تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     05-10-2021

بے بسی سے بے حسی تک

سب بے بس ہیں۔ سب سے بڑھ کر صحافت۔
تین سال اس طرح بیتے کہ کوئی تجزیہ درست ثابت ہوا نہ کوئی پیش گوئی پوری ہوئی۔ چڑیا کی خبر سچ ثابت ہوئی نہ کسی مخبر کی۔ تاریخیں دی جاتی رہیں کہ فلاں دن حکومت کا آخری دن ہے۔ کبھی بتایا گیا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ مجھے جیسے بزعمِ خویش دانش ور‘ نام نہاد سماجی علوم کے نظریات بیان کرتے رہے کہ جب یوں ہوتا ہے تو پھر لازماً یوں ہوتا ہے۔ عثمان بزدار صاحب کے جانے کی خبر اتنی بار اڑائی گئی کہ آصف زردای صاحب کے بارے میں کی گئی پیش گوئیاں پس منظر میں چلی گئیں۔
یہ گلستان مگر اُسی طرح آباد ہے۔ جس شاخ پر جو بیٹھا تھا‘ وہ بیٹھا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ کوئی علم ِنجوم یہاں کارآمد ہے نہ کوئی سماجی نظریہ۔ خبر تک رسائی نہ تو کسی چڑیا کو حاصل ہے اور نہ کسی مخبر کو۔ سب تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اب تو بہت سے کالم مدت سے دکھائی نہیں دیے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قلم میں وہ اعتماد ہی باقی نہیں رہا جس پر ناز تھا۔ کچھ مذہبی واقعات لکھ کر اور کوئی سماجی مسائل کو موضوع بنا کر کالم کے لیے جواز تلاش کرتا ہے۔ کوئی سفر کی روداد لکھ رہا ہے اور کوئی ذاتی دکھ سکھ کے بیان سے کالم کا پیٹ بھر رہا ہے۔ تعلقاتِ عامہ کے لیے کالم کا استعمال تو خیر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
صحافت تو ایک طرف‘ سیاست کے پرانے کھلاڑی بھی معلوم ہوتا ہے کہ بے بس ہو گئے۔ نوازشریف صاحب کا خیال تھا کہ لوگ ووٹ کی عزت کے لیے باہر نکلیں گے۔ پتا یہ چلا کہ یہاں روٹی کے لیے کوئی نہیں نکلتا‘ ووٹ کے لیے کیا نکلے گا۔ مولانا فضل الرحمن مذہب کی دہائی دیتے ہیں‘ یہ سوچ کر کہ لوگ کسی اور مسئلے کے لیے اٹھیں نہ اٹھیں‘ اس معاملے میں ضرور اُٹھ کھڑے ہوں گے مگر ان کی آواز بھی اب تک صدابصحرا ثابت ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ تنہا پرواز سے اس کا حسنِ کردار نمایاں ہو کر سامنے آئے گا اور عوام کو متوجہ کرے گا۔ معلوم ہوا کہ عوام اسی طرح لاتعلق ہیں جیسے پہلے تھے۔
کہتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کے دور میں ایک بار آٹا مہنگا ہوا تو عوامی احتجاج سے وہ زلزلہ آیاکہ فیلڈ مارشل کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ بھٹو صاحب کے خلاف سیاسی تحریک چلی تو لوگوں نے مان لیا کہ یہ نظامِ مصطفیٰ کے لیے ہے اور بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ یہ ہوا ہوگا مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی آٹے کی قیمت بڑھنے سے مائل بہ احتجاج ہوتا ہے اور نہ کوئی مذہبی نعرہ کسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ صحافت بے بس‘ سیاست بے ثمر‘ سماج بے حس۔ علم حیران اور تاریخ پریشان۔ ایسا دور‘ کیا پہلے بھی کبھی آیا ہوگا؟
اقوام پر ایسا دور آتا ہے جب اجتماعی آدرش نہ رہے اور مایوسی خیمہ گاڑ لے۔ جب ہر کام لاحاصل دکھائی دے۔ کسی کے سامنے کوئی منزل نہ ہو اور ہر کوئی یہ خیال کرے کہ صبح سے شام کرنا ہی زندگی ہے اور اسی کے اسباب تلاش کر تا رہے۔ معاشی بد حالی اس کا ایک سبب ہو سکتی ہے لیکن واحد سبب نہیں۔ بے ثمر سیاست بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن واحد وجہ نہیں۔ 1937ء میں جب کانگرس کی وزارتیں بنیں تو مسلمان شدید مایوس ہوگئے۔ ان کے پاس لیکن ایک آدرش موجود تھا۔ قیادت تھی۔ وہ اس سے نکل آئے۔ تین سال میں منظر بدل گیا اورپھران کا قافلہ ایک نئی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
قافلہ جب چل پڑے تو سب کی صلاحیتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ تحریکِ پاکستان میں بھی یہی ہوا۔ ادب‘ صحافت اور سیاست کے میدانوں میں ایسے ایسے شاہسوار سامنے آئے کہ ان کی مہارت کی داستانیں آج بھی بچوں کو سنائی جاتی ہیں۔ ظفر علی خان اور شورش کاشمیری اسی دور کی یادگار ہیں اور دیکھیے کہ ظفر علی خان نے اس رشتے کو کیسے بیان کیا:
شورش سے میرا رشتہ ہے وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں وہ ثانیٔ سہراب
آج کوئی رستم ہے اور نہ سہراب۔ یہ دونوں پیدا کیسے ہوں کہ کوئی میدانِ کارزار ہی نہیں۔ میدان لگتا ہے تو شاہسوار نکلتے ہیں۔ آج دنیا کے مقابلے میں ہماری ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔ اس کانتیجہ فکری خلفشار ہے۔ مذہب تعمیرِ اخلاق کا موضوع ہے۔ ہم نے اسے عصبیت بنا دیا اور یوں احتجاج کا عنوان۔ سیاست اداروں کی مضبوطی کا نام تھا‘ ہم نے اداروں کو استحکامِ اقتدار کے لیے ایک آلہ بنا دیا۔ خانقاہ تربیت کا مرکز تھی‘ ہم نے اسی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ مدرسہ اسلامی علوم کے ماہرین کی تیاری کے لیے قائم ہوا‘ ہم نے اسے گروہی مفاد کاایک ادارہ بنا دیا۔ صحافت تعبیرِ ملک کے لیے تھی‘ ہم نے اسے شخصی مفادات کے تابع کرتے ہوئے کاروبار اور تعلقاتِ عامہ کا ہتھیار بنا دیا۔
زندگی ایک وحدت ہے۔ سماج اسی وقت آگے کی طرف بڑھتا ہے جب اس کے تمام ادارے ایک وحدت کا حصہ بن کر اپنا کام کریں‘ جیسے پرزے مشین کو ایک وحدت میں بدلتے ہیں تو اسے مفید آلہ بنا دیتے ہیں۔ اہلِ مذہب‘ سیاستدانوں اور صحافیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا اصل کام کیا ہے۔ اسی وقت سماج آگے بڑھ سکے گا ورنہ یہ کج روی باقی رہے گی۔ یہ بے سمت سفر کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
سمت کا تعین اورسماج کے اداروں کا ایک سمت میں متحرک ہونا جس وحدتِ فکر کو لازم قرار دیتا ہے‘ وہ ایک صبرآزما کام ہے۔ حبِ عاجلہ انسان کی فطرت ہے۔ وہ تادیر انتظار نہیں کر سکتا۔ یوں وقت سے پہلے نتائج کی خواہش اسے عجلت پر ابھارتی ہے۔ پھر یہ کہ سمت کی درستی ایک فکری و علمی کاوش ہے۔ گویا اس کے لیے اہل علم و نظر کا ہونا ضروری ہے۔
اس کے لیے پہلا قدم حبِ عاجلہ سے نجات ہے۔ اس کاسادہ مطلب سیاست و صحافت کو پاپولزم سے پاک کرنا ہے۔ مقبول ہونے کی خواہش نے سیاست اور صحافت‘ دونوں کو پست کردیا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ سطحی اور سیاسی موضوعات پرلکھا جائے تو غلغلہ برپا ہو جاتا ہے۔ ایک عالم تماشا دیکھنے کو جمع ہو جاتا ہے۔ سنجیدہ موضوع پر لکھا گیا کالم تبصرہ نگاروں کے انتظار میں طاقِ نسیاں تک جا پہنچتا ہے۔ اب لکھنے والا کیا کرے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو اس پل صراط سے گزر گیا‘ وہ تاریخ میں زندہ رہ گیا۔ یہ الگ بات کہ اس کا عہد اس سے بے خبر رہتا ہے‘ الا یہ کہ غیب سے کوئی تائید میسر آ جائے۔
تاریخ کا عمل بہرحال شخصی مطالبات سے بے نیاز آگے بڑھتا ہے۔ تاریخ کا فرمان تو یہی ہے کہ وحدتِ فکر کے بغیر عمل کی یکسوئی نہیں آتی۔ وحدتِ فکر سے مرادقوم کو روبوٹ بنانا نہیں ہوتا۔یہ اس بات پر اتفاق کا نام ہے کہ قوموں کو آگے بڑھنے کے لیے ایک آدرش چاہیے۔ ہر شخص کو وہ ماحول چاہیے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر اظہار کر سکے۔ اس ماحول کی ضرورت پر اتفاق ہی وحدتِ فکر ہے۔ جمہوریت پر وحدتِ فکر کا مطلب ہے‘ عوام کی رائے فیصلہ کن ہونا۔ اس کا مفہوم یک جماعتی آمریت نہیں۔ ایسی وحدتِ فکر تو موت کا دوسرا نام ہے۔
اس وقت ہمارا دامن ان سوچوں سے خالی ہے۔ چار سو خاک اُڑتی ہے۔ نہ زندگی‘ نہ محبت‘ نہ معرفت‘ نہ نگاہ۔ سب بے بس ہیں اور سب سے زیادہ صحافت۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved