تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-10-2021

خوشی کا راز

اگر آپ کا خیال ہے کہ حقیقی خوشی گاڑیوں کے ماڈلز میں چھپی ہوئی ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ خوشی تو ایک اچھا شعر بن کر یا پڑھ کر بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ میں کوئی اچھا شعر سن لوں تو اس کے نشے میں کئی دن خوش رہتا ہوں‘ بلکہ میں ہی کیا؟ ایک دو اور دوست ہیں انہیں بھیجتا ہوں تو وہ بھی اس خوشی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ خوشی میں دوسرے لوگ شریک ہو جائیں تو خوشی دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ بھلا خوشی کا گاڑیوں کی قیمت اور ان کے ماڈلز سے کیا تعلق ہے؟
میری کل اپنے ایک دوست سے گفتگو ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا: بڑے بینک نے لیزنگ پر خریدی جانے والی گاڑیوں کے لیے قرض کی شرائط کو بہت سخت کر دیا ہے۔ پھر دکھی سا ہو کر کہنے لگا: اس حکومت میں کسی چیز پر سکون کی چار گھڑیاں نہیں گزر رہیں۔ لوگ گاڑی قرضے پر خرید لیتے تھے اب اسے بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ پہلے ڈائون پیمنٹ پندرہ فیصد تھی‘ اب اسے بڑھا کر تیس فیصد کر دیا گیا ہے۔ قرض کی حد بھی تیس لاکھ تک کر دی گئی ہے۔ ادائیگی کی مدت سات سال سے کم کر کے پانچ سال کر دی گئی ہے اور درآمد کردہ گاڑیوں پر تو قرضہ بالکل ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ پھر کہنے لگا: یہ حکومت کسی کو خوش نہیں رہنے دے گی۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا خوشی گاڑیوں کے ماڈلز اور قیمت میں پوشیدہ ہے؟ اب حیران ہونے کی باری اس کی تھی۔
وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ خوشی اگر اچھی گاڑیوں میں، شاندار گھروں میں، برانڈڈ کپڑوں بینک بیلنس یا کریڈٹ کارڈز سے بھرے ہوئے بٹوے میں نہیں تو پھر آخر کس چیز میں ہے؟ میں نے کہا: خوشی کا مفہوم ہر شخص کے نزدیک مختلف ہے‘ جیسے میں اور تم خوشی کے بارے میں دو مختلف سروں پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے بحث بے فائدہ اور فضول ہو گی‘ تاہم فی الحال میں اس معاملے میں خوشی کے بجائے اس کے اقتصادی پہلوئوں پر بات کروں تو بہتر ہو گا۔
میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: کبھی تم نے ملک بھر کی سڑکوں پر ٹریفک کا ازدحام دیکھا ہے؟ یہ زیادہ تر قرض کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا نتیجہ ہے۔ جن لوگوں کو ان کے والدین موٹر سائیکل لے کر دینے پر تیار نہیں ہوتے تھے بینکوں نے انہیں دس فیصد ایڈوانس ادائیگی پر گاڑیاں دینا شروع کر دیں۔ شروع شروع میں تو چار دن اچھے گزرے، پھر قسط کی نادہندگی کے مرحلے کا آغاز ہو گیا۔ گاڑیوں کی قسطوں نے گھر کے باقی معاملات کا تختہ کر دیا۔ گاڑی کی ماہانہ قسط نے بہت سے لوگوں کو باقاعدہ ذہنی مریض بنا دیا۔ اب عالم یہ ہے کہ خوش حالی کا معیار گاڑی کا ماڈل بن گیا ہے‘ خواہ وہ قرض پر ہی لی گئی ہو۔ اگر گاڑی محض ضرورت ہے تو وہ چھ سو یا آٹھ سو سی سی والی گاڑی سے بھی پوری ہو سکتی ہے۔ رہ گئی بات لگژری کی تو وہ اگر قرضہ لے کر حاصل کرنی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ آپ سستی لیکن قرضہ فری ذاتی گاڑی سے ضرورت پوری کریں۔ قرض پر عیاشی ایک ایسا فیشن ہے جس میں ہم بحیثیت قوم مبتلا ہیں۔ کیا ہم عوام اور کیا ہمارے حکمران! ہر دو پارٹیاں اس بارے میں ایک جیسی سوچ رکھتی ہیں۔
اپنی اوقات سے بڑھ کر دکھاوا کرنا ایک ذہنی بیماری ہے اور قرض اگر ضرورت کے بجائے عیاشی کے لیے لیا جائے تو لعنت ہے ایسے قرض پر۔ ہم ہر دوسرے دن جو کاسۂ گدائی لے کر عالمی معاشی اداروں کے دروازے پر قرض مانگنے پہنچ جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم حیثیت تو دو پیسے کی رکھتے ہیں لیکن چار آنے خرچ کر کے خود کو اپنی حقیقی اوقات سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوست کہنے لگا: دراصل میں ایک نئی ایس یو وی خریدنا چاہتا ہوں جو تقریباً پچپن لاکھ روپے کی ہے۔ میں نے کہا: تم چار لوگ ہو اور تمہارے پاس گاڑی موجود ہے جو ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے‘ تھوڑی پرانی ہے مگر بہت اچھی حالت میں ہے۔ ناراض نہ ہونا لیکن تمہاری معاشی صورت حال اسی گاڑی کے قابل ہے۔ اب تم محض اپنا سوشل سٹیٹس اونچا کرنے کے لیے قرض لے کر گاڑی لینا چاہتے ہو۔ تمہیں ضرورت نہیں بلکہ لگژری کی خواہش قرض لینے پر مجبور کر رہی ہے۔ اللہ تمہارے رزق میں برکت ڈالے اور آمدنی میں اضافہ کرے‘ جب اس قابل ہو جائو کہ اپنی خواہش کے مطابق والی ایس یو وی خرید سکو تو ضرور خرید لینا۔ اپنی کمائی کو خود پر خرچ کرنا کوئی جرم نہیں مگر ضرورت اور خواہش کے مابین توازن رکھنا ہی اصل چیز ہے۔ قوت خرید سو روپے ہو اور بازار میں سو روپے کی چیز سے ضرورت بھی پوری ہوتی ہو تو چار سو روپے والی چیز خرید کر خود کو اپنی حقیقی اوقات سے زیادہ شو کرنے کا ٹھرک ہمیں قرض در قرض کی دلدل میں پھنسائے چلا جا رہا ہے۔ آخر بندے کو اپنی اوقات میں رہنے سے کیا مسئلہ ہے؟
آپ کے پاس ایس یو وی خریدنے کے پیسے نہیں اور آپ لگژری اور دکھاوے کے چکر میں ساٹھ ستر لاکھ روپے کی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں، یعنی قرضے پر عیاشی کا شوق چرایا ہے۔ حکمران قرضے لے کر ملک کو اقتصادی بد حالی کی دلدل میں ڈبوئیں تو قابل مذمت ہیں اور اپنی ذات کے حوالے سے اگر ایسی پابندی لگے تو ہمیں برا لگتا ہے۔ حکمران بھی تو وہی کر رہے ہیں جو ہم عوام کر رہے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ چھوٹی گاڑی میں بیٹھنے والا اس غم میں مبتلا ہے کہ میرے پاس کرولا کیوں نہیں؟ کرولا والے کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ میرے پاس سپورٹیج کیوں نہیں؟ سپورٹیج والا فارچونر کے چکر میں ہے اور فارچونر والا وی ایٹ کے خوابوں میں بد مزہ ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر بندہ اپنی گاڑی سے بڑی والی کے چکر میں اپنی ملکیت والی گاڑی کو انجوائے نہیں کر رہا۔ سب لوگ بہتر کل کے چکر میں اپنا آج انجوائے نہیں کر رہے اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو رد کر کے کفران نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اللہ آپ کو اور سب لوگوں کے رزق میں برکت ڈالے، خوش حالی اور آسانی عطا کرے مگر ضرورتوں کا دائرہ نفسانی خواہشوں کے تابع ہو جائے تو انسان نہ کبھی مطمئن ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی سکون پاتا ہے۔ خوشی، سکون، اطمینان قلب اور شکر گزاری کی حد وہاں سے تک ہے جہاں آپ کو بنیادی ضروریات اور حاجات کے لیے کسی کے سامنے قرض یا مدد کے لیے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اس سے اوپر کے لیے دعا کریں اور محنت کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو مجبوری اور ضرورت کے تحت لیے جانے والے قرض سے بھی محفوظ و مامون رکھے کجا کہ محض دل پشوری کے چکر میں قرضے لینے کی علت میں مبتلا ہوا جائے۔ خوشی تو ماں باپ کی مسکراہٹ میں بھی پوشیدہ ہے اور بچوں کی کلکاری میں بھی۔ ہم احمق اسے گاڑیوں کے نت نئے ماڈلز میں تلاش کرنے کے چکر میں مسلسل نا خوش زندگی کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved