وزیراعظم کے مشیر خارجہ‘ جناب سرتاج عزیز کا دورہ کابل‘ خطے کی صورتحال میں کوئی نئی امید پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکا۔ کوئی بھی ملک اپنے داخلی معاملات پر کنٹرول قائم کئے بغیر‘ علاقائی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ ماضی میں ہمارے پالیسی سازوں نے اس بنیادی بات کو سمجھے بغیر‘ ادھرادھر اتنے ہاتھ پائوں مارے ہیں کہ ہمارے اندرونی معاملات پر ہمارا کنٹرول نہیں اور گردوپیش میں ہم بری طرح سے الجھے ہوئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مدتوں پروان چڑھائی گئی محاذ آرائی کی ذہنیت کی جڑیں‘ بہت مضبوط ہو چکی ہیں۔ حالات کے تقاضے ہمیں امن اور تعاون کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن محاذ آرائی کی ذہنیت ماضی کے حصار سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ پاکستان کی ہر منتخب حکومت کا یہی موقف رہا ہے۔ بھٹو صاحب توازن طاقت میں اپنی کمزور پوزیشن کے باوجود‘ ملک کے حق میں شملہ معاہدہ کرنے کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے درمیان‘ معمول کے حالات پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ان کے بعد ضیاآمریت نے جب افغانستان میں امریکی جنگ لڑنے کا ٹھیکہ لیا‘ تو فوراً ہی بھارت سے محاذ آرائی کے سارے جذبے ماند پڑ گئے۔ جواب میں بھارت نے بھی نرمی دکھائی۔ جس پر خوش ہو کر بھارتی وزیراعظم مرارجی ڈیسائی کو پاکستان کے سب سے بڑے تمغے سے نوازا گیا۔ ضیاالحق کے رخصت ہوتے ہی جو لولی لنگڑی منتخب حکومتیں قائم ہوئیں‘ وہ پھر سے محاذآرائی کی پرانی پالیسی کا شکار ہوتی رہیں۔ بے نظیربھٹو پر بھارت نوازی کا ٹھپہ لگا کر انہیں بے بس کر دیا گیا اور ان کے خوف کا عالم یہ تھا کہ جب نئی دہلی میں سارک کانفرنس کا انعقاد ہوا‘ تو وہ دہلی جانے سے کترا گئیں۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو کانفرنس میں شرکت کے لئے بھیجا گیا جبکہ بطور وزیراعظم کانفرنس میں شریک ہونا محترمہ شہید کا حق تھا۔ نوازشریف ‘ جنہیں بے نظیر کی ’’بھارت نوازی‘‘ سے بچنے کے لئے ملک کا وزیراعظم بنایا گیا تھا‘ ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر فائز رہنے کی وجہ سے‘ جب حالات کو پوری طرح سمجھ گئے اور انہیں اندازہ ہوا کہ نئے دور کی تجارت و معیشت کی ضروریات کو ترجیح نہ دی گئی‘ تو پاکستان بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ان کے دوسرے دور اقتدار میں جب بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا‘ تو نوازشریف نے بھی وقت ضائع کئے بغیر‘ فوراً ایٹمی دھماکے کر ڈالے ۔ ان کے ذہن میں واضح نقشہ تھا کہ دونوں ملکوں کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد‘ ایک نیا توازن طاقت قائم ہو گا اور پاکستان و بھارت باہمی خوف کی حالت سے نکل کرنارمل تعلقات کی بحالی کے راستے پر چل پائیں گے۔ یہ تصور نیا نہیں تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا پروگرام شروع کیا‘ تو ان کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد‘ دونوں ملک ایک دوسرے کو شکست دینے کا خیال چھوڑ دیں گے اور عدم تحفظ کی کیفیت سے نکل کر معمول کے تعلقات بحال کر سکیں گے۔ بھٹو صاحب نے کھل کر کہا کہ ’’ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد روایتی جنگ کا خوف باقی نہیں رہے گا۔ زمینی افواج کے بھاری بھرکم اخراجات بچائے جا سکیں گے اوردونوں ملک تنازعات کو پرامن ذرائع سے حل کر کے‘ امن اور تعاون کے راستے اختیار کریں گے۔‘‘تفصیل مولانا کوثر نیازی کی کتاب ’’دیدہ ور‘‘ کے آخری باب میں موجود ہے۔ قریباً دو عشروں کے بعد نوازشریف بھی اسی نتیجے پر پہنچے۔ 1972ء سے لے کر 1999ء تک پاکستان اور بھارت کشیدگی برقرار رکھتے ہوئے بھی‘ کوئی نتیجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دنیا میں دو پڑوسی ملکوں نے اتنی طویل اور بے نتیجہ کشیدگی کا بوجھ شاید ہی اٹھایا ہو۔ نوازشریف نے ایٹمی دھماکوں کے فوراً ہی بعد پاک بھارت کشیدگی کی دیوار توڑنے کی کوشش کی۔ اگر ان کے خلاف سازش نہ ہو جاتی‘ تو بھارتی وزیراعظم واجپائی اور نوازشریف دونوں کا نام برصغیر کی تاریخ میں‘ امن کے معماروں کی حیثیت سے لکھا جاتا۔ اس وقت عالمی سیاسی حلقوں اور میڈیا میں اس بات کو یقینی سمجھا جا رہا تھا کہ نئی صدی کے پہلے سال کا نوبل امن انعام‘ واجپائی اور نوازشریف کو مشترکہ طور پرملے گا۔ برصغیر کے عوام پر خوشحالی کے دروازے کھل جائیں گے اور یہ بدقسمت خطہ‘ جس میں ڈیڑھ ارب کی حد کو چھوتی ہوئی آبادی‘ بھوک اور پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘ اس کی قسمت بدل جائے گی۔ لوگ پرویزمشرف کو آئین شکنی کا مجرم قرار دیتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک ان کا بڑا جرم‘ پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے مضبوط ہوتے ہوئے امکان کو سبوتاژ کرنا تھا۔ آئین ٹوٹنے سے صرف پاکستان کے سیاسی سٹیک ہولڈرز کو نقصان ہوا‘ لیکن کارگل کے ایڈونچر سے قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا نقصان‘ ڈیڑھ ارب کی حدوں کو چھوتی ہوئی ساری انسانی آبادی کو ہوا۔ آج پاکستان‘ ہر طرح کے بحران سے دوچار ہے۔ نئی حکومت‘ جو فیصلہ کن اکثریت لے کر قائم ہوئی ہے‘ اپنے 50دن پورے کرنے والی ہے لیکن مسائل کے انبار میں‘ وہ کسی ایک مسئلے پر ہاتھ ڈال کر بھی اسے سلجھانے کا عمل شروع نہیں کر سکی۔ اربوں روپے جھونکنے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو کیا؟ اس میں کمی تک نہیں لائی جا سکی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا وعدہ تو کیا پورا ہونا تھا؟ ان کے ساتھ رابطے کا ذریعہ بھی نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ بلوچستان‘ کراچی اور فاٹا میں‘ امن و امان قائم ہونے کے بجائے‘ دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ چترال کے قریب جنگل میں دہشت گردوں کی نئی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد نئے محاذ کھولنے پر تلے ہیں۔ بلوچستان میں خونریزی بڑھتی جا رہی ہے اور کراچی جو پہلے تشدد اور بھتہ خوری کے زخموں سے چور چور تھا‘ اب اپنے قدیم ترین شہریوں کی ہجرت کا دکھ بھی اٹھا رہا ہے۔ بے لگام ہوتی ہوئی مہنگائی نے غریبوں کو بربادی کی حالت میں چھوڑ کر متوسط طبقے کی قوت خرید کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔ سرمایہ کاری مدتوں سے بند ہے۔ رہی سہی کسر گیس اور بجلی کے قحط نے نکال دی۔ پیداواری عمل رکنے سے مزدوروں اور ہنرمندوں کے روزگار متاثر ہوئے۔ بیکاروں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ معاشرے کے اندر جو ذرا سا نظم و ضبط رہ گیا ہے‘ اس کے بند بھی ٹوٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس ملک کے اپنے لوگ روشنی اور روزگار سے محروم ہوں۔ دہشت گردی اور بدامنی کے ہاتھوں لاچار ہوں۔ پیداواری شعبہ زوال پذیر ہو۔ اس کی کرنسی ڈالر کے سامنے ڈھیر ہوتی جا رہی ہو اور ڈالر کی قیمت میں ہر روزہوتا ہوا اضافہ‘ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں بیٹھے بٹھائے اربوں روپے کا اضافہ کر رہا ہو‘ جہاں ملک کے سب سے بڑے مسئلے‘ یعنی دہشت گردی کے بارے میں اتفاق رائے سے پالیسی نہ بنائی جا سکی ہو‘ وہ کونسی طاقت کے بل بوتے پر پڑوسیوں کے مسائل حل کرنے میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے؟ حکومت کے ابتدائی دنوں میں اندازہ کیا جا رہا تھا کہ نوازشریف حکومت‘ سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی بنانے کی کوشش کرے گی۔ یہ کوشش ہوئی ضرور۔ لیکن کسی نتیجے کی طرف پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ اب پتہ چلا ہے کہ اتفاق رائے کی نئی کوشش عید کے بعد کی جائے گی۔ پھر اندازہ ہوا کہ لوڈشیڈنگ میں کمی لائے جائے گی۔ مگر اس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی ختم ہونے کی امید کسی نے بھی نہیں لگائی تھی۔ مگر لوگ اس کے لئے بھی تیار نہیں تھے کہ قیمتوںمیں اس قدر تیزرفتاری سے اضافہ ہو گا۔ بھارت کے ساتھ امن کی کوششوں کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی باہمی کش مکش ‘ شرق اوسط میں ہماری پالیسی آپشنز کو محدود کر رہی ہے۔ افغانستان‘ جہاںسوویت یونین اور امریکہ جیسی طاقتیں ‘ امن قائم کرنے میں ناکام رہیں‘ وہاں ہم موجودہ حالات میں اپنی بے بسی کے اثاثے لے کر ‘ کیا کردار ادا کر سکیں گے؟دوسروں کے گھروں کو سنبھالنے سے پہلے‘ اپنا گھر سنبھالنے پرتوجہ دینا پڑتی ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی طاقتوں کو متفق اور یکجا ہو کر ملک کو درپیش تہہ در تہہ بحرانوں پر قابو پانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اپنا گھر مضبوط ہو گا‘ تو ہم دوسروں کی خدمت بھی کر پائیں گے۔ لیکن شکستہ گھر میں بیٹھ کر دوسروں کی مدد کرنے کا نتیجہ وہی ہو گا‘ جو ہم 1978ء سے بھگت رہے ہیں۔ افغانستان کا تو کچھ نہیں بن رہا‘ ہمارا گھر بگڑتا جا رہا ہے۔چودھراہٹ بہت ہو چکی۔اپنے درودیوار کو انہدام کے خطرے سے بچایئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved