انسانی زندگی میں معیشت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ معاشی استحکام کی وجہ سے انسان نہ صرف یہ کہ اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ بہت سی سہولیات کو بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ معاشی طور پر مستحکم شخص کو معاشرے میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل معاشی کمزوری کا شکارانسان نہ صرف یہ کہ سہولیات سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ بہت سی جائز ضروریات کو پورا کرنے سے بھی قاصر ہو تا ہے۔ معاشی کمزوری کے شکار شخص کو معاشرے میں بالعموم عزت وتکریم کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا جاتا۔ انسان کی خستہ حالی اور پراگندگی اس کے حلیے‘ لباس ‘ وضع قطع‘ گفتگو اور اندازِ تکلم سے بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ بیروز گاری کی وجہ سے نفسیاتی عارضوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ جرائم کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ معاشی کمزوری‘ غربت اور افلاس کی وجہ سے لوگ خود سوزی تک پہنچ جاتے ہیں اور کئی لوگ کپڑوں‘ خوراک اور ادویات کی طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں ناچاقی کی بڑی وجہ معاشی کمزوری‘ غربت اور افلاس ہوتی ہے۔ جب انسان بیوی ‘بچوں کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تووہ لڑائی جھگڑے پر اُتر آتا ہے اس کے مدمقابل بیوی جب شوہر کو اپنے مطالبات پورا کرنے سے قاصر پاتی ہے تو وہ بھی ناراض ہو کر اپنے گھر چلی جاتی ہے۔
معاشی استحکام کے حصول کے لیے ہر شخص اپنی اپنی بساط‘ علم اور صلاحیتوں کے مطابق کوششیں کرتا رہتا ہے ۔بہت سے لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر فقط بچوں کو اس لیے اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں کہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے بچے کسی مقام پر پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے اور اپنے معاشی معاملات کو اچھے طریقے سے چلا پائیں گے۔معاشی اتار چڑھاؤ کے حوالے سے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ رزق درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم ہے اور ضروری نہیں کہ فراواں رزق اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضااور خوشنودی کی علامت ہو۔ بہت سے متمول اور صاحبِ حیثیت لوگ دنیا اور آخرت میں ناکام اور نامراد ٹھہرے۔ فرعون‘ قارون‘ ہامان‘ شداد اور ابولہب کا انجام ِبد ہم سب کے سامنے ہے۔ ان تمام لوگوں کے پاس دنیاوی اور مالی اعتبار سے بہت کچھ تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کے راستے پر چلنے کی وجہ سے یہ لوگ ناکام اور نامراد ہو گئے۔ اس کے بالمقابل بہت سے لوگ معاشی کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود دین اور دنیا کی سربلندیوں سے ہمکنار ہو گئے۔ دین اور دنیا کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو نے والے ان لوگوں نے غربت اور مفلسی کو اپنے قدموں کی زنجیر نہیں بننے دیا اور اپنے اعلیٰ اخلاق اور اقدار کے ذریعے معاشرے کی تربیت‘ رہنمائی اور فلاح وبہبود کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے مقرب بندوں نے بھی غربت کی زندگی گزاری لیکن معاشی تنگدستی کے باوجود وہ صبر اور خندہ پیشانی کے ساتھ تمام تکالیف برداشت کرتے رہے۔
جہاں پر معاشی اتار چڑھاؤ انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کا حقیقی معیار نہیں وہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشی استحکام انسان کی ضرورت ہے اور اس کے بہت سے مثبت کاموں میں بھی اس کامعاون ہے۔ انسان کو جہاں پر اپنے معاشی حالات کو سنوارنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے وہیں پر کتاب و سنت میں مذکور بہت سی اہم تدابیر سے بھی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ تقویٰ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈر کر گناہوں سے اجنتاب کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی معیشت کو بہتر بنا دیتے ہیں اور اس کو وہاں سے رزق دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے سورہ طلاق کی آیت نمبر 2‘3میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے ) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔‘‘
2۔ توکل: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرتا ہے اور اسی سے رزق کے ملنے کی اُمید رکھتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا بیان اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو وہ کافی ہے اُسے بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ۔‘‘ احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ توکل کی وجہ سے اپنے بندوں کو رزق دیتے ہیں۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺنے فرمایا: ''اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسا) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسا) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں۔‘‘
3۔ شکرگزاری: انسان کی زندگی میں آنے والی بہت سے نعمتیں ناشکری کی وجہ سے چھن جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک ایسی بستی کا ذکر کیا جس کو امن‘ اطمینان اور رزق کی نعمتیں حاصل تھیں مگر جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان نعمتوں کو زائل کر دیا۔ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد ہوا: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی‘ اطمینان والی آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔ ‘‘اس کے بالمقابل جب انسان شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرتا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کو اس پر بڑھا دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ شکر کے تین درجے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرے‘ شکر کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان زبان سے الحمدللہ کہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی تابعداری کو ظاہرکرے۔ جب انسان شکر کے ان مدارج کو طے کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبرسات میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘
4۔دعا اور مناجات: اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں اور فریادوں کی وجہ سے ان کی تنگیوں اور تکالیف کو دور فرما دیتے ہیں۔ جب بندہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے خلوص ِ نیت سے دعا کرتا ہے تو اللہ اس کی دعاؤں کو قبول ومنظور فرما لیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی بہت سے دعاؤں کا ذکر کیا کہ جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو قبول ومنظور فرماتے ہوئے اُن کے دکھوں اور تکالیف کو دورفرما کر ان کو دنیا اور آخرت کی سربلندیوں سے ہمکنار فرما دیا؛ چنانچہ ہمیں بھی اپنے معاشی استحکام کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر ہمہ وقت دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور اس ضمن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو بھی سامنے رکھناچاہیے کہ جو انہوں نے مکہ میں رہنے والی اپنی اولاد کے لیے پھلوں کے رزق کی دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی اولاد اہل مکہ کو پھلوں سے فراواں رزق عطا فرمایا۔
5۔ انفاق فی سبیل اللہ: قرآن مجیدکے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے غم اور خوف دور فرماتے ہیں وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی برکت سے انسان کے رزق میں بھی اضافہ فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سباء کی آیت نمبر 39میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہو کوئی چیز تو وہ عوض دیتا ہے اُس کا (یعنی اس کی جگہ اور دیتا ہے) اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔‘‘
6۔ نکاح: جب کو ئی انسان پاکدامنی کے حصول کے لیے نکاح کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں پر اس کے لیے شرم ‘ حیا اور پاکیزگی کے راستوں کو استوار فرماتے ہیں وہیں پر اس کے رزق میں بھی اضافہ فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا اُنہیں اللہ اپنے فضل سے۔‘‘
اگر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا تدابیر پربھی عمل کر لیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام محروم اور مجبور لوگوں کی غربت اور افلاس کو دور فرما کر ہر تنگدست کو معاشی اعتبار سے مستحکم فرمائے۔ آمین