تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     03-10-2021

باسفورس کے نیلے پانیوں پر

استنبول پہنچ کر باسفورس کے نیلے پانیوں سے ملاقات ہمیشہ سے ایسی لگتی ہے جیسے کسی محبوب سے ملنے کا اشتیاق‘ اور اب ان نیلگوں پانیوں پر بجرے میں سوار ہونا، چند گھنٹے اس میں سفر کرنا، عشائیے اور گپ شپ سے لطف اندوز ہونا پروگرام کا حصہ تھا۔ ہم سب مہمان آیا صوفیہ سے رخصت ہو کر بس میں بیٹھے اور بس پہاڑی سے نیچے اترتی ہوئی سرکے جی اور امینونو کی طرف چل پڑی۔ سرکے جی یعنی سرکے والے۔ بظاہر پرانے زمانوں میں یہاں سرکہ بنانے والوں کا مرکز ہوگا۔ امینونو کا لفظ میرے لیے تحقیق طلب ہے اور ایسے لفظوں کے معنی جاننے میں میری ہمیشہ سے دلچسپی رہتی ہے۔ باسفورس میں سفر کرتے ہوئے دائیں بائیں کناروں پر تاریخی محلات، قلعوں، تاریخی جگہوں اور مسجدوں کو دیکھنا بذات خود ایسا ہے جیسے آپ تاریخ کے نیلے سمندر میں سفر کرتے ہوئے دائیں بائیں گزرتے زمانوں کو دیکھ رہے ہوں۔
ہم اپنی کشتی پر پہنچے جو بنیادی طور پر دو منزلوں پر مشتمل تھی۔ بالائی عرشہ کھلے آسمان تلے تھا۔ جہاں گول میزوں کے گرد کرسیاں لگائی گئی تھیں اور میزوں پر مشروبات کے ساتھ تازہ اور خشک پھلوں کا انتظام تھا۔ دو روزہ ورک شاپ، میٹنگز اور کامیاب اور پُرجوش اختتام کے بعد سب مندوبین خوش تھے۔ ان دو دنوں میں بار بار ملاقاتیں ہونے کے باعث اکثر مہمان اچھی طرح ایک دوسرے سے متعارف ہو چکے تھے اور تعارف، دوستی اور دوستی بے تکلفی میں بدلنے لگی تھی۔ اس میں منتظمین کی محنت کا بہت دخل تھا اور زیادتی ہو گی اگر بالائی سطح کے منتظمین کے ساتھ ساتھ تنظیم کے رضاکار نوجوانوں کے مسلسل کام کی داد نہ دی جائے۔ مرجان پے تیک ہوں، آزر عبدالرحمن ہوں یا خوش اخلاق مس گلنارا‘ سب مسلسل اس کوشش میں مصروف تھے کہ مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
سب مہمان ٹولیوں میں میزوں کے گرد بیٹھے تھے۔ نیلا آسمان، نیلے باسفورس سے ہم آغوش تھا۔ ہوائے شام کے خنک جھونکے چہروں کو چھو کر ایک شاداب اور بھیگا لمس چھوڑکر گزر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں چاند افق پر طلوع ہوا، پہلے روشن اور پھر روشن تر۔ کشتی کے دائیں بائیں وہ مناظر پھیلے ہوئے تھے جو صدیوں پہلے بھی لوگوں نے اسی جگہ سے اسی طرح دیکھے ہوں گے۔ الجزائر کے ڈاکٹر کمال اپنی فصیح اور عمدہ عربی میں ان سب مقامات کا تعارف کروا رہے تھے، کچھ ہی دیر میں کشتی کے دائیں طرف ایک سنہرا سفید محل جگمگ کرتا نمودار ہوا۔ شام کی روشنیوں میں یہ ایک طلسمی عمارت جیسا لگتا تھا۔ میں نے دس سال پہلے کا وقت یاد کیا جب اس محل کے نیلے ایوان سے میں نے باسفورس کے پانیوں کا نظارہ کیا تھا۔ آج باسفورس مجھے اس محل کا منظر دکھا رہی تھی۔
یہ عجیب محل ہے جس میں ہر چیز سلاطین کے زمانے سے اسی طرح ہے۔ کمرے، میزیں، کرسیاں‘ ظروف، پردے، غالیچے، قالین۔ ہر چیز۔ صرف بادشاہ اور درباری اٹھ کر چلے گئے ہیں۔ ٹھہر جانے والی چیز وقت ہے جو گھڑی کی سوئیوں کی صورت ہاتھ جوڑ کر ٹھہر گیا ہے۔ یہ استنبول میں آخری ترک سلطانوں کا محل ''دولما باہچے سرائے‘‘ ہے۔ دولما یعنی بھر کر بنایا گیا، باہچے یعنی باغیچے، سرائے یعنی محل۔ مطلب یہ کہ بھرکر بنایا گیا باغ اور محل۔ جس جگہ اب دولما باہچے سرائے ہے یہ باسفورس میں ایک کھاڑی ہوا کرتی تھی۔ اس جگہ باسفورس کو پاٹ کر خشکی بنائی گئی۔ باغیچے پھیلائے گئے اور محل تعمیر کیا گیا۔ پس یہ بھرکر بنایا گیا باغ اور محل قرار پایا۔
1856 میں تیار ہونے پر یہ محل سب سے بڑا محل تھا لیکن مکمل یورپی طرزِ تعمیر کا نمونہ۔ اسلامی طرزِ تعمیر کی رمق بھی یہاں نظر نہیں آتی۔ شاید وجہ یہ ہوکہ روایتی محل پہلے ہی موجود تھے۔ 11.1 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس محل میں بڑے بڑے درباروں سمیت 285 کمرے، اور46 ایوان تھے۔ ایوان تقاریب، ایوان سفرا، گلابی ایوان، نیلا ایوان، سحری افطاری کے ایوان محض چند نام ہیں۔ ضروری عمارتیں جن میں مسجد، مطبخ عامری یعنی شاہی باورچی خانہ، ملازموں کی رہائشگاہیں، اصطبل، قالین بافی کا شاہی کارخانہ، کلاک ٹاور وغیرہ الگ لیکن اسی محل کے احاطے میں موجود ہیں۔
چودہ ٹن خالص سونے سے محل کی چھتیں مطّلا کی گئیں اور ان کے نقش ونگار پر سونے کے ورق چڑھائے گئے۔ آسٹرین بلور کا دنیا کا سب سے بڑا فانوس ایوان تقاریب میں معلق کیا گیا جس کے ساٹھ بازو ہیں، جس میں سات سو پچاس قمقمے جگمگ کرتے ہیں اورجس کا وزن ساڑھے چارہزار کلوگرام ہے۔ دولما باہچے میں بوہیمین اور فرانسیسی بکاراٹ کرسٹل کے جھاڑ فانوسوں کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ مارمرا سنگ مرمر، مصری سفید سنگ مرمر سمیت نہایت قیمتی پتھر جابجا استعمال کیے گئے۔ محل میں شاہی قالین باف کارخانے کے خالص ریشم کے 206 قالین موجود ہیں۔ خاص چیز روس کے زار کی طرف سے دئیے گئے 150 سالہ ریچھ کی کھال سے بنائے گئے غالیچے ہیں۔ عہد کے ماہر ترین مصوروں کی 202 روغنی تصا ویر بھی محل کی دیواروں کی زینت ہیں۔ محل کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا گیا جس میں گیس کے بلب وغیرہ شامل تھے۔ بعدازاں بجلی اور سنٹرل ہیٹنگ سسٹم بھی شامل کردیا گیا جس سے یورپ کے اکثر محلّات بھی اس وقت تک محروم تھے۔
محل کا جنوبی بازو ''مبایینِ ہمایوں‘‘ بادشاہ، وزرا، افسران کے درباری معاملات کیلئے مخصوص تھا۔ شمالی بازو ''حرمِ ہمایوں‘‘ سلطان، والدہ مادر ملکہ، بیگمات اور کنیزوں کی رہائشگاہ تھا۔ حرم کا راستہ الگ ہے اور مادر ملکہ کے بڑے اپارٹمنٹ سمیت آٹھ بڑے بڑے باہم مربوط اپارٹمنٹ بیگمات اور خادماؤں کی رہائش کیلئے موجود ہیں۔ اس محل میں 1856 تا 1924 آخری چھ ترک سلاطین نے وقت گزارا۔ آخری سلطان عبدالمجید آفندی سے کمال اتاترک نے اقتدار چھینا، خلافت کا سلسلہ ختم کیا اور خود محل میں مقیم ہوگیا۔ ویسے یہ تو سارا محل ہی عبرت سرا ہے لیکن وہ کمرہ جس میں کمال اتاترک نے 10نومبر 1938 کو صبح 9:05 پر آخری سانسیں لیں، خاص طور پر انسان سے زیادہ سنگ و خشت کی پائیداری کا چشم دید گواہ ہے۔
محل مکمل ہوا تواس کی لاگت پچاس لاکھ عثمانی طلائی لیرا تھی یعنی 35ٹن سونے کی قیمت۔ موجودہ دور کے حساب سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالرز۔ یہ رقم کرنسی چھاپ کر، غیرملکی قرضے لے کر، ٹیکس لگا کر اکٹھی کی گئی۔ یورپ کے مردِ بیمار ترکی کی حالت پہلے ہی پتلی تھی۔ اس غیر معمولی اسراف نے اتنے برے اثرات مرتب کیے کہ عثمانی سلطنت اکتوبر 1875 میں دیوالیہ ہوگئی۔ یہ تھا انجام اس تمام شان و شوکت کا‘ اور کون سا تعجب خیز تھا؟
میں چونک کرگزرے زمانے سے اپنے زمانے میں لوٹ آیا۔ محل گزر چکا تھا اور اب دیگر عمارتوں کا تعارف کرایا جارہا تھا۔ ایک عمارت پر سرخ روشنیوں کی چھوٹ پڑ رہی تھی۔ یہ رومیلی حصار تھا۔ وہ قلعہ جو سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کی منصوبہ بندی کرتے وقت یوروپی ساحل پر صرف چھ ماہ کے غیرمعمولی کم وقت میں بنوایا تھا۔ یہ قلعہ اس جگہ بنایا گیا تھا جہاں باسفورس کا پاٹ سب سے کم چوڑا ہے۔ اس کے سامنے بایزید یلدرم کا بنایا ہوا ایشیائی ساحل پر انادولو حصار نامی قلعہ موجود تھا۔ رومیلی حصار کے بن جانے کے بعد باسفورس کی یہ جگہ دونوں طرف سے عثمانی توپوں کی زد میں تھا اور اب قسطنطنیہ کی بازنطینی حکومت کو یوروپی عیسائیوں کی طرف سے مدد‘ جو اسی راستے سے ہوا کرتی تھی، ناممکن ہوگئی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved