دنیا دیکھ دیکھ کر حیران و پریشان ہے۔ بھلا کیوں نہ ہو؟ ہم ایسے ہی تو واقع ہوئے ہیں کہ جیسے قسم کھا رکھی ہے کسی بھی معاملے میں خود کو نہ بدلنے کی۔ وقت جب رنگ بدلتا ہے تو اُس کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ہر انسان کو وقت کا ساتھ دینا پڑتا ہے، خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ قوموں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کو دیکھیے، اُس کے تمام بنیادی و کلیدی معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ خود کو بدلتے رہنے ہی سے کچھ کر پایا‘ کچھ پاسکا۔ جو افراد وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے سے گریزاں رہتے ہیں وہ سب سے پیچھے رہتے ہیں۔ یہی معاملہ معاشروں اور قوموں کا بھی ہے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ واقع ہوئے ہیں جسے دنیا بھر کی خرابیوں نے ڈھونڈ کر محض ٹھکانہ نہیں بنایا بلکہ یہاں خود کو خوب پروان بھی چڑھایا ہے۔ اب حالات و واقعات کی نوعیت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ بعض اچھائیوں کے باوجود کسی بھی معاملے کی کوئی ایک کَل بھی سیدھی دکھائی نہیں دیتی۔ قدم قدم پر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید فکر و عمل کے اعتبار سے ہماری نبضیں ڈوب چکی ہیں اور اب احیا کی کوئی امید نہیں۔ یہ مایوسی کی سوچ ہے جو آج عوام کی اکثریت کی فکری ساخت کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہے۔
اگر زندگی کو زیادہ پُرآسائش بنانے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ زندگی کو آسائشوں سے ہم کنار و آراستہ کرنے کی ہر کوشش ہم سے بہت کچھ مانگتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں صرف بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہیں۔ تھوڑی بہت آسائش کا اہتمام کرنا ہو تو انسان کو اعصاب شکن محنت کرنا پڑتی ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں کا یہی حال ہے۔ وہاں عام آدمی کو اگر تھوڑی بہت آسائشیں یقینی بنانا ہوں تو اس قدر محنت کرنا پڑتی ہے کہ پورا وجود شدید تھکن محسوس کرنے لگتا ہے۔ قوانین کی تعمیل کے معاملے میں سختی اس قدر ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی رعایت نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہفتے کے پانچ دنوں کی اعصاب شکن محنت و مشقت کے بعد جب ہفتہ یعنی سنیچر آتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی تہوار منانے کا موقع مل رہا ہو! معاشی سرگرمیاں ترک کرکے ہفتے کو خوب محظوظ ہونے کے بعد اتوار کو نیند پوری کی جاتی ہے تاکہ پیر کی صبح سے دوبارہ بھرپور محنت و مشقت کا نیا پانچ روزہ سلسلہ شروع کیا جاسکے۔ یہ سب کچھ چونکہ معمول ہے اِس لیے زندگی کا حصہ ہے اور لوگ سخت محنت کے عادی ہوچکے ہیں۔
ہمارے ہاں لوگ اب تک اصولوں کے مطابق کام کرنے اور اعصاب شکن محنت کے مرحلے سے گزرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کرسکے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ محنت نہیں کرتے یا مہارت کے حصول اور مظاہرے سے گریزاں رہتے ہیں۔ کم و بیش ہر شعبے کے ماہرین ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ مسئلہ اتنا ہے کہ ہم باقی دنیا بالخصوص ترقی یافتہ معاشروں سے کوئی تحریک پانے کے لیے تیار نہیں۔ ہم بہت کچھ حاصل کرنے کے متمنی ہیں اور اِس کے لیے میدانِ عمل میں بھی اترتے ہیں مگر متعلقہ اصولوں اور قوانین و قواعد کا احترام نہیں کرنا چاہتے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ لوگ دن بھر محنت کرتے ہیں مگر اصولی انداز کی محنت سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ ہاتھ آئی ہوئی کامیابی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں طے شدہ یا مروّج عالمی معیارات کا احترام کرنے سے گریز نے ہمیں اقوامِ عالم کی نظر میں اس قدر گرادیا ہے کہ اٹھنے اور سینہ تان کر سامنے آنے میں خاصا وقت لگے گا۔ معاشرتی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں نے ہر معاملے کو الجھا دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ بہت سی خوبیاں بھی دھندلا گئی ہیں۔ جب آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو تب بہت سی اچھائیاں بھی بُرائیوں کی گرد سے اَٹ جاتی ہیں۔ ایسے میں کسی بھی کام کے لیے کی جانے والی سر توڑ اور اعصاب شکن محنت رنگ لانے میں خاطر خواہ حد تک کامیاب نہیں ہو پاتی۔ معاشرے بگڑے ہوئے ہوں تو لوگ اپنے اچھے کام کو بھی غیر محسوس طور پر بُرا بنا ڈالتے ہیں۔ معاملہ یہاں تک بھی ہو تو کوئی بات نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بُرائی کو بُرائی سمجھنے کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں یہی تو ہوا ہے۔ ایک طرف تو لوگ جرم کو جرم اور گناہ کو گناہ سمجھنے سے گریزاں ہیں اور دوسری طرف کسی بھی معاملے میں برتی جانے والی کوتاہی اور لاپروائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابی کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی گریزاں رہتے ہیں ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ڈیل کارنیگی کا شمار اُن مصنفین اور مقررین میں ہوتا ہے جنہوں نے عام آدمی کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کا بیڑا یوں اٹھایا کہ ایک دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے خاموش انقلاب برپا کیا۔ ڈیل کارنیگی کی تحریر و تقریر سے ایک زمانے کو کچھ کرنے کی تحریک ملی۔ ان کا ایک جملہ حُسنِ اختصار کا شاہکار ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انہوں نے کوزے میں سمندر سمودیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں‘ ذمہ دار تو آپ ہی ہیں! ہر انسان کے کچھ خیر خواہ ہوتے ہیں اور بہت سے بدخواہ۔ بدخواہوں سے تو کسی خیر کی امید رکھی ہی نہیں جاسکتی۔ ہاں! خیرخواہ بھی‘ ایک خاص حد تک‘ آپ کا بھلا صرف اُس وقت کرسکتے ہیں جب آپ بھی اپنا بھلا چاہتے ہوں۔ ڈیل کارنیگی نے جس جملے میں ایک پوری کتاب سمودی ہے وہ یہی تو ہے کہ کسی بھی معاملے میں ہم قصور وار ہوں یا نہ ہوں، یہ تسلیم کیے ہی بنے گی کہ ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ جب ہم اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تب اصلاح کی صورت نکلتی ہے۔ مثلاً کوئی دوست آپ کو دھوکا دے جائے یعنی اُدھار کے طور پر لی ہوئی رقم ڈکار جائے یا آپ کی کوئی قیمتی چیز چُرالے تو اِس میں کہیں بھی آپ کا کوئی قصور نہیں مگر اس حقیقت کو تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ آپ نے پہچاننے میں غلطی کی۔ کسی نے اگر آپ کو دھوکا دیا ہے تو اِس لیے کہ آپ اُسے پہچاننے میں‘ پرکھنے میں ناکام رہے اور اُسے اپنے قریب آنے کا موقع دیا۔
انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی بھر دھوکا کھاتا رہتا ہے، اس پر شدید ردِ عمل بھی ظاہر کرتا ہے، مشتعل بھی ہوتا ہے مگر کبھی کچھ دیر ایک طرف بیٹھ کر اُن عوامل کے بارے میں نہیں سوچتا جو اُسے دھوکا کھانے کی منزل تک لے جاتے ہیں۔ تعلقات معاشی ہوں یا معاشرتی، اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے‘ کہ محتاط رہا جائے، ذہن سے کام لینے کا سلسلہ ترک نہ کیا جائے اور اپنی کوتاہی یا غفلت قبول کرتے ہوئے آئندہ کسی ناموافق صورتِ حال سے بچنے پر توجہ دی جائے۔ یہ سب کچھ بہت مشکل ہے مگر مرحلہ وار کام کرنے سے آسان بنایا جاسکتا ہے۔ اصلاح فرد کی مطلوب ہو یا معاشرے کی، ناموافق نتائج پیدا کرنے میں عجلت کا بھی وہی کردار ہوتا ہے جو منصوبہ سازی کے فقدان کا ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان یا معاشرے کے لیے سب سے مشکل مرحلہ ہے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاح پر مائل ہونا۔ جب تک کوئی بضد ہو کہ اُس نے کوئی غلطی نہیں کی یا کہ اُس کے فکر و عمل میں کوئی خامی و خرابی نہیں تب تک اصلاحِ احوال کی صورت نکل نہیں سکتی۔ آج کا ہمارا معاشرہ طرح طرح کی خرابیوں سے اَٹا ہوا ہے۔ خامیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ ہم سب اپنی خامیوں، خرابیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں، اُن کی ذمہ داری قبول کریں۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر اصلاح کی صورت نکل سکے گی۔ زیاں سے بچنے کے لیے احساسِ زیاں بنیادی شرط ہے۔