تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     06-10-2021

ہمت والے

مختلف ٹی وی چینلزبدلتے بدلتے اچانک دنیا نیوز پر کامران شاہدصاحب کا پروگرام سامنے آجاتا ہے۔پروگرام میں شہباز گل صاحب کو بھی بیٹھے دیکھا تو ٹی وی کا ریموٹ پرے رکھ کر پوری توجہ پروگرام پر مرکوز کردی۔ خوب اچھے سے علم تھا کہ شہباز گل صاحب ایک مرتبہ پھر ایسی دور کی کوڑیاں لائیں گے کہ ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ دوسری طرف اظہرجاوید اور عظمیٰ بخاری صاحبہ براجمان تھیں۔ویسے توکبھی کبھار ہی کوئی مکمل ٹاک شو دیکھنے کا موقع ملتا ہے لیکن شہباز گل صاحب کسی پروگرام میں دکھائی دے جائیں تو ضروریہ کوشش رہتی ہے کہ پروگرام کو اختتام تک دیکھا جائے۔ پروگرام کا موضوع شریف خاندان کے بینک اکاؤنٹس پر برطانوی عدالت کا فیصلہ تھا۔ اچھی بات یہ رہی کہ پروگرام کو اختتام تک دیکھنے کے تمام پیسے پورے ہوگئے کہ شہباز گل صاحب سے جتنی توقعات تھیں‘ وہ ان پر پورا اُترے ۔ ان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی خصوصیت سے نواز ا ہے کہ وہ بات کو گھمانے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ اب جو کامران شاہد اور شہباز گل کے درمیان گفتگو کا آغاز ہوا تو سوال کچھ پوچھا جاتا اور گل صاحب بات کو کہیں کا کہیں لے جاتے۔ مثلاً پوچھا گیا کہ جناب یہ بتائیے کہ کیا حکومت پاکستان نے برطانیہ سے یہ درخواست کی تھی یا نہیں کہ شریف خاندان کے اکاؤنٹس کھنگالے جائیں کیونکہ خدشہ ہے ان میں منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ لایا گیا ہے؟ اب جواب سنئیے''دیکھیں کامران پروگرام میں اظہر جاوید صاحب بھی موجود ہیں اور یہ وہ صاحب ہیں جو ہمیشہ حکومت کے خلاف ٹوئٹس کرتے رہتے ہیں ‘کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اظہرجاوید تو ویسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت سے بیر رکھتے ہیں‘‘۔ میزبان نے گل صاحب کو ٹوکا کہ جناب میرا سوال کچھ اور تھا ‘ آپ اُس کا جواب دیجئے۔ اس پر دوسرا جواب ملاحظہ کیجئے ''دیکھیں کامران آپ بات کو ٹھیک طریقے سے بیان نہیں کرتے اور ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ آپ نے اتنے بج کر اتنے منٹ پر پروگرام کا آغاز کیا‘ تیس سیکنڈ بعد آپ نے یہ بات کی اور پھر ایک منٹ بائیس سیکنڈ کے بعد آپ یہ بات کررہے تھے اور تین منٹ بعد آپ نے فلاں بات کی‘‘۔ کامران شاہد صاحب کی آواز اُبھرتی ہے کہ گل صاحب میں آپ سے پوچھ کچھ رہا ہوں اور جواب آپ کچھ دے رہے ہیں۔ اس پر شہباز گل کہتے ہیں کہ دیکھیں ایک تو آپ بات نہیں کرنے دیتے جس پر میزبان قدرے جھنجلا کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے جی بولیں بولیں پورا پروگرام ہی آپ کا ہے۔
بس اسی ماراماری میں پروگرام اختتام پذیر ہوگیا۔ اس دوران کچھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا ہے لیکن مجال ہے حکومتی موقف پر کوئی ڈھنگ کی بات سننے کو ملی ہو۔ ایک طرف اظہر جاوید اپنے ثبوتوں کے ساتھ بات کررہے تھے اور دوسری طرف شہباز صاحب بات گھمانے کی اپنی مہارت کا بھرپورمظاہرہ کررہے تھے ۔ سبھی ٹاک شو میں ان دنوں ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وجہ اس کی بہت واضح ہے کہ حکومتی نمائندے بیشتر صورتوں میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کے دفاع سے بڑی حد تک قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ دفاع کیا بھی کیسے جائے کہ اب ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں منہ سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔ یقینا اسی تناظر میں سیانے کہتے آئے ہیں کہ کم بولیں‘سکھی رہیں۔
کیا کیا جائے کہ 126دنوں تک دن رات کی محنت سے جو کلچر متعارف کرایا گیاہے‘ اب اُس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کوئی دلیل ہو یا نہ ہو بس سینگ پھنسائے رکھنے ہیں۔وزارت یا پھر دوسرے عہدوں کی یہی مجبوری ہوتی ہے کہ رات کو دن اور دن کو رات ثابت کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔وہ باتیں جو کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہی جاتی رہیں ہیں اب جب اُن پر سوال کیا جاتا ہے تو کوئی مناسب جواب نہیں بن پاتا۔ تقریباً سبھی پروگرامز میں چند سوالات بڑی کثرت سے پوچھے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو حکمران چور ہوتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو حکمران چور ہوتا ہے۔ کسی پروگرام میں میزبان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی سوال کیا تو صداقت عباسی صاحب نے جواب دیا کہ جناب ملک کے اندر تو تیل کے کنویں نہیں ہیں‘ جب پٹرول باہر سے مہنگے داموں ملے گا تو مہنگا ہی فروخت ہوگا۔ اس پر ایک تجزیہ کار نے بہت بھولے سے انداز میں پوچھ لیا کہ جناب کیا سابقہ دورِ حکومت میں ملک میں تیل کے کنویں ہوا کرتے تھے؟
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم الفاظ کی فضول خرچی سے گریز کریں ۔ یہاں تو ایک سانس میں ایک بات کہی جارہی ہوتی ہے اور دوسری میں پورے کا پورا بیانیہ ہی بدل چکا ہوتا ہے۔ عوام کیا اب تو کچھ خواص بھی روہانسا دکھائی دیتے ہیں لیکن بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ۔کسان الگ سے رو رہے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اُنہیں 11سو ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوئی۔کسانوں سے بات کی جائے تو وہ زرعی ادویات‘ کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر مسائل کی طویل فہرست کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ نتائج حاصل کرنے کیلئے پانچ سال بہت کم ہوتے ہیں۔ کہیں اور بس نہیں چلتا تو صدارتی نظام کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر بات کی جائے تو جواباً یہ سننے کو ملتا ہے کہ بات کرنے والا اپوزیشن کی زبان بول رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے احتساب کے بیانیے کو بہت پذیرائی بخشی تھی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں اس بیانیے کو صرف بیانیے تک ہی محدود دکھائی رکھا گیا ہے۔
پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران ہمارا ہر سطح پر شہریوں سے ملنا جلنا رہتا ہے۔ یہ عجیب سی بات ہی محسوس ہوتی ہے کہ اب وہ احتساب کے بیانیے میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ اُن کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ خدارا مہنگائی کم کی جائے۔ان حالات میں بھی چند ایک حکومتی عہدیدارتن من دھن سے حکومت کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں تو پھر اُن کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے ۔ ان خواتین و حضرات کی فہرست خاصی طویل ہے ۔ اب اللہ کرے کہ یہ ہمت والے حکومتی مدت کے اختتام تک حکومت کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں‘ ثابت کردیں کہ کسی بھی صورت میں ان کی ہمدردیاں اپنی جماعت اور حکومت کے ساتھ ہی رہیں گی‘ورنہ یہاں تو یہ رواج بہت عام ہے کہ آج ایک جماعت کے گن گانے والے اگلے روز کسی دوسری جماعت کی ترجمانی کررہتے ہوتے ہیں۔ جئے بھٹو اور نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگانے والے بے شمار احباب اب موجودہ حکومت کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کابینہ ہی کا جائزہ لے لیں تو تمام صورتحال پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔بعض احباب ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں مختلف جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کو اپنی خدمات فراہم کرچکے ہیں ۔ یاد آیا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے نام لے لے کر یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں سیاستدان چور ہے‘ ڈاکو ہے ‘ اُسے کسی صورت بھی اپنا ساتھی نہیں بنائیں گے اور آج یہ عالم ہے کہ اُن کے بغیر حکومت ہی ڈانواڈول ہوجاتی ہے۔ ویسے ایک سے دوسری جماعت میں چلے جانے والے بھی بہت ہمت والے ہوتے ہیں ۔ ایک ہی زبان سے مختلف جماعتوں کو زندہ و پائندہ رہنے کی دعائیں دینا آسان تو نہیں ہوتا۔ درحقیقت پلک جھپکتے ہی اپنا موقف تبدیل کرلینا بہت ہمت کی بات ہوتی ہے۔ وہ بھی اتنی محبت کے ساتھ کہ جیسی نئی جماعت سے اُن کا تعلق پیدائشی طور پر رہا ہو۔ بہرحال ان ہمت والوں کیلئے ایک مرتبہ پھر ہمارا خراج تحسین اور اس کے ساتھ یہ دعا کہ یہ ہمت والے اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے رہیں ۔اسی طرح حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرتے رہیں اوروہ وقت بھی ہمت کے ساتھ گزاریں جب انہیں اپنے کیے کا حساب دینا پڑے‘ کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہی چلن رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved