ شعبہ منتخب کرتے وقت دو باتوں کا دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ اول تو یہ کہ طبیعت اُس کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے یا نہیں اور دوسری یہ کہ اپنائے جانے والے شعبے کی معاشی قدر و قیمت کتنی ہے یعنی اُس شعبے میں محنت کرنے کے نتیجے میں کیا ملے گا۔ چمک دمک اور کشش کا نمبر اِس کے بعد آتا ہے۔ ہمارا استدلال یہ تھا کہ اگر رجحان ہو اور محنت کرنے کا جذبہ ہو تب بھی کسی ٹیکنیکل یا پروفیشنل شعبے میں صرف اُس وقت قدم رکھنا چاہیے جب کیریئر بنانے کی سوچ پائی جاتی ہو۔ اگر کوئی لڑکا کمپیوٹر سائنس لیتا ہے اور محنت کرکے بھرپور کامیابی حاصل کرتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اِسی شعبے میں رہتے ہوئے گھر چلانا ہے۔ اگر والدین یہ سوچتے ہیں کہ گریجویشن کی سطح تک تعلیم دلاکر بیٹی کی شادی کردیں گے اور وہ اُس شعبے میں جاب کرے گی نہ بزنس تو پھر کوئی ٹیکنیکل شعبہ اپنانے اور مغز پاشی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اگر بیٹی کو چار سال کی کالج کی سطح کی تعلیم دلوانے کے بعد اُس کا گھر ہی بسانا ٹھہرا تو پھر فطری علوم کے بجائے سماجی علوم کو گلے لگانے کے بارے میں سوچا جائے کیونکہ سماجی علوم میں ایسی شاخیں موجود ہیں جو کسی بھی لڑکی کو بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے میں غیر معمولی مدد دیتی ہیں، مثلاً ہوم اکنامکس لینے والی لڑکیاں پوری توجہ سے پڑھیں تو امورِ خانہ داری کو سمجھنے میں نمایاں حد تک کامیاب رہتی ہیں اور اُن کی زندگی میں وہ توازن دکھائی دیتا ہے جو گھر بسانے کیلئے درکار ہوتا ہے۔
بیشتر معاملات میں سوال صرف موزونیتِ طبع کا نہیں اطلاقی پہلو کا بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی کمپیوٹر سائنس جیسے شعبے میں دن رات محنت کرکے بھرپور کامیابی حاصل کرتی ہے لیکن عملی زندگی میں اُس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتی تو یہ ساری محنت بظاہر کسی کام کی نہیں۔ اِسے وقت، (ذاتی و سرکاری) وسائل اور محنت‘ تینوں ہی کا ضیاع تصور کیا جائے گا۔ بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے سوچتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رکھا جائے کہ اگر نوکری نہ کرنی ہو تو پھر فطری علوم و فنون کے بجائے سماجی علوم کو اپنانا چاہیے ۔
بچی اب کیا پڑھتی ہے اور کیا نہیں‘ یہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے مگر دانش کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پڑھا جائے جو عملی زندگی میں کسی نہ کسی طور مثبت اور نمایاں کردار ادا کرسکتا ہو۔ ہر بچے کے لیے وہی کچھ پڑھنا موزوں ہے جو عملی زندگی کا معیار بلند کرنے میں معاونت کرے۔ کوئی بھی شعبہ دیکھا دیکھی اپنانے سے اُس کا حق ادا کرنے کی تحریک نہیں ملتی۔ فطری علوم و فنون میں محنت چونکہ بہت زیادہ ہے اِس لیے اِنہیں اُسی وقت اپنایا جائے جب کیریئر بنانے کا ارادہ کرلیا گیا ہو۔ ٹیکنیکل شعبوں میں بہت محنت کرنا پڑتی ہے، جدید ترین رجحانات کے مطابق بہت کچھ سیکھنا اور اَپ ڈیٹ رہنا پڑتا ہے۔ ایسے شعبوں کو صرف کیریئر کے نقطۂ نظر سے اپنایا جاسکتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سوچتے وقت عملی یا اطلاقی پہلو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved