وزیراعظم عمران خان نے جب سے اپنا منصب سنبھالا ہے، اور اب اس وقوعہ کو تین سال سے زیادہ ہوچکے ہیں، اِس بات پر مسلسل زوردیا ہے کہ وہ کسی کو ''این آر او‘‘ نہیں دیں گے۔ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں پر وہ باربار الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کا واحد مقصد ''این آر او‘‘ کا حصول ہے۔ ان کے وزرائے کرام اور ترجمان حضرات کا بھی اصرار رہا کہ اگر این آر او دیا جائے تو اپوزیشن کے نزدیک دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی، اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر ہنگامہ جاری رہے گا اور منتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور مشکلات پیدا کرنے کی سیاست سرگرم رہے گی۔ این آر او ''نیشنل ری کنسلی ایشن آرڈیننس‘‘ کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے ''قومی مفاہمت کا فرمان‘‘۔ یہ صدر مشرف اور بینظیر بھٹو کے مابین طے پایا تھا، اور اس کی بدولت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے بے شمار رہنمائوں اور کارکنوں پر درج مختلف نوعیت کے مقدمات ختم ہوگئے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا خیال تھاکہ یہ ریلیف حاصل کرکے معمول کی سیاسی سرگرمیاں شروع کرنا ان کیلئے ممکن ہوجائے گا۔ اسے بعدازاں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم جیسے افراد بھی درخواست گزاروں میں شامل تھے۔ افتخار چودھری کی بگٹٹ عدالت نے اسے کالعدم قرار دے دیا، ان کے بعد مقرر ہونے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے اس خطِ تنسیخ پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ اسکے بعد کیا ہوا، وہ تفصیل بھی دلچسپ ہے لیکن فی الوقت اس میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ مذکورہ آرڈیننس کے ذریعے یکم جنوری1986ء تا 12اکتوبر 1999ء درج کیے جانیوالے کرپشن، منی لانڈرنگ، بدعنوانی، دہشتگردی اور قتل و غارت کے مقدمات واپس لے لیے گئے تھے۔ بری الذمہ قرار پانے والوں میں سرکاری افسروں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی، جنہیں مبینہ طورپر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست پیش کرنے پر مجبور کیا تو 8ہزار سے زائد افراد کے نام منظر عام پرآئے، جن میں 34 سیاستدان تھے۔ سیاسی منظرنامہ بدلا تو این آراو سے استفادہ کرنے والوں کا تعاقب کسی کویاد نہ رہا۔ بہرحال، اُس وقت سے لیکر آج تک مذکورہ آرڈیننس کا تذکرہ حقارت سے کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی خصوصی توجہ سے ''این آر او‘‘ کے الفاظ گالی بنا دیے گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مختلف سرکاری افسروں و سیاستدانوں کیخلاف احتساب کے نام پر جو کارروائیاں کی گئی ہیں، انکے بارے میں عدالتوں کے منفی ریمارکس کے باوجود وزیراعظم کو توفیق نہیں ہوئی کہ صورتحال کا معروضی جائزہ لیکر ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کی سوچیں۔ مختلف وزرائے کرام بھی نام نہاد احتسابی عمل پر حکومت کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ سرکاری افسروں کی بے عملی کی وجہ سے گورننس کے جو مسائل پیدا ہوئے، انکا بھی تذکرہ جاری رہتا ہے، لیکن حالات کو درست کرنے کی کوئی مؤثر کوشش نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم اس حوالے سے کوئی بات سننے پرآمادہ نہیں۔ وہ دنیا بھر میں اپنے حریفوں کے خلاف دِل کا غبار نکال کر خوش ہوتے، اور تان اس بات پر توڑتے چلے جاتے ہیں کہ ''این آر او‘‘ نہیں دیا جائے گا۔ گویا کوئی مقدمہ واپس نہیں ہوگا، احتسابی کارروائی میں لگائے گئے الزامات کا جائزہ نہیں لیا جائے گا، کسی شخص کو ماورائے عدالت ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ انکے نزدیک انصاف کا تقاضہ یہی ہے، طاقتوروں کو شکنجے میں جکڑ کر ہی معاشرے آگے بڑھ سکتے اورتوانا ہو سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے اندر ہی یہ بات درج ہے کہ صدرِ مملکت کسی بھی شخص کے خلاف کوئی مقدمہ یا کارروائی ختم کر سکتے ہیں، اورکسی بھی سزاکو معاف کرسکتے ہیں۔ ایسا مقدمے کی سماعت کے دوران ہو سکتا ہے، اوربعد میں بھی۔ جنابِ صدر کا یہ اختیار صوابدیدی نہیں، انہیں اِس حوالے سے وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنا ہوتا ہے، اسکا مطلب یہ ہے کہ آئین بنانے والوں نے اِس بات کو تسلیم کررکھا ہے کہ بعض اوقات کسی عدالتی کارروائی یا فیصلے کوکالعدم قرار دینا ہی وسیع ترمفاد کا تقاضہ قرارپاتا ہے۔ اگراس نکتے کو مدنظر رکھا جاتا تو این آراو کے خلاف مہم جوئی مدھم پڑجاتی، اور اسے گالی بنانے سے احتراز کیا جاتا، لیکن وزیراعظم نے اپنا سیاسی مفاد اسی میں سمجھا،اور اسی پر کاربند رہنے کا عزم دہراتے رہے‘ لیکن اب انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو معافی دی جاسکتی ہے۔ اگراس کے مختلف گروپ ہتھیار ڈال دیں تووہ عام شہری کے طورپر آزادانہ زندگی گزارسکتے ہیں۔ وزیراعظم نے ایک ترک ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان طالبان کی وساطت سے پاکستانی طالبان کے مختلف گروپوں سے مذاکرات جاری ہیں، اورافغان طالبان اس میں ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ یقین ظاہر کرنے سے گریز کیا کہ معاملات طے پا جائیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ نتیجے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن کوشش جاری ہے۔ اس پر مختلف سیاسی رہنمائوں اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اسے وزیراعظم کا تازہ یوٹرن قرار دے کرپوچھا جارہا ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟ معصوم طلبہ کے خون سے ہاتھ رنگنے والے کیسے کسی رعایت کے مستحق ہوسکتے ہیں؟... وزیراعظم کو ان کے سکوّں میں جواب دینے والے جواب طلب کر رہے ہیں کہ اگر پاکستانی طالبان کو ''این آر او‘‘ دیا جا سکتا ہے توسیاسی حریفوں کے معاملات پرکھلے دِل سے غورکیوں نہیں کیا جا سکتا؟ نیب زدگان کی فریاد کیوں نہیں سنی جا سکتی؟
وزیراعظم اورانکے رفقا تواس کا جو بھی جواب دیں، اپنے حق میں جو بھی دلیل لائیں، اپنی کشادہ دلی کا جوبھی اعلان کریں، اس سب سے قطع نظر تاریخ اورعالمی سیاست پرنظر رکھنے والے یہ تسلیم کرنے پرمجبور ہوں گے کہ دانائی اور حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے، ماضی میں الجھ کر مستقبل کو کھوٹا نہ کیا جائے۔ پاکستان کوامن کا گہوارہ بنانے کیلئے گزشتہ سازشوں، اور فروگزاشتوں کو نظرانداز کردیا جائے۔ امریکہ اگر برسرپیکار طالبان کیساتھ معاہدہ کرسکتا ہے، اورافغان طالبان اگراپنے خلاف برسرپیکار لوگوں کو معاف کرسکتے ہیں، خود پاکستان اگر بلوچستان کے ہتھیاربندوں کوکئی بار معافی دے سکتا ہے، وزیراعظم نواز شریف کے دور میں سیاسی جماعتیں اور فوجی قیادت ملکر پاکستانی طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کر سکتی ہیں، تو اب وطنِ عزیز میں خون کی ندیوں کو خشک کرنے کیلئے اقدام کیوں نہیں ہو سکتا؟ وزیراعظم کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ اس سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، لیکن وسعت قلبی کا یہ مظاہرہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے جوآئین اور قانون کے تحت اپناکردار ادا کررہے ہیں۔ انہیں محض اس لیے کالے قوانین اور ہتھکنڈوں کا نشانہ نہیں بننا چاہیے کہ وہ وزیراعظم یا برسراقتدار جماعت کے سیاسی حریف ہیں۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں، اور حکومت سے اختلاف کرنے والوں کیلئے الگ الگ پیمانے نہ ریاست کے مفاد میں ہوں گے، نہ حکومت کے مفاد میں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)