تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-10-2021

قندوز کا المیہ اور داعش

افغانستان کے صوبہ قندوز میں نماز ِجمعہ کیلئے مسجد میں ﷲ کے حضور سجدہ ریز ہونے کیلئے جمع ہونے والے مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے‘ لیکن یہ کیسا اتفاق ہے کہ ادھر امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمن پاکستان پہنچتی ہیں اور ادھرافغانستان کے لیے سب سے افسوسناک سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ قندوز میں بربریت کا مظاہرہ کرنے والوں اور ان کے ہینڈلرزنے افغانستان کے امن کو سبو تاژ کرنے کی بھیانک سازش کی ہے‘ جس کے بعد ممکن ہے پورا مغرب یہ چلانا شروع کر دے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کو روکا نہیں جا رہا ‘مگر یہ تو اب راز نہیں رہا کہ کیرالہ ‘ اتر پردیش اور مہاراشٹر سے داعش کے لیے بھرتی ہوتی ہے اور بھارت ہی میں ان کی تربیت کے لیے بنائے گئے مراکز میں انہیں تربیت دینے کے بعدوسط ایشیائی ریاستوں اور دوسرے راستوں سے افغانستان میں داخل کرنے کے لیے انڈین خفیہ ایجنسی راء اور افغانستان کی این ڈی ایس کے سابقہ اہلکار پیش پیش رہتے ہیں‘ جن کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے۔ ہلیری کلنٹن نے داعش کی تخلیق کے متعلق اپنے انٹر ویو میں جو کچھ کہا تھا وہ بھی اس عالمی دہشت گرد گروہ کے بارے بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔ حقیقت میں داعش کے مقاصد تخلیق اب کسی کے لیے راز نہیں رہے ۔
شام ‘ لیبیا‘ عراق اورا فغانستان کو داعش کے ذریعے نشانہ بنایا رہا ہے۔یہ وہی ممالک ہیں جہاں امریکی اور اتحادی قوتیں یلغار کے ذریعے اپنا تسلط قائم نہیں کر سکیں نہ ہی وہاں کے عوام کے ذہنوں پر وہ اپنی چھاپ قائم کر سکے ہیں؛چنانچہ مغرب کی ناکامی اور پسپائی کے ساتھ ہی داعش کا مہلک وائرس ان ممالک میں پھیلتا چلا گیا۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ جس دہشت گرد گروہ نے اپنی شناخت'' دولت اسلامیہ‘‘ کے نام سے بنائی ہے اُس کو نہ تو بھارت میں آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلم کشی دکھائی دیتی ہے ‘ نہ ہی گائے کے قریب سے گزرنے والے کسی بھی مسلمان کی انتہا پسند ہندوئوں کے ہجوم کے ہاتھوں المناک شہادت نظر آتی ہے اور نہ ہی کبھی اسرائیل کے غزہ اور فلسطین میں قہر و جبر کے منا ظر ان کے ــ ضمیر کو جھنجو ڑتے ہیں۔ داعش کا ہر حملہ اور اس کے بنائے گئے لشکر وں کا ظلم وجبر ایسے مسلمانوں ہی پر ہوتا ہے جو امریکہ کی غلامی سے دور بھاگتے ہیں ‘جو اپنی سیاست اور ملک کی سلامتی کے لیے اپنی خارجہ پالیسی اور دنیا میں اقوام عالم کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی تجارت اور دفاع کے لیے امریکہ کی بجائے روس اور چین کی جانب دیکھتے ہیں۔
قندوز میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں حاضر ہو نے والے اپنے پروردگار کے حضور سر بسجود ہونے کے لیے آئے تھے مگر ان اہل ایمان کی زندگیوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس کی تفصیلات اتنی اندوہناک ہیں کہ دہرانے کی ہمت نہیں ۔ دہشت گردوں نے جس طرح نمازیوں کی جانوں اور مسجد کے تقدس کو پامال کیا اس قسم کی مکروہ حرکت داعش یا اس جیسا کوئی دہشت گرد گروہ ہی کر سکتا ہے جس نے اپنا ضمیر اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں فروخت کر دیا ہے ‘لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اسے یہ ذمہ داری کس نے دی ہے ؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس عالمی دہشت گرد گروہ کو پناہ گاہیں کون دے رہا ہے؟ جب امریکہ ‘ نیٹو اور ایساف سمیت این ڈی ایس کے ذمہ داران اور افغان مسلح فوج کابل‘ جلال آباد اور قندھار میں موجود تھی تو داعش کو ان بڑے شہروں میں کس نے پنپنے کا موقع دیا؟ سیدھی سی بات ہے کہ افغانستان کے دیہی علاقوں اور دور دراز کے صوبوں اور کابل سے دور طالبان کی کہیں پر حکومت رہی تو کہیں پر وہ امریکہ سمیت افغانستان میں تعینات دنیا بھر کی فوج کا مقابلہ کرتے رہے لیکن کیا وجہ ہے کہ داعش کو کابل‘ قندھار‘ جلال آباد اورخوست میں مضبوط اور محفوظ ٹھکانے حاصل ہو گئے؟ انہیں وہیں پر اسلحہ اور گولہ بارود کے تخریبی آلات فراہم ہونے لگے۔ داعش کس کے مقاصد پورے کر رہا ہے؟ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کسی بھی تھوڑے بہت باخبر انسان سے یہ سوال پوچھا جائے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان جسے ٹی ٹی پی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے وہ پاکستان کے خلاف کس کا مشن پورا کر رہی ہے‘ کس کے ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے؟ انہیں ہر قسم کا اسلحہ اور گولہ بارود کون فراہم کر رہا ہے؟ ٹی ٹی پی کو کروڑوں ڈالروں کی صورت میں بیش بہا مالی وسائل کون اور کیوں مہیا کر رہا ہے؟
داعش اور بھارت اب ایک نام بن چکے ہیں ‘ مگر امریکہ نے بھارت کو اپنا مستقبل کا اتحادی ڈکلیئر کیا ہوا ہے ‘لیکن یہی داعش کا سر پرست بھی ہے۔ اگر ایک تخلیق کار ہے تو دوسرا اسے نفری اور اطلاعات فراہم کرتا ہے ۔ان تینوں ملکوں کی مثلث یعنی امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کے مقاصد بڑے واضح ہیں کہ پاکستان اورایران کوچین سے دوررکھا جائے‘ ایران اور پاکستان کو کبھی بھی پہلے کی طرح ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع نہ دیا جائے‘ اس بدی کے محور کو1965ء کا وہ دکھ کبھی نہیں بھولتا جب ایران کے عسکری وسائل پاکستان کی مددکیلئے وقف کر دیے گئے تھے۔ بس اس کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ کشیدگی کے نام سے دونوں ہمسایہ ممالک میں دوریاں پیدا کرنے کیلئے ان میں اختلافات کو ہوا دی جانے لگی تاکہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب نہ آنے دیا جائے۔ امریکہ بھارت اور اسرائیل کی مثلث نیوکلیئرپاکستان کے بعدطالبان اور چین کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے بارے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ افغانستان میں امن و امان کو اپنے مقاصد کے لیے ناموافق سمجھتے ہیں۔ وہ افغانستان میں موجود معدنی وسائل کے متعلق ایک ایک انچ کی معلومات رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ روس سے علیحدہ ہونے والی تمام وسط ایشیائی ریاستوں سے چین اور پاکستان کی تجارت کا راستہ افغانستان سے گزرتا ہے ۔اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے‘ پشتون‘ ہزارہ اور دوسرے نسلی اور لسانی گروہ مل جل کر اور کاروبار حکومت کے لیے ایک دوسرے کے مدددگار بن کر افغانستا ن کو امن کا گہوارہ بنا لیتے ہیں تو پھر چین وہاں داخل ہو جائے گا ۔ا ُس کے پاس پیسہ بھی ہے اور وسائل بھی‘ ان کے پاس علم بھی ہے اورقابل ترین انجینئرز بھی‘ ان کے پاس دنیا بھر کی جدید ترین مشینری بھی ہے اور لا تعدادنفری بھی اوروسیع تجربہ بھی ہے جس سے افغانستا ن میں معاشی ترقی کی راہیں کھل سکتی ہیں‘ ایشیا میں صحیح معنوں میں نئی صبح کا آغاز ہو سکتا ہے اور امریکہ کی دنیا کے اس حصے سے چھٹی ہو سکتی ہے۔
امریکہ سمیت اس کے تخریبی اتحادی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر افغانستان کی معیشت روس اور چین جیسے مضبوط سہاروں اور پاکستان کی افرادی قوت اور عسکری امداد کے ذریعے بہتر ہونا شروع ہو گئی تو پھر ایران‘پاکستان‘ تاجکستان اوراس سے ملحق وسط ایشیائی ریاستیں باہمی تجارت میں شامل ہو جائیں گی جس سے سی پیک کے رستے مزید وسیع ہو جائیں گے؛چنانچہ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کی مثلث افغانستا ن کے امن کو برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ے گی اور یہی ان کا مشن ہے‘ یہی ان کی خواہش ہے کہ اسرائیل ‘امریکہ ا ور بھارت کے تکنیکی اور انٹیلی جنس وسائل اوربے تحاشا سرمائے سے خرید کر بہکائے ہوئے اور گمراہ سوچ رکھنے والے دماغوں کو آگ کا گولہ بناکر اپنے مقاصد حاصل کئے جائیں گے۔ داعش کی نفرت نے کبھی یہ تو دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ مقبوضہ کشمیر کی دس ہزار سے زائد مسلمان مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں کون لوٹ رہا ہے؟ یہ کیسے لوگ ہیں کہ جنہیں خبر ہی نہیں ہوسکی کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پیلٹ گنوں کے ذریعے سکولوں کے بچوں کے جلوس پر کارتوس برساتے ہوئے انہی زندگی بھر کے لیے بصارت سے ‘ دنیا کودیکھنے اوراس میں چلنے پھرنے سے حتیٰ کہ عمر بھر کیلئے قران پاک کی تلاوت سے بھی محروم کر رہے ہیں۔قندوز کے شہید ہم سب کیلئے سوال چھوڑ گئے ہیں کہ اس داعش کا سرپرست کون ہے‘ اسے ترغیب کون دیتا ہے‘ اسے پناہ کون دیے ہوئے ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved