بائیس مارچ2012ء کو لاہور سے لندن گیاتو کراچی سے آئے عمر شریف سے ملاقات ہوئی۔ لندن کے ایک پر رونق ہال میں پاکستانیوں کے ایک پروگرام میں مجھے بھی ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا‘ مرحوم واجد شمس الحسن اُس وقت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے‘ ہال کی اگلی نشستوں پر مجھے ان کے ساتھ جگہ دی گئی جو میرے لئے ایک اعزاز کی بات تھی۔ مائیک اورسٹیج جب عمر شریف کے حوالے کیا گیا تو خواتین و حضرات سے بھرا ہوا ہال تالیوں اور سیٹیوں کی پر شور آوازوں سے گونجنے لگا جسے عمر شریف نے دو تین منٹ کی ابتدائی باتوں سے پر سکون کیا۔ ایک گھنٹے تک عمر شریف نے ہنسی مزاح اور جگتوں کا وہ سماں باندھا کہ پورا ہال قہقہوں اور تالیوں سے بار بار گونجتا رہا۔ رات دس بجے کے قریب یہ پروگرام ختم ہوا ہائی ٹی کے بعد مہمان جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے لیکن ہال کی بکنگ کا مسئلہ تھا اس لئے ہم سب کو مجبوراًہال سے باہر نکلنا پڑا لیکن باہر سڑک پر ایک ہجوم نے عمر شریف کو گھیرے میں لے لیا اب ہر ایک کی خواہش تھی کہ عمر شریف ان کے ساتھ ان کے گھر چلیں جہاں ان کیلئے کھانے اور آرام کا بہترین موقع میسر ہو گا لیکن مجبوری یہ تھی کہ عمر شریف لیڈز میں اپنی بہن کے گھر جانا چاہ رہے تھے جس کا ان سے پاکستان سے چلتے ہوئے و عدہ کر چکے تھے۔ ادھر ان کی بہن کے فون آ رہے تھے اور ادھر فرمائشیں بڑھنے لگیں۔ بڑی مشکل سے وہ ایک پاکستانی ریسٹورنٹ تک جانے پر رضامند کئے گئے اور ہم سب لندن کے ایک مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ پہنچ گئے جہاں بہترین کھانا اور ماحول ہم سب کو ایک مرتبہ پھر پاکستان لے آیا۔ وہاں پر ان کے ساتھ تصویریں بنانے والوں کی ایک لمبی قطار لگ گئی ۔اسی رش میں ایک معمر شخص ہماری میز پر آیا اور یہ کہہ کر مجھے اور عمر شریف کو پچاس پچاس پاؤنڈ کا ایک ایک نوٹ دیتے ہوئے تاکید کر گئے کہ اس وقت توآپ نے کھانا کھا لیا ہے کل آپ نے کھانا میری طر ف سے کھانا ہے۔ بہت ہی اصررا پر میں نے اور عمر شریف مرحوم نے ان سے پچاس پاؤنڈ لے کر اپنی جیب میں رکھ لیے۔ یہاں سے ہم کوئی بارہ بجے فارغ ہوئے لیکن لوگ تھے کہ ان سے سڑک کے کنارے ہی پاکستان کے حالات اور ان سے مزاح اور جملے بازی کا شوق پورا کرنے کیلئے جانے کو تیار ہی نہیں ہو رہے تھے۔ میں اس وقت ایجوئر میں بر لب سڑک واقع پریمیئر ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا ۔ایک فیملی بضد ہو گئی کہ آپ کافی ہماری طرف سے پی کر لیڈز جایئے گا جس پر ان کی یہ دعوت قبول کرنا پڑی۔ غرض ہم کوئی ایک بجے لندن سے بذریعہ کار لیڈز کیلئے روانہ ہوئے اب گاڑی میں عمر شریف مرحوم اور راقم پچھلی نشست پر جبکہ ہمارا میزبان ڈرائیونگ سیٹ پر اور ان کا دوست آگے بیٹھ گیا۔ لندن سے لیڈز تک عمر شریف کے ساتھ رات ڈھائی بجے تک کا سفر زندگی کے چند یاد گاروں سفروں کے طور پر مجھے کبھی بھی نہیں بھولا۔ اس دوگھنٹے کے سفر میں جہاں ایک قسم کی ذاتی سی محفل کا سماں بن گیا عمر شریف نے اپنے فن کے کمالات کے ان پوشیدہ گوشوں سے ہنسا ہنسا کر برا حال کر دیا کہ بیلٹ باندھنے کے باوجود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ڈرائیور دوست کے ہاتھ ڈگمگا نا شروع ہو جاتے‘ جس پر عمر شریف گھبرا کر ایک لمحے کیلئے ایسے خاموش ہوتے لگتا کہ وہ گاڑی میں ہی نہیں ہیں۔
عمر شریف باربار وہ پچاس پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر ایسے دیکھتے جیسے کوئی بچہ کھلونے کو دیکھتا ہے مجھے کہنے لگے :بلوچ بھائی کیا آپ اپنا نوٹ مجھ سے تبدیل کر سکتے ہیں؟ ان کے دوست نے ان سے پچاس پاؤنڈ کا نوٹ لینے کے بعد اصرارکیا کہ عمر شریف بھائی آپ ہم سے اپنا نوٹ تبدیل کر لیں اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کیونکہ پچاس کے نوٹ سبھی ایک جیسے ہی تھے ۔ جب ان سے بار بار پوچھا گیا کہ آپ اپنا نوٹ کیوں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے جواب نے اس قدر قہقہے بکھیرے کہ ہم سب ہنس ہنس کر پیٹ پکڑے دہرے ہوتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ ان کے پاس جو نوٹ ہے اس کی تصویر میں ملکہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے ان کی پریشانی کی وجہ سے ساری رات نیند ہی نہ آئے ۔ پھر انہوں نے دنیا بھر کے کرنسی نوٹوں پر وہ فقرے اور کہانیاں سنائیں کہ لگتا تھا کہ پسلیاں ٹوٹ جائیں گی۔بھارتی کرنسی نوٹ پر گاندھی جی کے پکڑے ہوئے ڈنڈے اور پاکستانی کرنسی پر قائد اعظم کی تصویر پر ان کا تجزیہ اور تبصرہ تو دنیا ٹی وی کے پروگرام'' حسب حال‘‘ کے سپیشل عید شو میں انہوں نے سہیل احمد کے کہنے پر خود بیان کیا تھا۔ لیکن امریکی ڈالر پر جارج واشنگٹن کی تصویر کے متعلق کہنے لگے کہ اگر اس تصویر کی آنکھوں کی طرف دیکھیں تو لگتا ہے کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں نوٹ پکڑنے والے شخص کو ڈرایا جا تا ہے کہ تم نے یہ ڈالر ہم سے لے تو لیا ہے ا ب اگر تم نے اسے فوری طور پر خرچ نہ کیا تو دیکھنا تم سے ہم کس طرح واپس لیتے ہیں۔عمر شریف کا نوٹ ان کے دوست نے جیب میں رکھ لیا مگردوسرا نوٹ انہیں دینا شاید یاد نہ رہا۔جس پر عمر شریف میرے کان میں کہنے لگے دیکھنا یہ میں کیسے واپس لیتا ہوں۔ لیڈز تک دورانِ سفر مختلف اوقات میں اپنی اور فن کاروں کی شادیوں اور کچھ دوسرے معاملات پر وہ واقعات سنائے کہ ہم حیران رہ جاتے کہ ان کے ان دوستوں کی طرف سے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی لفظ باہر نہیں آیا اس لئے یہ ان کی امانت ہے جوہمارے دلوں میں رہے گی۔ جیسے ہی ہم ہنستے اور قہقہے لگاتے ہوئے لیڈز شہر میں داخل ہوئے تو رات کے ڈھائی بج چکے تھے اور ان کی بہن ان کی راہ دیکھتے جاگ رہی تھیں لیکن ہمارے میزبان دوست کو نہ جانے کیا سوجھی اس نے جان بوجھ کرلمبا راستہ لیا اور بجائے شارٹ کٹ کے وہ رات گئے ہمیں لیڈز کی ایک ایک سڑک پر گھمانے لگے‘ وجہ صرف عمر شریف کی محفل کو طول دینا تھا۔ عمر شریف بار بار کہہ رہے تھے کہ فیاض بھائی یہ وہ رستہ نہیں ہے‘ لگتا ہے آپ میرے ساتھ شرارت کر رہے ہیں یار میری بہن کا بار بار فون آ رہا ہے انہیں تنگ نہ کریں۔ جب عمر شریف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو وہ بھی شرارت کے موڈ میں آ گئے۔ میں ان کے ساتھ پیچھے بیٹھا ہوا تھا انہوں نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے اپنے فون سے کچھ نمبر ملائے اور اونچی آواز میں کہنے لگے ''یس پولیس ‘مجھے لگتا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور مجھے کہیں اغوا کر کے لے جا رہا ہم فلاں رنگ اور ماڈل کی گاڑی میں ہیں پلیز میری مدد کیجئے‘‘۔ اتنا سننا تھا کہ ان کے میزبان کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اس نے فوری طور پر گاڑی سائیڈپرروک دی اورعمر شریف کی منتیں شروع کر دیں کہ بھائی آپ تو ہمیں مروا دیں گے۔ اب اتفاق دیکھئے کہ نہ جانے کہاں سے ایک پولیس گاڑی ہوٹر بجاتے ہوئے ہماری طرف آنا شروع ہو گئی یہ دیکھتے ہی وو دوست روتے ہوئے عمرشریف کی منتیں کرنا شروع ہو گیا کہ بھائی مجھے معاف کر دیں‘ ایسا نہ کریں ‘لیکن ہوا یہ کہ وہ پولیس گاڑی ہمارے پاس آ کر رکی اور اس میں مسلح کانسٹیبل اتر کر ہمارے پاس آیا اور صرف اتنا پوچھا: کوئی مسئلہ تو نہیں ہے‘ جس پر ہمارے میزبان نے روتی ہوئی شکل بنا کر عمر شریف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :کوئی مسئلہ نہیں ہم نے اپنے مہمان کو ڈراپ کرنا ہے صرف راستہ بھول گئے تھے جس پر انہوں نے اسے مطلوبہ ایڈریس سمجھا یا ۔ ان کے جاتے ہی جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی اور عمر شریف مرحوم کوان کی بہن کے گھر کے باہر اتارا جہاں وہ لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ میزبان نے عمر شریف کے پائوں چھوتے ہوئے پھر سے معافی مانگی اوراتناپوچھا: بھائی آپ نے فون کس کو کیا تھا؟عمر شریف جو کافی عرصے سے چپ تھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہنے لگے: پچاس پاؤنڈ لگیں گے اس نے جلد سے پچا س پاؤنڈ کا نوٹ ان کے ہاتھ پررکھ دیا تو عمر شریف بولے '' پچاس پاؤنڈ کو کیا تھا‘‘۔