ہم زندگی بھر اس خواہش کے اسیر رہتے ہیں کہ قدم قدم پر ہمیں توقیر سے نوازا جائے‘ احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ یہ خواہش کسی بھی درجے میں بُری نہیں مگر سوال یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں بلند ہونے کے لیے جو کچھ ناگزیر ہے وہ ہمارے پاس ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا لازم ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ علمی زندگی ہو یا عملی‘ معاشی سرگرمیاں ہوں یا خانگی امور‘ دوستوں کا حلقہ ہو یا رشتہ داروں کا ... کم و بیش ہر مقام پر سب سے بڑھ کر اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ دوسروں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور اُن کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ آپ سے بہت سی توقعات وابستہ کرتے ہیں اور اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ کو نہ صرف یہ کہ اُن توقعات کا احساس ہو بلکہ آپ اُن پر پورا اترنے میں تساہل کا مظاہرہ بھی نہ کریں۔ کسی بھی معاملے کا پوری دیانت اور غیر جانب داری سے تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اوّل تا آخر اہمیت اسی بات کی ہے کہ آپ اپنے مفادات کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں‘ اُن کے بارے میں اور اُن کے مفادات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اگر آپ میں دوسروں کے مفاد کو اولیت دینے کا شعور اور جذبہ ہے تو یہ بات محسوس کرنے والے آپ کو محترم قرار دینے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ میں دوسروں کے مفادات کو مقدم سمجھنے کے حوالے سے اخلاص کس قدر ہے۔ آپ جس قدر اخلاص سے کام لیں گے لوگوں کی نظر میں اُسی قدر محترم ٹھہریں گے ۔
کیا آپ خوش رہتے ہیں؟ چھوٹی چھوٹی باتوں سے آپ کو خوشی محسوس ہوتی ہے؟ آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان کو بیشتر معاملات میں اور بیشتر مواقع پر خوش ہی رہنا چاہیے؟ کیا آپ اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں جو ہر لمحے سے خوشی کشید کرنا چاہتے ہیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب آپ کی طرف سے اثبات ہی میں ہوگا اور ہونا بھی چاہیے۔ بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو یہ کہے کہ اُسے خوش رہنا پسند نہیں یا یہ کہ وہ خوش رہنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے یعنی یہ کہ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ آپ خوش رہتے ہیں یا نہیں۔ یا یہ کہ آپ کبھی خوش رہنا پسند کریں گے یا نہیں۔ اُنہیں تو اوّل و آخر صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ آپ اُنہیں خوش رکھ سکیں گے یا نہیں۔ لوگ اپنی خوشی چاہتے ہیں۔ آپ بھی یہ چاہتے ہوں گے کہ کوئی آپ کی خوشی کو اہمیت دے۔ ایسا ہر انسان آپ کی نظر میں محترم ٹھہرتا ہے جو اپنے مفاد اور خوشی کو بالائے طاق رکھ کر آپ کی خوشی کو اولین ترجیح دے۔
ہمیں بخشی جانے والی زندگی اس لیے نہیں ہے کہ ہم مرتے دم تک صرف اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی جزیرہ نہیں یعنی الگ تھلگ نہیں۔ ہم سبھی سمندر ہیں‘ معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہیں یعنی دن رات بہت سے لوگوں سے رابطہ رہتا ہے۔ معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کے سلسلے میں ہمیں دوسروں سے اور دوسروں کو ہم سے ملنا اور اشتراکِ عمل کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ ایسے میں ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ ہمارے لیے ہماری خوشی تو مقدم ہے ہی لیکن اگر ہم دوسروں کی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں تو معاملات بہت اچھے رہیں گے اور مطلوب نتائج کے حصول میں معاون ثابت ہوں گے۔
زندگی بسر کرنے کے کئی ڈھنگ ہوسکتے ہیں۔ تھوڑی سی توجہ سے آپ اپنے ماحول میں ایسے لوگوں کو تلاش کرسکتے ہیں جو بیشتر معاملات میں اپنے مفاد کو ہر شے پر مقدم رکھتے ہیں۔ یہ خالص مفاد پرستی اور خود غرضی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ لوگ اُن سے رابطہ ضرور رکھتے ہیں مگر صرف ضرورت کی حد تک۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ جیسے ہی کام پورا ہو اُن سے دوری اختیار کی جائے۔ انتہائی خود غرض قسم کے لوگ اگر کسی ہنر میں یکتا ہوں بھی تو کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنی ذات سے کسی کو فیض یاب نہیں کرتے۔ اُن کی دنیا اپنی ذات اور اپنے مفادات تک محدود ہوتی ہے۔
کیا آپ چاہیں گے کہ لوگ آپ کے بارے میں تنفر آمیز رائے رکھیں‘ آپ سے محض ضرورت کی حد تک ملیں اور کام نکل جانے پر آپ سے کوئی ایک بات کرنا بھی گوارا نہ کریں؟ یقیناً نہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اُسے کسی بھی درجے میں ناپسند کیا جائے۔ حد یہ ہے کہ جو لوگ زندگی بھر دوسروں کو پریشانی سے دوچار کرتے رہتے ہیں اُن کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی بھی اُنہیں ناپسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھے۔ وہ خود بھی اس بات کو سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُس کی بنیاد پر اُنہیں ناپسند ہی کیا جاسکتا ہے مگر پھر بھی لوگوں سے احترام پانے کی خواہش دم نہیں توڑتی۔ یہ بھی بالکل فطری ہے۔ ایسے لوگوں کی تھوڑی سی ذہنی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکیں۔ آج کا پاکستان بھی باقی تمام معاشروں کی طرح رنگ برنگی طبیعت اور متنوع رجحا نات کے حامل افراد سے بھرا پڑا ہے۔ اِس معاشرے میں بُرے لوگ بھی ہیں اور اچھے لوگ بھی کم نہیں۔ جو صرف اپنے لیے جیتے ہیں اُن کی بھی کمی نہیں اور جو دوسروں کی خوشی کا تھوڑا بہت خیال رکھتے ہیں اُن کی تعداد بھی کم نہیں۔ ہاں‘ بعض رویّے پیچیدہ ہوچکے ہیں جس کے باعث معاملات بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ کچھ والدین کا تساہل ہے اور کچھ معاشرے کی ڈھٹائی کہ نئی نسل کو وہ تربیت نہیں مل پاتی جو معیاری اور بارآور زندگی کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ چھوٹی عمر سے سکھایا جائے کہ صرف اپنے لیے نہیں جینا بلکہ دوسروں کا بھی خیال رکھنا ہے تو شخصیت کو متوازن انداز سے پروان چڑھانا آسان ہو جاتا ہے۔ کلیم عثمانی نے خوب کہا ہے ؎
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اِس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
انسان کو اس لیے خلق کیا گیا ہے کہ وہ درد محسوس کرے۔ کس کا درد؟ ظاہر ہے‘ اوروں کا! اپنا درد تو محسوس ہوکر ہی رہتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ انسان دوسروں کا درد محسوس کرتے ہوئے اُن کی پریشانی اور الجھن کا گراف نیچے لانے کی کوشش کرے اور اُن کے لیے خوشیوں کا سامان کرے۔ یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہو جاتا۔ اپنے دکھوں اور غموں کے جھمیلے میں پھنس کر بھی دوسروں کا دکھ محسوس کرنا اور بر وقت مدد کرنے اُن کے لیے مسرّت کا سامان کرنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھا جانا چاہیے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ بہت سے معاملات میں باقی پس ماندہ معاشروں سے بہت اچھا ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی دوسروں کے لیے سوچنے والوں کی کمی نہیں۔ ہاں‘ دوسروں کی مدد کرنے سے متعلق طرزِ فکر و عمل کی نوعیت پر ضرورت بات ہوسکتی ہے۔ بہت سے لوگ دوسروں کی مدد تو بہت کرتے ہیں مگر خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایسا کرتے وقت منصوبہ سازی نہیں کی جاتی اور دانش سے کام نہیں لیا جاتا۔ ہمارے ہاں کسی بھی بحرانی کیفیت میں دوسروں کی مدد کے لیے سامنے آنے والوں کی کمی کبھی نہیں رہی۔ ہاں‘ جس انداز سے دوسروں کی مدد کی جاتی ہے اُس پر سوالیہ نشان ضرور لگا ہوا ہے۔ دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھنے کا معقول طریقہ اپنایا جائے تو مطلوب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ ایسے معاملات میں خلوص کے ساتھ ساتھ خالص جذباتیت کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں۔ مدد بھی کی جائے تو منطقی انداز سے‘ دانش سے کام لیتے ہوئے۔ سوچے سمجھے بغیر کسی کی مدد کی جائے تو اچھے خاصے وسائل خرچ کرنے پر بھی مطلوب نتائج برآمد نہیں ہوتے۔