تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     10-10-2021

لمحۂ فکریہ

بار بار سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ جیسی ریاست بنایا جائے گا۔ اب یہ بات بولتے ہوئے تو دو سیکنڈ لگتے ہیں‘ لیکن اس بات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے بولنے والے کا کردار، اس کے آس پاس کے لوگوں کا کردار بھی بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے نبیﷺ نے جس ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں جو بہترین نظام قائم کیا تھا‘ اس نظام میں عدل و انصاف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپﷺ نے چوری کے ایک مقدمے میں سفارش کیے جانے پر فرمایا تھا: اگر فاطمہ بنت محمدﷺ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں جس طرح عدل کا بول بالا ہوا اور جس طرح سب کو انصاف ملا‘ یہی عدل و انصاف اسلام کے مقبول ترین مذہب بننے کا موجب بنا۔ حضرت عمرؓ کے کپڑوں والی مثال تو سب نے سنی ہو گی جس میں ایک عام آدمی نے ان پر اعتراض کیا تھا اور انہوں نے باقاعدہ جواب دیا اور اس بندے کو مطمئن کیا تھا کہ کُرتے کے لیے اضافی کپڑا کہاں سے آیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ کا بیٹا اونٹوں کے خرید و فروخت کا کاروبار کرتا تھا۔ بیٹے نے اپنے اونٹ وہاں رکھے ہوئے تھے جہاں دوسرے مسلمانوں کے اونٹ بھی چرتے تھے۔ ایک دن حضرت عمرؓ کا وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ان کے بیٹے کے اونٹ باقی لوگوں کے اونٹوں سے توانا اور تازہ ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ تمھارے اونٹ تازہ اور توانا کیسے ہیں؟ بیٹے نے جواب دیا کہ میں نے ایسا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا‘ جس سے میرے اونٹ باقی اونٹوں سے زیادہ صحت مند ہوں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ضرور یہاں پر موجود لوگوں نے میرے اور تمہارے تعلق کی وجہ سے آپ کے اونٹوں کا زیادہ خیال رکھا ہو گا، لہٰذا آپ جب اونٹ فروخت کریں گے تو صرف اتنے ہی پیسے لیں گے جتنے میں باقی لوگوں کے اونٹ فروخت ہوں اور زائد پیسہ بیت المال میں جمع کرائیں گے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے جلیل القدر اصحاب کو بھی معمولی شکایتوں پر انکے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ ان سب باتوں کا مطلب یہ ہے کہ ریاست مدینہ میں سپہ سالاروں، گورنروں، امرا، حاکموں اور عام لوگوں کیلئے بالکل یکساں نظام تھا، کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں تھا۔ قوانین کی پاسداری سب پر لازم تھی۔ اس معتبر ریاست‘ جس کی ہمارے حکمران مثالیں دیتے نہیں تھکتے‘ میں قوانین اور حدود کی خلاف ورزی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور ہر شہری کو اسکے حقوق ملتے تھے۔
ہمارے ملک میں اس دنیا کی سب سے پہلی منظم اور فلاحی ریاست کی باتیں بہت ہوتی ہیں اور کہا جاتا ہے پاکستان کو بھی ویسا ہی خوش حال اور آسودہ بنا دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر سیرت النبیﷺ کونسل بنائی گئی ہے جس کا مقصد عوام‘ بالخصوص نوجوانوں کی رہنمائی کرنا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب اس کونسل کے سربراہ ہیں۔ وزیرِ داخلہ شیخ رشید صاحب کہتے ہیں‘ جب تک اس ملک میں مساجد اور مدرسے آباد ہیں‘ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو شکست نہیں دے سکتی، انہوں نے سیکرٹریٹ میں ایک جامع مسجد کا افتتاح بھی کیا ہے۔ اب یہ بڑی اچھی باتیں اور بہترین مثالیں ہیں‘ ایسا ہونا چاہئے بلکہ سب کو ایسے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے‘ لیکن ہمارا ملک اس معتبر ریاست کی طرز پر اس وقت استوار ہو گا جب حکمران اصل مسئلوں کے حل کی طرف بھی آئیں گے۔ وہ مسائل جن کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود سے ہے۔ لوگوں کی ترقی اور فروغ سے ہے۔ انہیں عدل اور انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرنے سے ہے۔ انہیں معاشی لحاظ سے مضبوط بنانے سے ہے۔ یہاں پر کچھ ایسے مسائل ہیں جن کو عام‘ عوام تو دیکھ سن سکتے ہیں لیکن اشرافیہ کی ابھی تک ان پر نظر نہیں پڑی۔ نظر پڑی ہے تو ان سے نظریں چرائی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسائل آج بھی حل طلب ہیں۔ مثالیں تو کئی ایک پیش کی جا سکتی ہیں اور قارئین کے مشاہدے میں بھی بہت سی ہوں گی‘ لیکن میں یہاں ایک واقعے یا معاملے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے اندازہ ہو گا کہ ہماری منزل کیا ہے اور ہم سفر کس رخ پہ کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہم پشاور جا رہے تھے تو سری نگر ہائی وے پر موٹر وے ٹول پلازہ تک پہنچنے میں ہمیں پونے دو گھنٹے لگ گئے۔ گرمی اور حبس میں طویل انتظار سے برا حال ہو گیا۔ ٹول پلازا سے گزرنے کے بعد جب ایک شخص سے پوچھا کہ اتنا رش کیوں ہے تو اس نے بتایا کہ اس علاقے میں کچھ لوگوں نے ایک ہائوسنگ سوسائٹی بنائی ہے‘ وہی لوگ ایک تبلیغی مرکز بھی بنا رہے ہیں‘ جس کا آج افتتاح ہے‘ اسی لیے رش ہے۔ یاد رہے کہ سری نگر ہائی وے اسلام آباد سے موٹر وے اور ایئر پورٹ تک پہنچنے کے لیے سب سے بڑی شاہراہ ہے اور اسی وجہ سے اس شاہراہ پر تقریباً ہر وقت گاڑیوں کا رش رہتا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ اس رش کی وجہ سے کتنے لوگوں کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی، کتنے لوگ ایئر پورٹ وقت پر نہیں پہنچ سکے ہوں گے، کتنوں کے ضروری کاموں میں تاخیر ہوئی ہو گی۔ بوڑھوں اور چھوٹے بچوں کی بات تو چلیں کرتے ہی نہیں ہیں‘ حالانکہ اذیت سے وہ بھی یقیناً گزرے ہوں گے۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رش میں پھنسی ہوئی کسی گاڑی میں کوئی مریض ہو‘ جسے فوری طبی امداد کی اشد ضرورت ہو یا کوئی ایسا لاغر مریض ہو جو اتنے طویل انتظار کی ہمت نہ رکھتا ہو۔
ایک سوال اور بھی ہے کہ مرکز کی تعمیر کیلئے کوئی سرکاری اجازت نامہ طلب کیا گیا تھا؟ یہ سوال اس لیے میرے ذہن میں ابھرا کہ یہ بات میرے مشاہدے میں ہے کہ کوئی بھی شخص جب گھر بناتا ہے تو اس کیلئے نقشہ پاس ہوتا ہے اور اسے کئی سرکاری مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر سب کچھ قانونی ہے تو پھر حکام کی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے عوام کی سہولت کیلئے کسی متبادل راستے کا انتظام نہیں کیا تھا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب حکومت اس مقدس ریاست کی بات کرتی ہے، تو وہاں یقینی طور پر کوئی قبضہ گروپ نہیں تھا‘ کوئی منشیات فروش نہیں تھا‘ کہیں کسی بھی مرحلے پر رشوت خوری نہیں ہوتی تھی‘ ہر فرد کو اس کا حق ملتا تھا‘ ملاوٹ کرنے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور ناانصافی حکمران کسی کے ساتھ ہونے نہیں دیتے تھے۔ ناانصافی سے یاد آیا کہ یہاں تو ایسے بھی لوگ ہیں جن کو جب انصاف ملا تو ان کو مرے عرصہ ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اقبال حسین نام کا ایک عام آدمی 21 سال جیل کاٹ کر باعزت بری ہوا۔ وہ جب جیل گیا اس وقت 17 سال کا نوجوان تھا اور جب جیل سے نکلا تو 38 سال کا آدمی تھا۔ جس دن اقبال حسین کو ان کے جیل میں کٹے جوانی کے 21 برس مل جائیں گے اس روز پاکستان بھی ایک عوامی اور فلاحی ریاست بن جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved