حسین اور مبہوت کن اجنبی دیاروں کو ایک سیاح کی آنکھ سے پہلی بار دیکھنے کا لطف کوئی مجھ سے بلکہ ہر سیاح سے پوچھے۔ ان دیکھی بستیاں، آنکھ پر پہلی بار کھلتے ہوئے منظر، تا حدِ نظر پھیلی دائیں بائیں مڑتی سڑکیں جن کا ہر موڑ اجنبی ہو، قدموں کو پہلی بار راستہ دیتی پگڈنڈیاں، خوشگوار ہوا کا پہلی بار گلے سے لپٹنے والا جھونکا، اور نئی مٹی، نئے پانیوں کی پہلی بار دل میں اترنے والی ملی جلی خوشبو۔ کوئی ایک چیز نہیں جس سے ملاقات کی جائے، جس کو دوست بنایا جائے۔ بہت سے مسافر نواز راہ میں شجر سایہ دار کی طرح ہوتے ہیں۔
21 ستمبر کو صبح نو بجے میں اسکودار، استنبول سے صبیحے گوک چن ایئرپورٹ جانے کیلئے اپنے عزیز ترک دوست ڈاکٹر عبدالحمید کی گاڑی میں بیٹھا استنبول کے لمبے لمبے ٹریفک جام پر جھنجھلا رہا تھا لیکن ذہن کا ایک حصہ ان دیاروں کو کھوج رہا تھا جن سے مجھے ابھی ملاقات کرنا تھی۔ استنبول میں منعقدہ کانفرنس اور ورکشاپ بخیروخوبی ختم ہو چکے تھے اور اب میں سیر سپاٹے کیلئے فارغ تھا۔ چند دن اسی لیے نکالے تھے کہ ترکی کے وہ شہر اور وہ علاقے دیکھے جائیں جہاں اب تک جانا نہیں ہوا۔ ویسے تو ترکی تمام تر ہی خوبصورت ملک ہے لیکن سیاحتی نقطہ نظر سے بھی اتنی بستیاں قابل دید ہیں کہ انتخاب مشکل ہو جاتا ہے۔ میرے لیے مسئلہ وقت کا تھا اور میں محدود وقت محض سفر کی تھکان کی نذر کرنا نہیں چاہتا تھا چنانچہ کئی دن سے تلاش اور معلومات کا حصول جاری تھا‘ جس میں ترک دوستوں نے بھی بہت مدد کی اور حتمی انتخاب انہی کے باعث ممکن ہوسکا تھا۔ ایک امکان یہ بھی تھاکہ بحر اسود یعنی Black sea کے کنارے بسی بستیوں کو دیکھا جائے لیکن بالآخر طے پایا کہ بحیرہ ایجین (Aegean) کے کنارے شہروں کی سیر کی جائے جن کی بہت تعریف سنی تھی اور ہوشربا تصویریں بھی نظر سے گزری تھیں۔ غالب نے کہا تھا:؎
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
غالب کی توقعات اور تھیں اور کشش بھی اور۔ ہماری توقع تو خوبصورت، دلدار، دلنواز بستیوں کی تھی‘ اور یہ کشش کیا کم ہوتی ہے؟ بودرم، داتچا، مرمریس، اچمی لیر۔ میں نے دل میں ان دلربا حسیناؤں کے نام دہرائے۔ یہ سب نام اجنبی تھے اور ابھی ان کا درست تلفظ بھی معلوم نہیں تھا‘ اورابھی ان کے نشیب وفراز بھی چند گھنٹوں کے فاصلے پر تھے۔صبیحے گوک چن ترکی ہی نہیں دنیا کی پہلی فائٹر پائلٹ مانی جاتی ہے۔ وہ کمرشل ہوابازی سے بھی منسلک رہی اور جنگی پروازوں سے بھی۔ 1913 میں برصہ میں پیدا ہونے والی، ایک یتیم لڑکی جسے کمال اتاترک نے اپنی کفالت میں لے لیا تھا‘ اورجو بعد میں تعلیم اور تربیت حاصل کرکے ایسے شعبے میں پہنچی جہاں خواتین کا دخل آج بھی بہت کم ہے۔ آج اس کے نام پر استنبول کا یہ ایئرپورٹ قائم ہے۔ ایئرپورٹ شہر سے خاصے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے مجھے بودرم (Bodrum) کی فلائٹ لینی تھی۔ ترکش ایئرلائن مقامی پروازیں ایک دوسرے نام سے چلاتی ہے۔ اب دنیا کی بہت سی ایئرلائنز مختصر وقت کی پروازوں میں مسافروں کو کھلانے پلانے کے چکر میں نہیں پڑتیں۔ اس کے بجائے وہ ٹکٹ کی رقم میں کمی کردیتی ہیں یا دیگر سہولیات پیش کردیتی ہیں اور یہ سوا گھنٹے کی فلائٹ بھی ایسی ہی تھی۔
اگر آپ ترکی کے نقشے کو دیکھیں تو استنبول سے نیچے جنوب مغرب کی طرف ترکی کا وہ رخ جو یورپ کی طرف ہے، بحر ایجین کے کنارے کنارے ہے۔ بحر ایجین وہ سمندر ہے جو ایشیائی ترکی کو یورپ سے جدا کرتا ہے۔ اگرچہ یونانی جزیرے قریب ہی سامنے نظر آتے ہیں جو یورپ میں واقع ہیں لیکن درمیان میں ایجین حائل ہے۔ ترکی اور یونان کے درمیان فیری سروس کی سہولت موجود ہے۔ بحر ایجین دنیا کے بڑے سمندروں کے مقابلے میں اتنا بڑا نہیں ہے اور آگے چل کر بحر روم سے مل جاتا ہے۔ ترکی کے اس صوبے کا نام مغلہ ہے اور اس میں کئی خوبصورت شہر ہیں۔ بودرم سرسبز پہاڑی ڈھلانوں پر بحر ایجین کے کنارے بسا ہوا چھوٹا شہر ہے۔ قدیم زمانوں میں اسے ہیلی کارنیسس کہا جاتا تھا۔ ترکی میں بودرم کے لفظی معنی تہ خانہ یا نشیب بتائے جاتے ہیں۔ قدیم زمانوں میں یہ اہم شہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پندرھویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگوں کے زمانے میں کروسیڈرز یعنی صلیبی جنگجوؤں نے بندرگاہ پر قلعہ تعمیر کیا جو اب تک موجود ہے۔ اسی قلعے میں زیرآب تاریخی آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ چھوٹا سا شہر ہے جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ یہاں کی کل آبادی ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے؛ چنانچہ سیاحوں کی آمدورفت جو بودرم کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے، ختم ہوجائے توشہر بالکل ہی سنسان سا ہوکر رہ جائے۔
پسند اپنی اپنی ہے بھئی۔ اگر دو شہر یکساں خوبصورت ہوں اور دونوں تک رسائی آسان ہو تو میں اس شہر کو ترجیح دوں گا جہاں ہجوم اور آبادی کم ہو۔ چھوٹے شہر نسبتاً خاموش، پر سکون اور پر کشش ہوتے ہیں۔ جون ایلیا کے الفاظ میں پر ماجرا بھی۔ جس شہر میں جتنی کم سیاحوں کی آمدورفت ہوگی اتنے ہی اس کے خدوخال زیادہ فطری اور زیادہ مقامی رنگ لیے ہوں گے۔ ترک شہروں میں استنبول کئی بار اور برصہ ایک بار دیکھ چکا تھا اس لیے اب اجنبی دیاروں کی کشش بلارہی تھی۔ یہ فیصلہ مشکل تھاکہ سیاحت کیلئے مشہور مقامات مثلاً انطالیہ، فتحیے، مرمریس، اچمی لیر، بودرم وغیرہ میں سے کن کا انتخاب کیا جائے‘ اورجس چیز نے حتمی فیصلے میں مدد دی تھی وہ بودرم کا چھوٹا مگر آسان رسائی والا شہر ہونا تھا۔ امید تھی کہ ایک تویہاں سیاح کم کم ہوں گے دوسرے سیاحوں کا سیزن بھی قریب الختم ہے اس لیے سکون اور سکوت دونوں سے ملاقات ہوسکے گی۔
لینڈنگ کیلئے جہاز سرسبز پہاڑیوں اور نیلے پانیوں کے درمیان پر جھکا کر ترچھا ہوا تونیلا سمندر اور نیلا آسمان یک جان ہونے لگے۔ بلندی سے زمین اور سمندر ایک دوسرے کی آغوش میں سمائے لگتے تھے۔ جہاز نے بلندی کم کی اورپھر چھوٹے سے خوبصورت ایئرپورٹ پراس پرندے نے سرمئی ٹرمک کو چھوا اور دھیرے دھیرے رک گیا۔ ایئرپورٹ پر اگرچہ بین الاقوامی پروازیں بھی اترتی ہیں لیکن فی الحال اسی جہازکے مسافراپنا سامان ڈھونڈ رہے تھے۔ چھوٹے ایئرپورٹ کا یہ فائدہ تو تھاکہ نہ طویل پیدل چلنا پڑا اورنہ سامان کی بیشمار خودکار بیلٹس میں سے اپنی بیلٹ ڈھونڈنی پڑی۔ جس ہوٹل میں بکنگ کروائی تھی اسی نے ایئرپورٹ ٹرانسفر کا بھی بندوبست کیا تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر آیا توڈرائیور اور تازہ ہواکا جھونکا منتظر تھا۔ میں ٹھنڈے موسم کی توقع کررہا تھا‘ لیکن یہ خوشگوار موسم تو استنبول جیسا ہی تھا۔ خوشگوار، نیم مرطوب، نیم گرم۔ جہاں آدھی آستینوں کی قمیص کھلکھلاتی شریر ہوا سے ملنے کے لیے سب سے بہتر رہتی ہے۔ گویا کوٹ یا جیکٹ تو کیا سویٹر کی بھی ضرورت نہیں۔ اگرچہ زیادہ سامان اسنتبول ہی میں چھوڑ دیا تھا لیکن میں خواہ مخواہ ہی گرم کپڑے لاد کر یہاں لے آیا۔ میں نے خود کو کوساکہ چلنے سے پہلے نیٹ پر بودرم کا موسم کیوں نہیں دیکھا تھا۔ راستے بھرمیں پہاڑی راستوں، سرسبز پہاڑیوں اور لاجوردی پانیوں کے منظر دیکھتا رہا۔ ایئرپورٹ شہر سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر تھا اور بحیرہ ایجین کے نیلے پانیوں اور سمندری خوشبو نے مسافر کے استقبال میں زیادہ دیر نہیں کی۔