تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     07-10-2021

سوشل میڈیا پر چھاگئی خاموشی

سوشل میڈیا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے‘ سماجی رابطے کی ویب سائٹس لوگوں کو ہروقت کنیکٹ رکھتی ہیں۔ کورونا کی تنہائی کو بھی ان فورمز نے بہت حد تک کم کردیا تھا۔ لوگ فیس بک‘ ٹویٹر‘ انسٹاگرام‘وٹس ایپ‘ یوٹیوب اور دیگر سائٹس کے ذریعے سے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ سماجی رابطے کے ان پلیٹ فارمز نے بہت سے لوگوں کو سٹار بھی بنا دیا ہے‘ لوگ یہاں سے کمارہے ہیں‘ کوئی کوکنگ کررہا ہے‘ کوئی کپڑے بنارہا ہے‘ کسی نے آن لائن سٹور کھول رکھا ہے‘ کوئی گروپس بناکر آگاہی دے رہا ہے‘ کوئی گانے پوسٹ کررہا ہے‘ کوئی شعر و شاعری‘ کوئی خبر دے رہا تو کوئی وی لاگز بنا رہا ہے۔ جن وڈیوز پر لاکھوں ویوز آتے ہیں فیس بک‘ انسٹاگرام اور یوٹیوب ان کو پیسے دے رہے ہیں ۔ رابطہ‘ بات چیت‘ وڈیو کالز‘ تصاویر‘ وڈیوز‘ معلومات کا خزانہ‘ کیا ہے جو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر موجود نہیں۔ پروفیشنلز اور اکثر تنہائی پسند لوگ سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک رہتے ہیں۔ کورونا کی وبا میں لوگوں نے اپنی تنہائی‘ بیماری اور قرنطینہ کا وقت سوشل میڈیا پر گزارا اور اپنے دوست احباب کے ساتھ رابطے میں رہے۔ جہاں سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہیں‘ وہیں اس کا منفی استعمال بھی کافی زیادہ ہے مگر ہمیں اس کے مثبت استعمال پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
میں سوشل میڈیا کا استعمال اپنا کالم شیئر کرنے کے علاوہ‘ آن لائن شاپنگ‘ میمز‘ وائنز دیکھنے‘ اپنی فوٹوگرافی پوسٹ کرنے‘ کبھی وی لاگز اور کبھی گپ شپ کیلئے کرتی ہوں۔ لوگ سوشل میڈیا کو اپنے شعبے کے حساب سے استعمال کرتے ہیں‘ میرا اولین مقصد خبر کی نشر واشاعت ہے۔ سوشل میڈیا لوگوں کو ان کے کیریئرز میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ کتنے ہی گھر بیٹھے لوگوں کو اس نے راتوں و رات سٹار بنادیا‘نئے شیف‘ گلوکار اور اداکار سامنے آئے جن سے ماحول پر خوشگوار اثر پڑا۔ میں خود کوشش کرتی ہوں کہ مثبت چیزیں پوسٹ کروں۔ یہاں پر بہت سے احباب سے ملاقات ہوئی جن کی وجہ سے زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے‘ ان میں سمیحہ راحیل قاضی بھی ہیں جن سے میری ملاقات ٹویٹر پر ہی ہوئی۔ وہ میڈیا کی بہت سی خواتین کو دینی تعلیمات کے قریب لے کر آئیں۔ اس کے علاوہ میری دوسری استاذہ اسلام آباد کی یاسمین جی ہیں جو کورونا کے دوران ہم سب کو قرآنِ پاک تفسیر و تجوید کے ساتھ آن لائن پڑھانے لگیں۔ یہ دونوں خواتین کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور بلا معاوضہ صدقۂ جاریہ کے لیے سوشل میڈیا پر یہ کام کررہی ہیں۔ ان دونوں کو بہت خوشی ہوتی ہے جب ہم کلاس کا سبق‘ تفسیر اور آیات کا ترجمہ سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ ہمارا اور اللہ کا معاملہ ہے‘ اگر ہم اپنی کلاس کا سبق سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ دیکھو! یہ لوگ دکھاوا کررہے ہیں‘ اپنی نیکی ضائع کررہے ہیں اور یہ ہوا بھی‘ لوگوں نے دل کھول کر طعنے دیے‘ میں بہت پریشانی میں مبتلا ہوئی‘کسی نے میرے دوپٹے کو نامکمل کہا اور برقع کا مشورہ دیا، کسی نے کہا کہ مجھے سوشل میڈیا ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ کسی نے کہا: میں قرآن کلاس کی یوں تشہیر کرکے اپنی نیکیاں ضائع کررہی ہوں۔ میں لوگوں کی باتیں سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ اس وقت میری استاذہ نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا کہ آپ کو لاکھوں لوگ سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں‘آپ وہاں کیا شیئر کرتی ہیں؟ میں نے کہا کہ اپنے کالمز اس کے ساتھ کبھی وی لاگز ۔ اب تصاویر لگانا کم کردی ہیں اور ہاں کبھی قدرتی نظارے اور میمز اور اکثر ملک کے حوالے سے کوئی مثبت پوسٹ وغیرہ۔ ان دونوں نے پوچھا: کیا اس پر تنقید آتی ہے؟ میں نے کہا: بہت کم ایسا ہوتا ہے بلکہ کبھی کسی شاعر کا ایک شعر پوسٹ کروں تو لوگ کمنٹس میں پورا پورا دیوان لکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا: جب آپ دین کی طرف آتے ہیں‘ شیطان آپ کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے، کچھ شرپسند لوگوں آپ کو تنگ کرتے ہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ کریں‘لہٰذا دل چھوٹا نہ کریں اور نشر واشاعت میں حصہ لیں‘یہ صدقۂ جاریہ ہے کہ اللہ کے پیغام کو نشر کیا جائے۔ اس کے بعد میں نے ناقدین کی پروا چھوڑ دی اور اب اکثر آیات کا ترجمہ‘ تفسیر اور دعائیں سوشل میڈیا پر شیئر کرتی رہتی ہوں۔ میں کوئی عالم نہیں لیکن قرآنِ مجید کے طالبعلم اور ایک مسلمان کی حیثیت سے لوگوں تک معلومات پہنچانا ہم پر لازم ہے۔
سوموار کو بھی ایسا ہی ہوا کہ کلاس ختم ہوئی تو میں دعائیں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے لگی مگر دیکھا کہ وٹس ایپ پر سٹوری سٹیٹس نہیں اَپ لوڈ ہورہا‘ نہ ہی قریبی جاننے والوں کے نمبر پر میسج جا رہا تھا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی‘ انٹرنیٹ چیک کیا تو وہ بالکل ٹھیک چل رہا تھا۔ پھر فیس بک پر پوسٹ کرنے لگی تو وہاں بھی یہی مسئلہ آیا۔ میں سوچنے لگی کہ یہ فیس بک اور وٹس ایپ فیڈ کیوں نہیں کام کر رہیں۔ وائی فائی چھوڑ کر میں نے موبائل ڈیٹا آن کر لیا کہ شاید انٹرنیٹ میں کچھ ایشو ہے مگر دیکھا کہ انسٹا گرام بھی بند ہے۔ اس پر مجھے لگا کہ شاید کوئی زیر سمندر نیٹ کیبل کا مسئلہ آ گیا ہے، مگر جب ٹویٹر اوپن کیا تو پتا چلا کہ فیس بک‘ انسٹاگرام اور وٹس ایپ ڈاؤن ہیں۔ ان فورمز کے صارفین بھی ٹویٹرپر آگئے اور حیرت کا اظہار کرنے لگے کہ کیا اب فیس بک لیکس اور وٹس ایپ لیکس بھی سامنے آئیں گی؟ کیا ان ایپس پر ہیکرز کا حملہ ہوا ہے؟اس موقع پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرنے باقی ایپس کی خوب کلاس لی‘ ان کا مذاق بنایا اور ٹویٹر کے مالک 'جیک ڈورسے‘ نے بھی ٹویٹس کرکے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ان تینوں ایپس کی بندش سے ان لوگوں کو کافی نقصان ہوا جو پروفیشنل لائف میں ان ایپس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ جن کیلئے یہ ایپس ذریعۂ معاش ہیں ان کیلئے بھی یہ تکلیف دہ وقت تھا کہ وہ کام کرنے سے قاصر تھے اور ان کا مالی نقصان ہورہا تھا۔ دنیا سے رابطہ کٹ جانے کی الگ تکلیف تھی۔ وڈیو کال اور وائس کال بھی نہیں ہو رہی تھی‘میسج نہیں ڈلیور ہورہے تھے ۔ پاکستانی وقت کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب تقریباً تین بجے یہ تینوں سروسز بحال ہوئیں۔ صارفین نے سکھ کا سانس لیا اوران کی زندگی معمول پر آئی ۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ یہ ایپس زندگی کیلئے کتنی لازمی ہوگئی ہیں اور ان کے بغیر گزارہ کتنا مشکل ہے۔ کتنے ہی صارفین یہ کہتے رہے کہ ان ایپس کی بندش کی وجہ سے ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ ٹویٹر پر دل کا حال بیان کرتے رہے اور فیس بک‘ وٹس ایپ کے مالک مارک زگربرگ کو کوستے رہے کہ اس کی ٹیم کی وجہ سے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ خبروں کے مطابق چند گھنٹوں کی اس بندش کے باعث فیس بک کے بانی مارک زگربرگ کو لگ بھگ چھ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ ان کمپنیوں کے شیئرز مارکیٹ میں گرگئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ڈی این ایس سرور میں خرابی اس بندش کی وجہ بنی۔ سوچیں اگر 24 گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ بند ہوجائے تو دنیا کیا کرے گی؟ شاید ہم پاکستانی اس وقت بھی نہیں گھبرائیں گے کیونکہ لوڈشیڈنگ‘ سلو انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کی بندش جیسے مسائل کی ہمیں عادت ہے۔
جہاں ان ایپس کا منفی استعمال عام ہے‘ وہاں ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ رابطے کا ذریعہ ہیں اور دنیا بھر کے انسانوں کو جوڑے رکھتی ہیں۔ انسان تنہائی سے گھبرا جاتا ہے‘ اس لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتا ہے تاکہ تنہائی کو کم کرسکے‘ دنیا بھر کی سیر کرلے‘ سب جاننے والوں کی خبر لے‘ خریداری بھی کرلے اور بات چیت بھی ہوجائے مگر ان سارے جھمیلوں میں یہ نہ بھول جائیں کہ گھر میں موجود افراد کو بھی آپ کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ اصل زندگی میں بھی رشتے داروں‘گھر والوں اور دوستوں کو وقت دیں‘ کب کون دنیا سے چلا جائے‘ کچھ معلوم نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved