تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     03-10-2021

پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کی وجوہات اوراثرات

معیشت گھر کی ہو یا ملک کی ہمیشہ آمدن اور اخراجات کے گرد گھومتی ہے۔ اخراجات آمدن سے بڑھ جائیں تو توازن خراب ہو جاتا ہے۔ جسے متوازن کرنے کے لیے قرض لینا پڑتے ہیں۔ اگر آمدن نہ بڑھے تو قرض بڑھتے رہتے ہیں۔ ایک دن قرض دینے والا گھر یا ملک کا مالک بن جاتا ہے۔ اسے معاشی تباہی کی معراج کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اوسط ہر گھر کے اخراجات اس کی آمدن سے بڑھ چکے ہیں۔ ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح نو فیصد رہی جو کہ 2021ء میں سب سے زیادہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کی اڑان اس مہنگائی کا سبب بنی ہے۔ پٹرول ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا اور ڈالر کی قیمت 172 روپے سے تجاویز کر چکی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت پاکستان‘ بین الاقومی مارکیٹ‘ مافیاز‘ آئی ایم ایف یا کوئی اور۔
اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بات کی جائے تو اس کی ذمہ داری کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں ہونے والے اضافے پر ڈالی جا سکتی ہے۔ اس وقت فی بیرل تیل 80 ڈالر کا مل رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے تیل کی قیمتیں یہاں تک پہنچنے کی وجہ کیا ہے؟ کورونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتیں بند رہیں۔ کاروباری حضرات نے اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔ اب ویکسی نیشن ہونے کے بعد ملک کھل رہے ہیں۔ ان حالات میں ترقی یافتہ ممالک نے مانیٹری پھیلاؤ کی پالیسی اپنائی ہے‘ جن میں امریکہ سر فہرست ہے۔ کاروبار کرنے کیلئے آسان شرائط پر قرض دیے جا رہے ہیں۔ بلکہ کچھ ممالک میں سود کے بغیر قرض دیے جارہے ہیں‘ جس کی وجہ سے صنعتیں لگنے کا رجحان بڑھا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن اس کے برعکس پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوا۔ کوووڈ کے ابتدائی دنوں میں عالمی سطح پر صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی طلب کم ہو گئی تھی۔ مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کیلئے اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار کم کر دی تھی۔ آج دنیا میں تیل کی طلب بڑھ رہی ہے لیکن اوپیک ممالک تیل کی پیداوار بڑھانے پر متفق نہیں ہیں۔ رسد اور طلب کے اس فرق کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ اضافہ ممکنہ طور پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت گر رہی ہے۔ گو کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے لیکن اس کی وجہ پاکستانی کرنسی کی قیمت کا گرنا ہے۔ ڈالر کی قیمت گرنے کے باعث جوبائیڈن انتظامیہ جلد ہی اپنی پالیسی بدل سکتی ہے اور ڈالر کو مضبوط بنانے کیلئے آسان شرائط پر ڈالرز کی فراہمی کو روکا جا سکتا ہے جس سے معاشی پھیلاؤ میں کمی آسکتی ہے۔ کم صنعتیں لگیں گی اور پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں بھی واضح کمی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ معاملہ اتنی جلدی حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟عالمی معیشتوں میں ہونے والے پھیلاؤ اور لانگ ٹرم پالیسیز کے پیش نظر اگلے چند مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لیے 15 اکتوبر کو پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان زیادہ ہے‘ یعنی مہنگائی کا ایک اور سونامی آنے کیلئے تیار کھڑا ہے۔ کیا اس موقع پر حکومت کوئی اقدامات کر کے تیل کی قیمتوں میں کمی لا سکتی ہے یا پھر عوام کی طرح تماشائی بن کر حالات پر تبصرہ ہی کیا جائے گا؟ بظاہر حکومت کوئی مثبت قدم اٹھاتی دکھائی نہیں دیتی حالانکہ سبسڈی دے کر عوام کے کاندھوں سے بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے ٹیکسٹائل سمیت لاتعداد صنعتوں کو سبسڈی دے رکھی ہے اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو سبسڈی دے کر کم کر دیا جائے تو اس سے ملک میں آئے ہوئے مہنگائی کے طوفان کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس کیلئے حکمرانوں کو پہلے عوام کے درد کی شدت کو محسوس کرنا ہو گا۔
پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے جس کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ ڈالر کے کاروبار سے منسلک ملک کے سرکردہ ڈیلرز کا ماننا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ڈالر کو بڑھا رہی ہے تا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا معاہدہ پورا کیا جا سکے۔درآمدات میں ہونے والا اضافہ اتنا بڑا نہیں کہ ڈالر 172 سے اوپر چلا جائے۔ یہ 155 سے 160 تک قائم رہنا چاہیے۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ وزارت ِخزانہ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے مبینہ طور پر جون 2021ء میں آئی ایم ایف سے ستمبرتک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 30 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی لیے بجٹ منظوری کے دوران وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ اب تیل کی قیمتیں بڑھانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ حکومت موبائل فون کال پر ٹیکس نہیں لگا رہی لیکن پٹرول پر ٹیکس لیوی بڑھانا ہو گی۔ یہ اضافہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کیا جانا تھا۔ بدقسمتی سے عالمی مارکیٹ میں قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ ٹیکس لیوی بڑھانے کی بجائے کم کرنا پڑی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنا ہدف کم نہیں کیا ہے۔ اگر حکومت پاکستان پٹرولیم لیوی تیس روپے تک نہیں بڑھاتی تو ممکنہ طور پر ترقیاتی بجٹ کم کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ حکومت نے اس سال ترقیاتی بجٹ کیلئے 21 سو ارب روپے مختص کیے تھے۔ ممکنہ طور پر پانچ سو ارب روپوں کے ترقیاتی منصوبے بند کرنا پڑ سکتے ہیں۔ اگلا سال حکومت کا آخری سال ہے‘ منصوبے بند ہونے سے تحریک انصاف کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔
موجودہ حالات کی بڑی ذمہ داری اس لیے بھی موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ جب کووڈکے ابتدائی دنوں میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آئی تھیںتو اس نے پٹرولیم کمپنیوں سے دیر پا معاہدے کرنے میں تاخیر کی۔ اگر اس وقت ایک مخصوص ریٹ پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں طے کر لی جاتیں تو آج معاشی حالات مختلف ہوتے۔ عمومی طور پر ان حالات میں پانچ سال کے معاہدے کیے جا سکتے تھے۔ اس وقت بھی سابق مشیر برائے پٹرولیم ندیم بابرنے اعلان کیا تھا کہ فلوٹنگ سٹوریج قائم کیے جارہے ہیں‘ بہت جلد سستے تیل کے لمبے معاہدے کر لیے جائیں گے لیکن اس پر صرف باتوں کی حد تک عمل ہوا۔ عملی میدان میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس کی مبینہ وجہ پاکستان میں کام کرنے والا تیل مافیا ہے جو تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو ذاتی فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ مبینہ طور پر جب ندیم بابر نے ان معاہدوں کے حوالے سے زور دیا تو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس میں صرف مافیا کو قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے‘ حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے کیونکہ مافیاز کو قابو کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ عوام میں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ جب حکومت مافیا کو کنٹرول نہ کر سکے تو سمجھ لیجیے کہ حکومت ہی مافیا ہے۔اگر حکومت عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے بارے سنجیدگی سے غور کرے تو کئی راستے نکل سکتے ہیں۔برطانیہ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں مختلف گریڈ کا پٹرول مہیا کیا جاتا ہے جن کی قیمتوں میں واضح فرق ہوتا ہے۔لوگ اپنی حیثیت اور آمدن کے مطابق پٹرول کا انتخاب کرتے ہیں ۔ اگر پاکستان میں بھی یہ آپشن مہیا ہو تو عوام کو ریلیف دینے کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ پاکستان کو مہنگائی کے موجودہ بھنور سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں تا کہ عوام کو یقین ہو سکے کہ ان کا وزیراعظم صرف دعووں اور نعروں تک نہیں بلکہ عملی میدان میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved