تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     08-10-2021

مشینی الیکشن کا منصوبہ

پہلے تو وزیروں نے عجزونیاز سے کام لیا اور اعظم سواتی، فواد چودھری اور شبلی فراز چیف الیکشن کمشنر سے ملے اور انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ اس منصبِ جلیلہ پر ہماری عنایات سے براجمان ہیں۔ اُدھر سے جواب آیا، حضور! ہم نے تو ایسی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ الیکشن کمشنر بنیں گے۔ اُن کا انتخاب خالصتاً وزیراعظم عمران خان کی چوائس تھا جس کی قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے تائید کی تھی۔ بہرحال چیف الیکشن کمشنر نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور اوورسیز پاکستانیوں کی الیکشن میں شرکت کے بارے میں وزرا کے تخیلاتی موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
وزرا جب ''شیریں کلامی‘‘ سے چیف الیکشن کمشنر کو اپنے ڈھب پر لانے میں ناکام ہوئے تو انہوں نے مرزا اسداللہ خان غالبؔ کی پیروی کرنے کا فیصلہ کرلیا
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے
اس فیصلے کے بعد وزرا بالخصوص اعظم سواتی نے چیف الیکشن کمشنر پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے۔ اُن کا ساتھ فواد چودھری اور شبلی فراز نے بھی دیا۔ مگر وزرا کو معلوم نہ تھاکہ اُن کا پالا ایک پہاڑ سے پڑا ہے۔ ان بلا ثبوت تابڑتوڑ حملوں کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے کسی جذباتیت کا مظاہرہ نہ کیا اور قانونی تقاضوں کے عین مطابق وزرا کو نوٹس جاری کردیا کہ پندرہ روز کے اندر اندر اپنے لگائے ہوئے الزامات ثابت کریں ورنہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اگر وزرا ذہانت اور سمجھداری سے کام لیتے تو انہیں ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے رویے کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔ یہ الیکشن دراصل دوطرفہ ٹیسٹ تھا۔ حکومت نے تقریباً 20 پریذائیڈنگ افسروں کو اغوا کرکے الیکشن کمشن کے ردعمل کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اُدھر چیف الیکشن کمشنر کو جب یہ اطلاعات ملیں کہ یہاں پریذائیڈنگ افسروں کے اغوا سے بھی کہیں بڑھ کر پولنگ ڈے کو دھاندلی ہوتی رہی تو انہوں نے اپنی اور کمیشن کی ساکھ اسٹیبلش کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اندازہ ہو جائے کہ اب الیکشن کمیشن کا سابقہ کلچر اور تاثر یکسر بدل چکا ہے۔
الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو الیکٹرانک ووٹنگ کے بارے میں جو رپورٹ بھجوائی تھی اسے میں نے براہِ راست پڑھا ہے۔ یہ رپورٹ 37 نہیں 34 نکات پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کی جامعیت سے لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور اُن کی ٹیم نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کی تمہید میں الیکشن کمیشن نے لکھا ہے کہ دیانتدارانہ، منصفانہ اور صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی دستوری ذمہ داری ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک نہیں کم از کم تین چار قسم کی مشینیں درکار ہوں گی۔ ہماری آبزرویشن کے مطابق الیکٹرانک اور روایتی سسٹم ساتھ ساتھ چلیں گے اور یوں کام جلدی نمٹنے کے بجائے تاخیر سے نمٹے گا۔ رپورٹ کے چند اہم ترین نکات میں اپنے قارئین سے شیئر کروں گا:
٭ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ نظام انتہائی مہنگا ہوگا۔ ایک لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر 4 لاکھ پولنگ بوتھوں کیلئے تقریباً 9 لاکھ مشینیں درکار ہوں گی جبکہ اس مشین میں بائیومیٹرک سسٹم نہ ہونے کی بنا پر بائیومیٹرک مشینوں کا الگ انتظام کرنا پڑے گا۔ گویا نئی مشینوں کو پرانے سسٹم کی سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔ ان مشینوں کے علاوہ بہت بڑے پیمانے پر سٹوریج کی سہولتیں بھی فراہم کرنا ہوں گی۔ تربیتی عملے اور لاکھوں کی تعداد میں افرادِ کار کو مشینی سسٹم کی ٹریننگ پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اندازے کے مطابق مشینوں اور ٹرینرز وغیرہ کی فراہمی پر 150 ارب روپے کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ بعض کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ مشینیں صرف ایک بار ہی استعمال ہو سکیں گی اور کچھ کمپنیوں کا کہنا یہ ہے کہ ہماری مشینیں دو سے تین بار تک استعمال ہو سکیں گی۔
٭ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں یہ بات بہت اجاگر کی گئی ہے کہ ان مشینوں کے استعمال سے فراڈ اور دھاندلی کا تدارک نہ ہو سکے گا۔ دھاندلی کی متعدد پرانی اشکال جیسے پولنگ بوتھوں پر قبضہ، خواتین پولنگ بوتھوں پر کم ٹرن آئوٹ، دھاندلی کے لیے حکومتی مشینری کا استعمال، الیکٹرانک بیلٹ فراڈ، ووٹوں کی خریداری، قانون کی عملداری میں خلل اندازی، بددیانت پولنگ سٹاف، سیاسی گروہوں کی پرتشدد کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں گی‘ البتہ ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مشینوں کے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر میں بھی فراڈ کے کئی امکانات موجود ہیں۔
٭ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان مشینوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے استعمال سے رزلٹ فی الفور تیار ہو جائے گا۔ یہ خیال خلافِ واقعہ ہے۔ ایک پولنگ سٹیشن پر زیر استعمال مشینیں فوراً رزلٹ تو دے دیں گی مگر پھر ان سب مشینوں کے نتائج کو جمع کرکے ریٹرننگ آفیسر کو بھیجا جائے گا۔ رزلٹ کی یہ ترسیل شخصی طور پر کی جائے گی یا انٹرنیٹ کی دستیابی کی صورت میں وٹس ایپ کو استعمال کیا جائے گا۔ ریٹرننگ آفیسر ان سب نتائج کی تصدیق کرے گا اور پھر قومی یا صوبائی حلقے کے تمام پولنگ سٹیشنوں کے نتائج جمع کرکے الیکشن کمیشن بھجوائے گا۔ اس طرح یہ نتائج فوری نہیں ہوں گے بلکہ پہلے کی طرح انسانی ہاتھوں سے گزر کر ''تاخیری‘‘ ہی ہوں گے۔
٭ رپورٹ کے مطابق یورپ اور شمالی امریکہ الیکٹرانک مشینوں کا استعمال ترک کر رہے ہیں جبکہ برازیل اور انڈیا اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں۔ جرمنی، فرانس، نیدرلینڈ، آئرلینڈ، اٹلی اور فن لینڈ نے انتخابات میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال بند کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا میں صرف 9 ممالک ان مشینوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا یہ ہے کہ 2023ء کے الیکشن میں الیکٹرانک مشینوں کا استعمال کسی طرح بھی قابل عمل نہیں۔ کمیشن کی رپورٹ پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پہلے لوکل باڈیز الیکشن، ضمنی انتخابات اور چند حلقوں میں تجرباتی طور پر مشینوں کو استعمال کیا جائے کسی جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ پڑوسی ملک نے الیکٹرانک مشینوں کو رائج کرنے پر بائیس سالہ کا طویل عرصہ لگایا ہے جبکہ ہماری حکومت یہ کام آنِ واحد میں کرنا چاہتی ہے۔ سب سے اہم نکتہ حکومت اور اپوزیشن کا باہمی اعتماد ہے۔
معاملہ صحافیوں کا ہو، سرکاری ملازموں کا ہو، میڈیکل طالب علموں کا ہو، یکطرفہ نیب آرڈیننس کا ہو حکومت ہر شعبے کو بلڈوز کرکے اپنی من مانی کرنا چاہتی ہے۔ مگر ایسا وہ پہلے کر پائی ہے نہ اب کر سکے گی۔ جناب وزیراعظم کو کچھ وزرا نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹوں کا سبز باغ دکھایا ہے جو ایک سراب سے زیادہ نہیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو اس کا حکومت کو کچھ فائدہ ہو سکتا تھا مگر حلقہ جاتی انتخابی نظام میں ان بکھرے ہوئے ووٹوں کا کوئی فائدہ نہیں۔
جہاں تک میرا اندازہ ہے کہ اگر حکومت نے اپنی غیرمعیاری الیکٹرانک مشینوں کو پارلیمانی اتفاق رائے کے بغیر بزورِ شمشیر رائج کرنے کی کوشش کی تو خودمختار الیکشن کمیشن اس کی بھرپور مزاحمت کرے گا اور عوام بھی مشینی انتخابات اور ان کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved