تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-10-2021

بلاول کے بعد حمزہ شہباز اور ملتان… (1)

لکھنا میرا شوق ہے تاہم کالم لکھنے میں شوق کے ساتھ ساتھ پیشے کی مجبوری بھی لاحق ہے لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی فی زمانہ والے موضوعات پر کالم لکھنا پڑتے ہیں۔ سیاست بھی ایسا موضوع ہے جس پر دل نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑتا ہے۔ میں کلّی طور پر سیاست بیزار آدمی ہرگز نہیں، لیکن جب ہر طرف صرف اور صرف سیاست چل رہی ہو اور ہر بات کی تان آ کر سیاست پر ٹوٹ رہی ہو تو کوئی شخص بھی اس سے بیزار ہو سکتا ہے۔ بھلا مجھ کو اس سے کہاں استثنا حاصل ہے؟ لیکن وہی پیشہ ورانہ مجبوری آن گھیرتی ہے تو ایسے میں قلم کار کیا کریں؟
جنوبی پنجاب آج کل سیاسی گہما گہمی کا مرکز ہے۔ پہلے بلاول بھٹو زرداری نو دس روز لگا کر گئے‘ اب حمزہ شہباز شریف کو جوش آیا ہے اور وہ اپنے متوالوں کو گرمانے کے لیے ملتان ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں۔ ملتان شہر کی سیاست کو دیکھیں تو فی الوقت یہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 سے اپنا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ ضلع ملتان کے چھ قومی حلقہ جات میں پہلا حلقہ بھی یہی ہے۔ یہ حلقہ ایک عرصے سے زور دار معرکوں کا مرکز رہا ہے۔ تاہم اس حلقے کا سب سے بڑا معرکہ 1988 کا الیکشن تھا۔ تب اس حلقے کا نمبر این اے 114 تھا۔ یہاں سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی تھے جبکہ آئی جے آئی کی طرف سے میاں نواز شریف امیدوار تھے۔ یوسف رضا گیلانی نے میاں نواز شریف کو تقریباً سترہ ہزار ووٹوں سے شکست فاش دی۔ 1990 میں اس حلقے سے یوسف رضا گیلانی نے اپنے چچا اور بہت معروف سیاست دان سید حامد رضا گیلانی کو چھ ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ یوسف رضا پی ڈی اے اور حامد رضا آئی جے آئی کے امیدوار تھے۔ 1993 میں اسی حلقے سے یوسف رضا گیلانی نے سکندر بوسن کو ہرایا۔ جواباً 1997 میں اس حلقے سے سکندر بوسن نے یوسف رضا گیلانی کو تئیس ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ 2002ء کے انتخابات میں اس حلقے کا نمبر این اے 114 کے بجائے 151 ہو گیا۔ یہاں سے سکندر بوسن نے یوسف رضا گیلانی کے بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی عرف مجو سائیں کو شکست دی۔ 2008 میں اسی حلقے سے سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی نے سکندر حیات بوسن کے بھائی شوکت بوسن کو شکست دی۔ شوکت بوسن آزاد امیدوار تھا۔2013 کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کا امیدوار ملک سکندر بوسن تھا اور پیپلز پارٹی کا امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹا عبدالقادر گیلانی تھا۔ تحریک انصاف کو یہاں سے کوئی قابل ذکر سیاسی بندہ نہ مل سکا تو مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والا سلمان قریشی‘ جس کی غالباً (کم از کم میری یادداشت کے مطابق) ننھیال کی طرف سے اس حلقے میں عزیز داری اور آبائی زمین تھی، خانہ پری کے لیے یہاں سے امیدوار بن گیا۔ اب خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس انتہائی غیر معروف اور اس حلقے کے لیے قطعاً اجنبی امیدوار کو چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ مل گئے۔ مسلم لیگ کے امیدوار سکندر بوسن چھیانوے ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ عبدالقادر گیلانی کو ستاون ہزار ووٹ ملے جبکہ پی ٹی آئی کے سلمان قریشی نے انتالیس ہزار سے زائد ووٹ لیے۔ یہ ووٹوں کی حیران کن تعداد تھی اور ایک انتہائی غیر معروف، امپورٹڈ اور اجنبی امیدوار کو اتنے ووٹ ملنا سب کے لیے، بشمول خود امیدوار کے بھی غیر متوقع تھا۔
2013 میں پی ٹی آئی کے انتہائی غیر معروف امیدوار سلمان قریشی کو چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ کیا ملے کہ وہ اتنے ووٹ ملنے پر اپنے بارے میں شدید غلط فہمی کا شکار ہو گیا۔ یہ صرف اور صرف تحریک انصاف کو پڑنے والے ووٹ تھے مگر امیدوار اس غلط فہمی کا شکار ہو گیا کہ یہ ووٹ اس کی ذات کو ملے ہیں۔ راوی بتاتے ہیں کہ دو تین مواقع پر سلمان قریشی نے عمران خان کو یہ بات جتلائی کہ میں سلمان قریشی ہوں جس نے چالیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ جب چوتھی بار سلمان قریشی نے عمران کو ملنے پر اپنا تعارف کروانا چاہا تو عمران خان نے سلمان قریشی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا: جی میں جانتا ہوں آپ وہی ہیں جنہوں نے چالیس ہزار ووٹ لیے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ جب پی ٹی آئی کے درجنوں ووٹروں سے پوچھا کہ انہوں نے کسے ووٹ ڈالا ہے تو اکثر کو امیدوار کا نام ہی نہیں آتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بلے کو ووٹ ڈال کر آئے ہیں۔ تب بلے کی خاصی قدر ہوا کرتی تھی اور لوگ فخر سے بتاتے تھے کہ انہوں نے بلے کو ووٹ ڈالا ہے۔ یہ سب وقت وقت کی بات ہے۔
2013 کے الیکشن کے حوالے سے ایک ضمنی بات یاد آ گئی۔ اب اندر کی بات کا تو پتا نہیں لیکن بظاہر مسلم لیگ (ن) کو ملک سکندر بوسن کو اس حلقے سے ٹکٹ دینے میں تامل تھا۔ متبادل امیدوار کے طور پر اس حلقے کے پرانے ایم پی اے ملک اسحاق بچہ سے نہ صرف رابطہ کیا گیا بلکہ انہیں خصوصی طیارے پر لاہور بلوایا گیا اور وعدے وعید کیے گئے تاہم جب ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو مسلم لیگ (ن) سارے وعدے بھول گئی اور ٹکٹ سکندر بوسن کو جاری کر دیا گیا۔ ویسے سیاسی طور پر یہ درست فیصلہ تھا۔ ملک سکندر بوسن نے یہ الیکشن چالیس ہزار کے بھاری مارجن کے ساتھ جیتا۔
2018 میں اس حلقے میں پھر بڑی دھما چوکڑی مچی۔ سلمان قریشی پھر اس حلقے سے تحریک انصاف کی ٹکٹ کا طلب گار تھا، مگر اب صورت حال تبدیل ہو چکی تھی۔ عمران خان کو پرانے کارکنوں سے زیادہ الیکٹ ایبلز سمیٹنے کا 'چا‘ چڑھ چکا تھا۔ اب اس حلقے سے دو تگڑے امیدوار پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے طلب گار تھے۔ ملک سکندر بوسن اور احمد حسین ڈیہڑ۔ تب جہانگیر ترین اور کچھ پردے کے پیچھے والے سکندر بوسن کی پشت پر تھے اور احمد حسین ڈیہڑ کی پشت پر شاہ محمود قریشی تھا۔ یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی کی وجۂ حمایت صرف جہانگیر ترین کی مخالفت تھی۔ اسی دوران سکندر بوسن کا ٹکٹ ایک بار تو انائونس بھی ہو گیا مگر سکندر بوسن زیادہ محفوظ گیم کھیلنے اور آخری دن تک مسلم لیگ (ن) کی کابینہ میں اپنی وزارت کے مزے لینے کے چکر میں دو کشتیوں کا سوار رہا‘ اور احمد حسین ڈیہڑ نے بنی گالہ میں دھرنے کے طفیل ٹکٹ کھری کر لی۔ سکندر بوسن آزاد الیکشن لڑا۔ احمد حسین ڈیہڑ کو چوہتر ہزار اور پیپلز پارٹی کے عبدالقادر گیلانی کو چونسٹھ ہزار ووٹ ملے۔ آزاد امیدوار سکندر بوسن سینتیس ہزار ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے‘ تاہم کسی پارٹی ٹکٹ کے بغیر اتنے ووٹ لے کر انہوں نے اس حلقے میں اپنے پاکٹ ووٹ ثابت کر دیے۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سلمان قریشی کو بیس ہزار ووٹ ملے۔ اصولاً یہی بیس ہزار ووٹ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے پکے اور نظریاتی ووٹر تھے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved