تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     06-10-2021

مانچسٹر ، بارش اور میں

اس دن بھی مانچسٹر کاموسم ابرآلودتھا۔ صبح سے ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھیں تو شیشے کی دیوار کے اُس طرف آکسفورڈ سٹریٹ نظر آتی تھی۔ ان دنوں میں مانچسٹر یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات میں ایم اے کر رہا تھا اور اکثر اس کیفے ٹیریا میں چائے پینے آتا تھا۔ چائے تو ایک بہانہ تھی یہاں بیٹھ کر شیشے کی دیوار کے اُس پار بارش میں بھیگتی آکسفورڈ سٹریٹ میں رنگ برنگی چھتریوں کو دیکھنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اس روز ہماری کلاس چار بجے ختم ہوئی تھی اور میں ہاسٹل کے بجائے یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں آ گیا تھا۔ انسان جب بہت اکیلا ہوتو اکیلا نہیں رہتا ۔ یادوں کے جلتے بجھتے منظر اسکے ہمراہ ہوتے ہیں۔ چائے پیتے ہوئے مجھے اپنے شہرکا ریستوران یادآگیا جہاں سرشام دوستوں کی منڈلی جمتی تھی۔ اب وہ شہر وہ ریستوران وہ دوست، سب خواب خیال ہوچکے تھے۔ میں چائے پیتے ہوئے گلاس وال کے دوسری طرف بارش میں بھیگتی آکسفورڈ سٹریٹ میں لوگوں کی آمدورفت دیکھتا رہا۔ کیفے ٹیریا کے درجہ حرارت کی وجہ سے گلاس وال پربھاپ نے چیزوں کودھندلا دیاتھا۔ میں سوچ رہا تھا‘ یہاں سے اٹھ کر ہاسٹل جائوں یا پروفیسر راج کے گھر۔ ابھی فیصلہ نہیں کرپایا تھاکہ اچانک دیکھا‘ کافی اور چپس لے کر وہ پاس کی ایک میزپر آکر بیٹھ گئی۔ کاروبارِ زندگی میںکبھی کبھار یونہی اچانک ہمارا آمناسامنا کسی ایسے شخص سے ہوجاتا ہے کہ یوں لگتا ہے اس سے شناسائی بہت پرانی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس نے اپنا رین کوٹ اتارکر کرسی کی پشت پرڈالا اور کافی پینے لگی۔ میں نے گھڑی دیکھی‘ مجھے یہاں بیٹھے آدھ گھنٹہ ہوگیا تھا اورکمرے میں جاکر تھیسز پرکام بھی کرناتھا۔ اچانک اس نے کرسی سے لٹکاہوا بیگ اتارا اوراس میں سے ایک کتاب نکالی۔ کتاب کے سرورق کی ایک جھلک سے مجھے پتہ چلاکہ کتاب مہاتمابدھ کی تعلیمات پرہے۔ اس نے بالوں کو پیشانی سے ہٹایا اورکتاب پڑھنے لگی۔ میراجی چاہاکہ اس کے پاس جائوں اور اسے بتائوں کی میرا تھیسز بھی مذاہب کے تقابلی جائزے پرہے‘ لیکن وہ کتاب میں اس قدر محوتھی کہ اسے ڈسٹرب کرنا مجھے اچھا نہ لگا۔ اسے دیکھ کر مجھے ٹیکسلا کے قریب جولیاں کے کھنڈرات میں مہاتما بدھ کاآلتی پالتی مارے وہ مجسمہ یادآگیا جس کے چہرے پرشانتی اورسکون تھا۔ زمانے کی گردنے سب کچھ دھندلادیا۔ مجسمے میں بھی ٹوٹ پھوٹ ہوئی لیکن شانتی بھری مسکراہٹ باقی رہی۔ وہ کافی پیتی ہوئی لڑکی بھی ایسی ہی تھی خاموش پرسکون اور شانت۔
اس دن ہاسٹل آکر میں نے کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹایا۔ باہر وہی بارش میں بھیگتی آکسفورڈ روڈ تھی۔ میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا اور ہاسٹل کی پانچویں منزل سے سڑک پرآتے جاتے لوگوں کودیکھتا رہا۔ پھرپردے برابر کئے اورکرسی پرآبیٹھا۔ کہنیاں میز پر ٹکا کرآنکھیں بندکرلیں۔ ایک گمشدہ منظریادوں کے افق سے ابھرنے لگا‘ جب میں ایک گروپ کے ہمراہ ٹیکسلا کے قریب جولیاں کی تاریخ درسگاہ کے کھنڈرات میں گھوم رہا تھا۔ بوڑھا گائیڈ ہمیں یہاں کی تاریخ کے بارے میں بتارہا تھا۔ یہ دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی ہے جو بدھ تعلیمات کیلئے قائم کی گئی۔گائیڈ نے جولیاں کے کھنڈرات کی طرف جاتے ہوئے کہا: اس سارے خرابے کے وسط میں مہاتما کامجسمہ ہے جس کے اطراف چھوٹے چھوٹے کمرے جہاں بدھ مت کے طالبعلم بیٹھ کر گیان کی منزلیں طے کیا کرتے تھے۔ یہ گیان کیا ہوتا ہے بابا؟ میں نے بوڑھے گائیڈ کوکریدا۔ ''گیان توجہ کے ارتکاز کانام ہے جس کی منزل شانتی ہے‘‘ گائیڈ بولا۔ کھنڈرات میں‘ میں چڑھائی پر چلتے چلتے ہانپنے لگا تھا‘ پائوں تھکن سے شل ہورہے تھے۔ کتنا لمبا سفر ہے شانتی کا؟ میں نے گائیڈ سے پوچھا ''کبھی ایک قدم اور کبھی پوری زندگانی‘‘ گائیڈ مسلسل چلتے ہوئے بولا ''شانتی کبھی ساری عمرکی جستجو سے ہاتھ نہیں آتی اورکبھی اچانک مل جاتی ہے۔ یونہی، بیٹھے بٹھائے، خودبخود‘‘۔
پھر بہت دن گزر گئے‘ مجھے وہ نظرنہ آئی۔ ایک دن میں ڈیپارٹمنٹ آف فلاسفی گیا۔ دراصل مجھے ایک سیمینار کے سلسلے میں کچھ مواد چاہیے تھا۔ وہاں کی لائبریرین کو میں اپنے سیمینار کا موضوع بتاہی رہاتھا کہ مجھے وہ شانت لڑکی نظر آئی۔ وہ لائبریری کی میزپر بیٹھی کسی کتاب سے نوٹس لے رہی تھی۔ میراجی چاہاکہ اس کے پاس جائوں اوراس سے بہت ساری باتیں کروں‘ اسے بتائوں کہ جولیاں کے کھنڈرات کے وسط میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی شانت مسکراہٹ اس سے کتنی ملتی جلتی ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ وہ اپنی میز سے اٹھی نوٹس تہہ کرکے اپنے بیگ میں رکھے اورآہستہ آہستہ قدم اٹھاتی لائبریری سے باہر چلی گئی۔ میں بھی لائبریری سے باہر نکل آیا۔ وہ کیفے ٹیریا کی طرف جارہی تھی۔ کیفے ٹیریا میں بہت بھیڑ تھی لیکن میری نگاہوں نے اسے ڈھونڈ لیا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھی کھڑکی سے مانچسٹر میوزیم کی بوسیدہ عمارت دیکھ رہی تھی۔ میں نے کافی کا کپ ٹرے میں رکھا اور مختلف میزوں سے ہوتا ہوا اس تک جا پہنچا۔ وہ ابھی تک شیشے کی دیوار کے باہر کے منظروں میں کھوئی ہوئی تھی۔ میں 'ایکسکیوزمی‘ کہہ کر میز کے دوسری طرف کرسی پربیٹھ گیا۔ بہت دیر بعد اس کی سوچ اس کی نگاہوں کو واپس لائی تو اس نے مجھے دیکھا۔ ''آج ہوا خاصی سرد ہے‘‘ میں نے کہا۔ ''ہاں جب مانچسٹر میں شمالی جھکڑ چلتے ہیں تو ہوا یونہی کاٹ دار ہوتی ہے‘‘ اس نے کہا۔ اس کے بعد خاموشی کا مختصر وقفہ۔ ''آپ کتنے عرصے سے یہاں رہ رہی ہیں‘‘ میں نے پوچھا۔ ''میرے خیال میں دو سال توہو ہی گئے ہیں۔ آپ یہاں پڑھنے آئے ہیں؟‘‘ اب اس کے پوچھنے کی باری تھی۔ ''ہاں پچھلے سال آیا تھا ستمبر میں واپسی ہے‘‘ میں نے کہا۔ ''کس ملک سے تعلق ہے آپ کا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ''پاکستان‘‘ میں نے کہا۔
''پاکستان؟‘‘ اس کی آنکھوں میں جیسے روشنی سی پھیل گئی ''میرا تعلق بھی پاکستان سے ہے‘‘۔ ''آپ بھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ''پہلے توصرف جاب کررہی تھی۔ اب جاب کے ساتھ ساتھ سوچا ہے کچھ پڑھ لوں‘ صبح پڑھائی اور شام کو مارکس اینڈ سپنسر میں نوکری کرتی ہوں‘‘۔ ''آئی ایم سوری‘ میں نے آپ کا نام تو پوچھا ہی نہیں‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ''مجھے سعدیہ کہتے ہیں‘‘ اس کی آنکھوں کی پرسکون جھیلوں میں بھنور بڑھنے لگے۔ ''دراصل میں بہت دنوں سے چاہ رہا تھا آپ سے گفتگو ہو‘‘ میں نے کہا۔ ''مجھ سے؟‘‘ اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا ''مجھ سے؟ مگر کیوں؟‘‘ ''آپ کو یاد ہے ایک بار آپ کیفے ٹیریا میں بدھ کی تعلیمات پرکتاب پڑھ رہی تھیں‘ دراصل میرا تھیسز بھی‘‘۔ ''او ہو‘‘اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا ''وہ تو یونہی وقت گزاری کے لئے پڑھ رہی تھی۔ ویسے مجھے تصوف سے دلچسپی ہے اور بدھ مت بھی تو تصوف کی ایک مختلف شکل ہے‘‘۔ اس نے گھڑی دیکھی اور پھر بولی '' سوری، مجھے اب کام پر جانا ہے۔ آپ کبھی گھر آئیں۔ میں وَم سلوروڈ پروٹ ورتھ پارک کے عقب میں رہتی ہوں۔ فلیٹ کا نمبرJ-49 ہے‘‘۔ میں سرہلاکر رہ گیا اوراسے کیفے ٹیریا کے دروازے سے نکل کردورتک سڑک پرجاتا دیکھتا رہا اور پھر کتابیں اٹھاکر لائبریری چلا گیا‘ جہاں مجھے اپنے تھیسز پرکام کرنا تھا۔ پہلا باب مذہب کی نفسیاتی ضرورت پرتھا۔ مذہب نہ ہوتو پاگل پن اور خودکشی کے واقعات بہت عام ہوجائیں۔ مذہب یقین کا دوسرا نام ہے۔ اعتقاد اور اعتماد پر اورایک سپرنیچرل طاقت پر۔ سعدیہ سے ملاقات کو کئی دن گزر گئے۔ ایک شام میں یونہی ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ کھڑکی سے باہر تواتر سے بارش برس رہی تھی اور خوشنما چھتریوں کے رنگ ہر طرف بکھر رہے تھے۔ میرے دل میں شدت سے خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کمرے سے نکل کر آکسفورد سٹریٹ پر اس بھیگتے ہوئے منظر کا حصہ بن جاؤں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved