پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد سے مختلف نظامِ حکومت کا تجربہ کیا ہے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت کسی بھی نظام سے زیادہ عرصے تک کام کرتا رہا‘ تاہم اس نظام میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ 1947-58 میں پارلیمانی نظام کلاسیکی برطانوی ماڈل کے قریب تھا۔ 1973 کے اصل آئین‘ جس نے پارلیمانی نظامِ حکومت کو دوبارہ متعارف کرایا‘ نے وزیراعظم کے عہدے کو مضبوط کیا اور صدر کے صوابدیدی اختیارات کو تقریباً صفر کردیا۔
جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم کے اختیارات میں توازن کے نام پر مارچ 1985 میں صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا۔ صدر کو وزیراعظم کو نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا جبکہ وزیر اعظم کو ایک مقررہ مدت کے اندر قومی اسمبلی سے اعتماد حاصل کرنا ہوتا تھا۔ صدر اپنی صوابدید پر وزیر اعظم کو ہٹا سکتا تھا اور آرٹیکل 58-2-b کے تحت نئے عام انتخابات کا مطالبہ کر سکتا تھا۔ یہ طاقت 1988، 1990، 1993 اور 1996 میں وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے استعمال کی گئی تھی۔ یہ صدارتی اختیار اپریل 1997 میں آئینی ترمیم کے ذریعے واپس لے لیا گیا۔ صدر کو وزیر اعظم کو نامزد کرنے کا جو اختیار حاصل تھا‘ اس کو قومی اسمبلی کے اس حق کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا کہ وہ اپنے قائد یعنی وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔ صدر کی طرف سے وزیراعظم کو ہٹانے کا اختیار جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں بحال کرا لیا۔ یہ اختیار اپریل 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر سے دوبارہ واپس لے لیا گیا۔ فی الحال صدر اپنی صوابدید پر کسی وزیراعظم کو نہیں ہٹا سکتا۔ اگر وزیراعظم قومی اسمبلی کی حاصل حمایت کو برقرار رکھتا ہے تو وہ پورے پانچ سال برسراقتدار رہ سکتا ہے تاہم پاکستان کو وزیر اعظم کو ہٹانے کے ایک اور طریقے کا بھی تجربہ ہے۔ عدالت نے مختلف وجوہ کی بنا پر دو وزرائے اعظم‘ 2012 میں یوسف رضا گیلانی اور 2017 میں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر ہٹا دیا تھا۔
پاکستان میں وقتاً فوقتاً پارلیمانی نظام کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پارلیمانی نظام کے تحت وزیر اعظم پارلیمانی اکثریت کو اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت سے یرغمال بن جاتے ہیں۔ وہ صدارتی نظام کے حق میں ہیں جس میں ایک مقررہ مدت حکومت کے سربراہ کے طور پر ہے۔ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ صدارتی نظام کے تحت صدرِ مملکت پارلیمانی حمایت کھونے کے خوف کے بغیر مشکل فیصلے لے سکتا ہے اور یہ کہ اس نظام کے تحت صدر کو اپنی کابینہ منتخب کرنے کی زیادہ آزادی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے فکرمند کچھ شہریوں نے حال ہی میں صدارتی نظام کے نفاذ پر اعلیٰ عدلیہ کی حمایت حاصل کرنے کی بھی ایک ناکام کوشش کی تھی۔ صدارتی نظام کی حمایت میں مضامین شائع ہوتے ہیں تاہم پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام سے تبدیل کرنے کی تحریک پاکستان میں ایک مقبول سیاسی تحریک نہیں بن سکی۔
پارلیمانی نظام پر شدید ترین تنقید فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمرانہ حکومت نے کی۔ کانسٹی ٹیوشن کمیشن کی رپورٹ (1961) میں بھی پارلیمانی جمہوریت پر تنقید ملتی ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام 1962 کے آئین کے تحت متعارف کرایا گیا۔ یہ ایک مرکز مائل نظامِ حکومت تھا جو ملک کے علاقائی اور نسلی تنوع کو اکاموڈیٹ نہیں کرتا تھا۔ اس سے مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ اجنبیت پیدا ہوئی کیونکہ بنگالیوں نے، جو پاکستان میں اکثریتی آبادی پر مشتمل تھے، خود کو پالیسی سازی سے خارج پایا۔ 1968-69 میں ایوب کے صدارتی نظام کے خلاف بڑے پیمانے پر سیاسی بغاوت ہوئی اور فروری 1969 میں سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی نظامِ حکومت میں واپسی کی حمایت کی۔
پاکستان نے اس طرح دونوں نظاموں کے ساتھ گورننس کے تجربے کئے اور دونوں نظاموں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اگر دوسرے ممالک کے تجربات کو دیکھیں تو ہمیں ملے جلے نتائج ملتے ہیں۔ پارلیمانی نظامِ حکومت کو ہموار اور مستحکم کرنے کی مثالیں موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم اس بارے میں بھی بات کر سکتے ہیں کہ کس طرح اس نظام کے نتیجے میں کچھ ممالک میں عدم استحکام اور سیاسی الجھنیں پیدا ہوئیں۔ صدارتی نظام کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ صدارتی نظام کی ایک اچھی مثال ہے جہاں وقت کے ساتھ صدارتی اختیارات میں اضافہ ہوا، لیکن امریکی ریاستوں کے گورنر کئی معاملات اور کئی ڈومینز پر خود مختاری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ صدارتی نظام نے کچھ دیگر ریاستوں میں بھی مناسب طریقے سے کام کیا‘ تاہم ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں صدارتی نظام شخصی آمریت میں تبدیل ہو گیا یا یک پارٹی ریاست پر منتج ہوا۔ اس کہانی کا اخلاقی پہلو کیا ہے؟ یہ کہ ایک سیاسی نظام سے دوسرے سیاسی نظام کی طرف منتقل ہونا بہتر حکمرانی اور سماجی و معاشی مسائل کے مؤثر حل کی ضمانت نہیں ہے۔ کامیابی اور ناکامی کو کسی خاص نظامِ حکومت سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ کئی عوامل پارلیمانی یا صدارتی نظام کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔
سیاسی نظام کی کامیابی کی اولین ضرورت اس نظام کے بنیادی اصولوں کی پہچان اور تحریری تفصیلات میں ان کا نفاذ ہے۔ دونوں جمہوری نظام ہیں، چنانچہ نہ صدارتی نظام اور نہ ہی پارلیمانی نظام ان سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کے بغیر مؤثر طریقے سے کام کر سکتا ہے جو جمہوری کلچر کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس میں متنوع اور مخالف رائے کے احترام، قانون کی حکمرانی اور مشاورتی عمل کے ذریعے سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے کے علاوہ دوسرے مسائل کا قابل عمل حل ڈھونڈنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ سیاسی نظام کی ایک اخلاقی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ دنیاوی تجربے پر مبنی ہو سکتی ہے یا دنیاوی یا آسمانی نظریے سے ماخوذ۔ علامہ اقبال مغربی جمہوریت پر تنقید کرتے تھے کیونکہ ان کی رائے میں اس میں اخلاقی بنیادوں کا فقدان تھا۔ انہوں نے دلیل دی کہ اسلام نے طاقت اور ریاست کو اخلاقی بنیاد فراہم کی اور دونوں کو انسانیت پر مبنی بنا دیا ہے۔ بہت کچھ سیاسی کھیل کے اہم کھلاڑیوں کے رویے اور مزاج پر منحصر ہوتا ہے۔ اس بات پر کہ وہ کس حد تک ایک ایماندار، بدعنوانی سے پاک قیادت فراہم کر رہے ہیں جو ذاتی اور خاندانی مفاد کیلئے ریاستی عہدوں اور وسائل کو استعمال کرنے کے بجائے معاشرے کے سماجی و معاشی مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ قیادت ہی ہے جو سیاسی نظام بناتی یا توڑتی ہے۔
معاشرتی اخلاقیات بھی سیاسی نظام کی کامیابی یا ناکامی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر معاشرہ اپنے نظریات اور اصولوں کے لیے زبانی وابستگی میں مضبوط ہے لیکن آپریشنل سطح پر ان کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ معاشرہ کبھی منصفانہ اور مستحکم سیاسی اور سماجی نظم حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر کرپشن، دھوکہ دہی، دوسروں کو ذاتی فوائد کیلئے بے وقوف بنانا اور کاروبار اور انسانی معاملات میں بڑے پیمانے پر بے ایمانی کسی معاشرے میں عام ہو جائے تو نہ صدارتی اور نہ پارلیمانی نظام اس کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
سیاسی اور سماجی نظام کی کامیابی کی کلید اخلاقی معیار ہے۔ کیا کوئی معاشرہ ''بنیادی ایمانداری اور منصفانہ کھیل‘‘ کا مظاہرہ کرتا ہے؟ سیاسی نظام کی کامیابی کیلئے سب سے اہم چیز ''ہیومن فائبر‘‘ یا انسانی معیار ہے۔