یہ اُس سنہری زمانے کی یاد ہے جب یہ خواہش ہوتی تھی کہ فراغت کا کوئی لمحہ میسر ہو، ایک کتاب ہو اور باغ کا کوئی کونہ ہو جہاں ایک خوشبودار ماحول میں مطالعے کا لطف اٹھایا جا سکے۔ اب یہ ایک قصۂ پارینہ اور خیالِ خام سے زیادہ کچھ نہیں۔ اب فراغت میسر ہو بھی تو ہم موبائل فون لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور چل سو چل۔ کتاب کلچر ختم ہو چکا ہے، خاص طور پر خرید کر کتاب پڑھنا۔ کتابیں ویسے بھی ناپید ہوتی جا رہی ہیں کہ جہاں کتابیں بکا کرتی تھیں‘ اب وہاں جوتوں کی دکانیں ہے حالانکہ موبائل فون کی بیماری جہاں سے آئی ہے‘ وہاں کتاب اب بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ بس میں سفر ہو رہا ہے، رش کی وجہ سے ایک ہاتھ سے چھت کا ڈنڈا پکڑا ہوا ہے اور دوسرے میں کھلی کتاب۔
کتاب پر بُرا وقت آنے کی مختلف وجوہات میں سب سے اہم کاغذ کی مہنگا ئی ہے جبکہ کاغذ کے ساتھ ساتھ روشنائی سمیت ہر اس چیز پر ٹیکس عائد ہے جو کتاب کی تیاری میں کام آتی ہے۔ ناشر کتاب چھاپنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے، مصنف کو رائلٹی دینا تو بہت دور کی بات ہے، ہر مصنف ناشر کو پیسے دے کر کتاب چھپواتا ہے جس میں ناشر اپنا مارجن بھی رکھتا ہے اور اپنا رسک بھی کور کرتا ہے اور مصنف کے حصے میں صرف کتابیں آتی ہیں جنہیں وہ اپنے ملنے والوں میں مفت تقسیم کرتا ہے اور اسی طرح مفت کتاب پڑھنے کی روایت مزید راسخ ہوتی ہے۔
حکومتوں کو علم و دانش کے ساتھ اتنی ہی دلچسپی ہے کہ وہ کتاب کی تیاری میں کسی بھی کام آنے والی کسی بھی چیز پر ٹیکس کی چھوٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ لٹریچر گویا حکومت کی کسی ترجیح میں شامل ہے، نہ ہی یہ کسی اور کا دردِ سر ہے۔ تاہم ہر فرعونے را موسیٰ کے مصداق امید کی ایک کرن ضرور وجود میں آئی ہے۔ حسین مجروحؔ جو اپنے استحقاق میں ایک روشن خیال ادیب ہیں‘ نے اس نا ممکن کام کو ممکن بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انہوں نے ملک کے قدیم ترین ادبی جریدے ادبِ لطیف کو اپنی ادارت کے چند ماہ میں معیار کی جن بلندیوں تک پہنچایا ہے‘ ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ یہ معرکہ بھی سر کر لیں گے۔ انہوں نے سائبان تحریک (کتاب پڑھیں، خرید کر پڑھیں) کے عنوان سے ایک بروشر شائع کیا ہے جس میں کھول کر بیان کیا ہے کہ وہ اس مسئلے سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتے ہیں جس کے مرحلۂ اول کے ترجیحی زاویوں کے مطابق:
الف۔ کتاب اور جریدہ کلچر کے فروغ کے لیے مفت خوری کے رجحان کی حوصلہ شکنی اور کتاب اور رسالہ خرید کر پڑھنے کی عادت۔
ب۔ ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت و فروغ کے لیے ایک مربوط نظام کی تشکیل۔
پ۔ ادیبوں اور جرائد کے استحصال کی مختلف صورتوں کی بیخ کنی اور ان کے مقام و اعتراف کے باب میں عملی اور راست اقدام۔
ت: جرائد کی اشاعت و فروخت اور قاری تک رسائی میں عملی معاونت۔
ٹ۔ ادیبوں کے ساتھ نا انصافی، ان کی جائز شکایات اور ان کی توہین کے خلاف راست اقدام۔ نیز کتاب کلچر، جس میں جرائد بھی شامل ہیں، کے معاشرتی اور اداراتی فروغ کے لیے عملی اقدام و تگ و دو۔
ث۔ ادب اور اس سے متعلقہ عمومی معاملات پر با معنی مکالمت اور متعلقہ حلقوں سے رابطے اور مؤثر پیروی/ ادبا کی حیلہ گری۔
ج۔ نوجوان ادیبوں کی رہنمائی اور تربیت کے سامان پیدا کرنا اور ان کے لیے راستے بنانے کی مساعی۔
چ۔ خواتین ادیبوں کے مسائل اور مشکلات کا تدارک، نیز ان کے لیے ہر سطح پر سازگار ماحول بنانے اور احترام کی فضا بنانے کا اہتمام۔
ح۔ ادبی تنظیموں اور کارکنوں کی معاونت اور حوصلہ افزائی کی صورت گری۔
خ۔ علمی اور تہذیبی/ ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ۔
اس کے لیے موصوف نے اس منصوبے میں مالی معاونت کی بھی اپیل کی ہے جس میں اپنے حصے کے طور پر انہوں نے تحریک کے لیے 3 لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔
آپ اپنی قیمتی آرا اور تجاویز اس فقیر کو وٹس ایپ پر یا برقی ڈاک کے ذریعے ارسال کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ استفسارات، رائے اور خدشات کے عنوان سے الگ حصہ ہے اور آخر میں آپ سائبان تحریک کے لیے کیا کر سکتے ہیں کے عنوان سے تجاویز۔
اور، اب آخر میں عامر سہیل کی غزل:
گُل اور کِھلے، گلدان ہوئے
جب ہونٹ ترے مہمان ہوئے
کچھ مشکل مشکل چہرے تھے
جو رات گئے آسان ہوئے
وہ حُوروں اور زبوروں سی
ہم عبد ہوئے، انسان ہوئے
شب کا کل بیت گئی ساری
دن چڑھنے تک احسان ہوئے
اُن سبز سفاری آنکھوں میں
جی سکتی ہو‘ حیران ہوئے
ہم دیر کوئی تنہائی کی
ہم تیز کوئی طوفان ہوئے
اک مریم کی آواز بُنی
اک گڑیا سے پیمان ہوئے
آواز رو دی شاخوں کی
جب سینے آتشدان ہوئے
جب اک چہرے کا قحط پڑا
جب کاجل نافرمان ہوئے
آج کا مقطع
سحر ہوئی تو، ظفرؔ، دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے