تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     05-10-2021

صالح نوجوان فخرِ انسانیت ہیں!

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری
وقتِ پیری گرگِ ظالم مے شود پرہیز گار
دنیا میں ہمیشہ حق و باطل کا معرکہ برپا رہا ہے۔ حق کی پکار پر لبیک کہنے والوں میں ہر دور میں نوجوان سرفہرست رہے ہیں۔ سرورِ دو جہاں سیدنا محمد ﷺ اور حضرت موسیٰؑ علیہ السلام پر شروع میں نوجوان ہی ایمان لائے۔ ان کی اکثریت بیس سال سے کم عمر تھی۔ حضرت علیؓ تو صرف دس بارہ سال کے تھے۔ ان کے علاوہ حضرت جعفر‘حضرت سعد بن ابی وقاص‘حضرت طلحہ‘حضرت زبیر بن العوام ‘حضرت مصعب ابن عمیر‘حضرت ارقم بن ارقم اور عبدﷲ بن مسعودرضی اللہ عنھم کی عمریں بیس سال سے کم تھیں۔ حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح‘ زید بن حارثہ‘ عثمان بن عفان‘ عمر بن خطاب اور زید بن خطاب رضی اللہ عنھم 30اور 35 سال کے درمیان تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی عمر قبولِ اسلام کے وقت 37 سال تھی۔ صحابہ وصحابیات میں صرف چار افراد عمر میں آپ سے بڑے تھے۔
(1) حضرت خدیجہ رضی ﷲ عنہا (ام المومنین)
(2) حضرت سمیّہ رضی ﷲ عنہا‘ اسلام کی پہلی شہیدہ (حضرت سمیّہ رضی ﷲ عنہا حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں اور قبولِ اسلام کی پاداش میں ان کو مکہ میں بڑی اذیتیں دی گئیں۔ انہیں ابوجہل نے نیزہ مار کر شہید کر دیا تھا۔ یہ سب سے پہلا جام ِشہادت تھا جو ایک خاتون کے حصہ میں آیا۔رضی اللہ عنہا و رضت عنہ۔
(3) آپؐ کے چچازاد بھائی شہیدِبدر حضرت عبیدہ بن حارث مطلبیؓ‘
(4) حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسرؓ جبکہ حضرت عمارؓ آپ کے ہم عمر تھے۔ یہی ابتدائی دور میں پرچم ِ اسلام کو تھامنے والے اور مکہ مکرمہ کی سرزمینِ کفر میں حق کا پیغام سنانے والے مجاہدین تھے۔
ہمارے دور میں یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ نوجوان طبقہ ایک اچھی خاصی تعداد میں اسلامی انقلاب کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ مخلص اور داعیانِ حق اپنے میدان میں بلاشبہ کامیاب وکامران بھی ہیں۔ خدا کرے کہ ہمہ گیر اسلامی انقلاب کے لیے ان کی کاوشیں بامراد ثابت ہوں۔
حضرت موسیٰؑ نے جن حالات میں نعرۂ حق بلند کیا تھا وہ بڑے ہی حوصلہ آزما اور کٹھن تھے۔ ملک میں ایسی آمریت قائم تھی کہ آمر نے اپنے آپ کو ''اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی‘‘ کے روپ میں قوم وملک پر مسلط کر رکھا تھا۔ ایسے حالات میں ایک شخص جس کا تعلق غلام قوم سے ہے‘ اٹھتا ہے اور صرف ایک ساتھی کی معیت میں اس طاغوت اور اس کے نظام باطل کو چیلنج کر دیتا ہے۔ وہ کھلم کھلا اعلان ِبغاوت کر دیتا ہے اور بھرے دربار میں علی الاعلان کہتا ہے: ''میرا ربّ وہی ہے جو زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا ربّ ہے۔‘‘
یہ اعلان کرنا اپنے ساتھ جو کچھ آزمائشیں لایا‘ وہ ہر اس شخص کے ذہن میں فوراً آ جاتی ہیں جس نے دنیا کی تاریخ ِآمریت کا مطالعہ کیا ہو۔ ابتلا وامتحان کی اس چکی میں پسنے کے لیے بہت کم لوگ اپنے آپ کو آمادہ کر سکتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ پر بڑے بزرگوں اور عمر رسیدہ لوگوں نے ایمان لانے سے گریز کیا۔ نوجوان نسل بہرحال میدان میں نکل آئی اور حضرت موسیٰؑ کے ساتھ عہدِ وفا باندھا۔ دنیا میں اسلامی انقلاب کے لیے ہمیشہ نوجوانوں اور کم عمر لوگوں نے ہی اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی انقلابی دعوت پر ان کی بیوی حضرت سارہ کے علاوہ ان کے بھتیجے حضرت لوطؑ ہی نے لبیک کہی تھی اور وہ اس موقع پر ایک نوخیز جوان تھے۔
اصحابِ کہف بھی نوجوان لوگ ہی تھے۔ جب پوری قوم دینِ حق سے منہ موڑ کر بادشاہ کی اتباع میں مبتلائے کفر ہوئی تو ان نوجوانوں کو اپنے دین وایمان کی فکر لاحق ہوئی۔ انہوں نے جائزہ لیا کہ آیا وہ قوم کے اندر رہ کر اصلاح ِاحوال کی کوشش کریں تو یہ بار آور ثابت ہو گی۔ تجربہ نے بتایا کہ نہیں اس کا کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو گا۔ الٹا قوم کے برے اثرات اور مسموم فضا میں اپنا دامن آلودہ کرنے کا خطرہ موجود ہے۔ ان لوگوں نے گھر بار چھوڑے اور کہا کہ قوم جس رنگ میں رنگ چکی ہے اس میں رنگ جانا تو ظلم ہو گا۔ آؤ غاروں میں جا کر دین کی حفاظت کریں۔ کیا شان ہے ان نوجوانوں کی کہ جنہیں سب سے زیادہ فکر ہے تو اپنے دین کی۔
حضرت موسیٰؑ پر ایمان لانے والے نوجوانوں پر جب مشکلات نازل ہوئیں تو قوم کے بڑے بوڑھے سخت پریشان تھے۔ انہوں نے خود تو پیغامِ حق کو قبول نہیں کیا تھا مگر ان نوجوانوں کا فیصلہ بھی ان ''دیدہ وروں‘‘ کے نزدیک ''جذباتی اور غیرمعقول‘‘ تھا۔ انہیں حق کا ساتھ نہ دینے کے باوجود ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ مرے کہ مرے۔ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام سے یہاں تک کہہ دیا ''تمہاری اور ہماری مثال ایسی ہے کہ جیسے بھیڑیا بکری پرحملہ کر دے اور چرواہا اسے چھڑانے کی کوشش کرے۔ دونوں کی کھینچا تانی میں بکری کے پرخچے اُڑ جائیں۔‘‘
حضرت موسیٰؑ کو اب دلچسپی تھی تو ان قیمتی نوجوانوں سے جنہوں نے ''ہرچہ بادا باد‘‘ کہہ کر آپ کا ساتھ دینے کا عزم باندھ لیا تھا۔ آپ ان نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: ''تم ﷲ پر ایمان لائے ہو تو اب ہر مشکل وقت میں اسی پر توکل اور بھروسہ کرو۔‘‘ انہوں نے جواب میں کہا: ''ہم نے ﷲ پر ہی بھروسہ کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے
دعا مانگی۔‘‘ دعا کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔ کافر اور ظالم قوم سے سابقہ درپیش تھا‘ اس کی چیرہ دستیوں کے مقابلے پر ﷲ کی مدد مانگی گئی ہے۔ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo (یونس‘ آیت 85-86)
''اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات بخش۔‘‘
تاہم دعا میں یہ الفاظ کہ ''ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘ بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔ ان کے معانی سمجھنے کے لیے ہم عظیم مفسر اور واقفِ رموزِ معانیٔ قرآن مرشد مودودی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: (تفہیم القرآن‘ جلد دوم‘ حاشیہ 83)
''ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ ''ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔‘‘ بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ وتسلط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیامِ حق کے لیے اٹھتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل کے اصلی علم بردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے ان داعیانِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتاہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلہ میں اقامت ِحق کی سعی کو غیرواجب‘ لاحاصل یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے‘ کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو اُلٹا برسرِ باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اس خلش کو مٹائے جو ان کی دعوتِ اقامتِ دینِ حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ تیسری طرف عامتہ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخرکار اسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے جس کاپلہ بھاری رہے‘ خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔ اس صورتِ حال میں ان داعیانِ حق کی ہرناکامی‘ ہر مصیبت‘ ہر غلطی‘ ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا‘ نہ کہ ان بیوقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہو گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہو گا اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلف ہی کب کیا تھا۔اسی طرح اگر اہلِ حق اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں یا مصائب ومشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں یا ان سے‘ بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے‘ تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدت ہائے دراز تک کسی دوسری دعوتِ حق کے اٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ (تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ۳۰۶‘ ۳۰۷)
واقعتاً یہ بڑی معنی خیز دعا تھی جو موسیٰؑ کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ بن کر نہ رہ جائیں۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے‘ خامیوں سے‘ کمزوری سے بچا اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کر دے تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب ِخبر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔ آج بھی اس دورِ پر فتن میں غلبۂ حق کے لیے کام کرنے والوں کو اس دعا کا باقاعدگی سے ورد کرنا چاہیے۔ نیز اس کے حقیقی مفہوم اور پس منظر کو بھی ہر لمحے ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ صالح نوجوانوں کو رسول رحمتؐ کی خوش خبری مبارک ہو کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں جگہ پائیں گے جب کوئی اور سایہ نہیں ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved