تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     07-10-2021

’’ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘‘

''ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘‘ ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں اس جملے کی بازگشت کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ 20 اپریل 2017ء کے پاناما کیس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ جملہ اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا، امریکی مصنف ماریو پوزو اپنے ناول ''گاڈ فادر‘‘ کا آغاز فرانسیسی مصنف آنرے دی بالزک کے اسی جملے سے کرتا ہے۔ اختلافی نوٹ میں اس حوالے کے بعد ہی سیاسی مخالفین نے نواز شریف کو گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کہنا شروع کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان شروع دن سے اس بات کے قائل ہیں کہ معاشرے میں تمام خرابیوں کی جڑ کرپشن ہے۔ بے ایمانی سے بنایا گیا پیسہ مختلف ذرائع سے ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے۔ اس عمل میں ملوث اشرافیہ کے بیرون ملک کاروبار اور جائیدادیں ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی فورمز پر اکثر وہ یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ کرپشن کے ذریعے بنائے گئے پیسے کو ملک سے باہر جانے سے روکنا ہوگا، اور کرپٹ افراد کو سخت سزا دینا ہوگی، اور یہ کہ مغربی ممالک‘ ترقی پذیر ممالک کا لوٹا ہوا پیسہ اپنے ممالک میں آنے سے روکیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے بلاشبہ سخت قوانین وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
پاکستان میں قومی احتساب بیورو کا بااختیار ادارہ موجود ہے جو سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے لوگوں کی بیخ کنی میں مصروف ہے۔ اس ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت ملازمت 8 اکتوبر کو پوری ہورہی ہے۔ نئے چیئرمین نیب کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہونا ہے۔ اب تک مشاورت نہیں ہو پائی اور مشاورت مستقبل میں بھی ہوگی یا نہیں‘ اس پر سوالیہ نشان اپنی جگہ برقرار ہے۔ چیئرمین نیب تبدیل ہوگا یا جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی اس عہدے پر فائز رہیں گے یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس سب کے بیچ حکومتی قانونی ٹیم اپنی بھاگ دوڑ میں مصروف رہی اور ایک آرڈیننس کا مسودہ تیار کرلیا۔ اس آرڈیننس کے بنیادی نکات میں شامل ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مشاورت کی موجودہ شق برقرار رہے گی۔ نئے چیئرمین نیب کیلئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے نام پر بھی غور ہوسکے گا۔ اتفاق نہ ہوا تو بات پارلیمانی کمیٹی میں جائے گی۔ مذاکرات میں ڈیڈلاک ہوا تو موجودہ چیئرمین ہی نئے چیئرمین کے آنے تک عہدے پر رہیں گے۔ چیئرمین نیب کو ہٹانے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنا ہوگا۔ چیئرمین نیب کو توسیع نہ دینے کی شق بھی آرڈیننس کے ذریعے ختم ہو جائے گی۔
احتساب ہو‘ انتقام نہ ہو‘ اس حوالے سے حکومت اکثر اپنی نیک نیتی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے بھی حکومت کی انتہائی قابل اور زیرک قانونی ٹیم کچھ ایسے نئے پہلو سامنے لائی ہے۔ قانونی حوالے سے اس آرڈیننس میں اہم بات یہ ہے کہ نیب عدالتوں کو 90 دن سے پہلے ملزم کو ضمانت دینے کا اختیار بھی مل جائے گا۔ نیب عدالتوں میں ایڈیشنل سیشن جج اور سابق جج صاحبان بھی تعینات کیے جا سکیں گے۔ چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مشاورت کی شق اس لیے رکھی گئی تھی کہ احتساب کے ادارے کا سربراہ متفقہ ہو۔ اس کے کردار اور غیر جانبداری پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بھی اس مشاورتی عمل کے ذریعے ہی احتساب کے ادارے کے سربراہ بنے تھے‘ تاہم اب اپوزیشن اکثر ان پر انگلیاں اٹھاتی رہتی ہے‘ نیب نیازی گٹھ جوڑ کے نام پر سیاسی انتقام کا شور مچاتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے فروغ نسیم اس وقت ملک کے وزیر قانون ہیں۔ اس آرڈیننس کی تیاری میں بلاشبہ ان کی محنت شامل ہوگی، اور ان کا ماننا ہے کہ نئے چیئرمین نیب کے تقرر پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی مشاورت ہوگی‘ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اب تک شہباز شریف سے کوئی ایسا رابطہ نہیں ہوا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان بھی نیب ترمیمی آرڈیننس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین مشاورت کی شق موجود ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اب مشاورت ہوگی یا نہیں کوئی کچھ نہیں جانتا‘ لیکن مشاورت نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جانا ہے اور ایسا ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔ حکومت کے اس عمل پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں ''قانون توڑ کر چیئرمین نیب کو توسیع دی جارہی ہے، قانون کہتا ہے مشاورت کریں لیکن وزیراعظم انکار کر رہے ہیں، صدر مملکت بھی آرڈیننس پر دستخط کے لیے تیار بیٹھے ہیں‘‘۔ پیپلز پارٹی نے چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں آرڈیننس کے ذریعے توسیع کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے سوال اٹھایا کہ ''مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد موجودہ چیئرمین کیسے کام کر سکتے ہیں؟ اگر اپوزیشن سے مشاورت کرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے تو کیا وزیراعظم سمیت وزرا کے خلاف کیسز نہیں؟ چینی، آٹا، پٹرول، ادویات، بی آر ٹی، ایل این جی، رنگ روڈ، بلین ٹری اور ہیلی کاپٹر سکینڈلز کس کے خلاف ہیں؟ کیا وزیراعظم اپنا اور اپنے وزرا کے مفادات کا تحفظ نہیں کررہے؟‘‘مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تحفظات اور سوالات اپنی جگہ‘ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین چیئرمین نیب کے تقرر پر مشاورت کیوں نہیں ہوگی اس کی وضاحت کھل کر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری صاحب پیش کر گئے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''ہم شہباز شریف سے چیئرمین نیب کے متعلق مشاورت نہیں کریں گے۔ جو قانونی سقم ہے اس کو دور کرنے کیلئے آرڈیننس لے کر آئیں گے تاکہ اس قانون میں موجود مبینہ پیچیدگیوں کو ختم کیا جا سکے جس نے اس معاملے پر قائد حزب اختلاف سے مشاورت کو لازمی قرار دیا ہے‘‘۔ اپنی بریفنگ میں انہوں نے یہ بتایا کہ ''آرڈیننس اس بات کی وضاحت کرے گا کہ اگر اپوزیشن لیڈر پر بدعنوانی کے مقدمات کا الزام ہے تو اینٹی کرپشن واچ ڈاگ کا سربراہ کیسے مقرر کیا جائے گا‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے فواد چودھری کے بیان پر جواب میں کہا کہ ''نیب چیئرمین کی تقرری پر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت آئین کا تقاضا ہے، خان صاحب کا چیئرمین نیب کو توسیع دینا چوروں کو این آر او دینا ہے۔ وہ اس فیصلے سے آٹا، چینی، بجلی، گیس، دوائی چور دوستوں کو این آر او دے رہے ہیں‘‘۔ اس آرڈیننس پر گرماگرم بیان بازی سے یہ صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم نئے چیئرمین نیب کے تقرر کیلئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ مشاورت کیلئے نہیں بیٹھ رہے۔ شہباز شریف پر ابھی صرف کرپشن کے الزامات ہیں، کیسز چل رہے ہیں، کچھ ثابت ہو جائے تو وہ ضرور مجرم ٹھہریں گے۔ ایسا ہو جانے کے بعد ان سے بات نہ کرنا حق بجانب ہوگا۔ اس وقت وہ ملک میں حزب اختلاف کے نمائندہ ہیں انہیں ان کا آئینی مقام ملنا چاہیے۔
پنڈورا پیپرز میں وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں، انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ بے گناہ ثابت ہونے تک ان کے ساتھ بھی نہ بیٹھا جائے۔ ''ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم ہوتا ہے‘‘ پاناما کیس کے فیصلے کے اس جملے کو پھر سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ اب پنڈورا باکس کھل چکا ہے، اب کی بار بھی کچھ پردہ نشین بے نقاب ہوئے ہیں، دیکھتے ہیں بلاامتیاز احتساب کیسا ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved