تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     10-10-2021

تاریخ کے ورق ‘ قصے اور حقیقت

بھارت کے متعلق بات کرتے ہوئے اس کے علاقائی کردار کا ذکر ایک انتہائی منفی ‘منافق اور مہلک ریاست کے طور پر ہوتا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی غربت والی آبادی ‘اندرونی طور پر پائی جانے والی دہائیوں پرانی علیحدگی پسنددرجن سے زائدتحریکیں‘تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات اور کشیدگی‘ علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی جنگی جنون وغیرہ ‘ایسے عوامل ہیں جن کی بنا پر اسے ایشیاکا Sick Manکہا جا تا ہے ۔ اس طرز کی بحث پر بہت سے مخصوص لابی کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان بھی تو مسائل کا شکار ہے اور بھارت سے دوستانہ تعلقات نہیں رکھتا ۔اب اس بات کا اگر نچوڑ نکالیں تو بھی ذمہ دار بھارت ہی نکلتا ہے ۔بات بہت سادہ مگر اہم ہے کہ بھارت پاکستان سے رقبہ میں چار گنا ‘آبادی میں چھ گنا اور فوجی اعتبار سے کم از کم ایک کے مقابل اڑھائی گنا بڑا ملک ہے۔اب ان حالات میں دو ملکوں نے کس طرح رہنا ہے اس کی نوعیت کا تعین بڑا ملک ہی کرتا ہے ۔اس دلیل کا مزید ثبوت انسانی تاریخ اور آج کی دنیا میں موجود بڑے ممالک اور اس کے مقابل چھوٹے ممالک کے تعلقات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آسٹریلیا کے مقابل نیوزی لینڈ اور برازیل کے مقابل پڑوسی ممالک ‘امریکہ کے مقابل میکسیکو‘روس کے مقابل پڑوسی ممالک ‘جنوبی افریقہ کے مقابل پڑوسی مقابل اور سب سے اہم بات عالمی طاقت چین کا اپنے پڑوسی ممالک سے سلوک ہے۔چین کا بارڈر 14ملکوں سے ملتا ہے ‘ یہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں ہمسایہ ممالک کی بڑی تعداد ہے ۔اس میں چین کے تعلقات ویتنام سے اچھے نہیں لیکن چین نے کبھی جنگ تو دور کی بات ہے‘ جنگی صورت حال بھی پیدا نہیں کی۔البتہ ایک ملک کے ساتھ چین کی مسلسل کشیدگی اور نیم جنگی صورت حال جاری ہے اور وہ ملک بھارت ہے ۔اس کشیدگی کو چین نہ صرف ختم کرنا چاہتا ہے بلکہ اس ملک کو بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بنانا چاہتا ہے ‘لیکن بھارت کی بیمار اور بیکارذہنیت کا اندازہ لگا ئیں جو سی پیک کے پاک چین منصوبے کی مخالفت ہی نہیں کرتا بلکہ اس کو سبوتاژکرنا چاہتا ہے۔بھارت کے سرحدی اور آبی تنازعے نیپال ‘بنگلہ دیش اور بھوٹان سے بھی جاری ہیں۔ اسی طرح سری لنکا اور مالدیپ بھی اس کی علاقائی تھانیداری سے تنگ ہیں ۔سری لنکا والوں سے اگر بات کریں کہ آپ کی ایک بندر گاہ چین نے لیز پر حاصل کر لی ہے تو وہ بہت ہی مضبوط دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بندر گاہ دے کر ان کا باقی پورا ملک بھارت کی در اندازی سے محفوظ ہو گیا ہے ‘مزید یہ کہ اس بندرگاہ کے ذریعے وہ چین کی معاشی ترقی میں حصہ دار بھی بن گئے ہیں ۔
چلیں ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں‘ پاکستان بننے کے بعد پہلا بجٹ قائد اعظم کی سربراہی میں بنا تھا ‘لیکن آپ شاید حیران رہ جائیں گے کہ اُس بجٹ میں 65فیصد سے زائد رقم پاکستان کو دفاعی بجٹ کے لیے رکھنا پڑی تھی اور یہ سلسلہ آنے والی ایک دہائی تک جاری رہا ۔وجہ صرف ایک تھی کہ بھارت اس مملکت کو قبول کرنے کو کسی طور تیار نہیں تھا ۔کشمیر کی جنگ1948اور 1965ء کی جنگوں نے ثابت کیا کہ پاکستان کے لیے مضبوط آرمی ناگزیر تھی ۔مشرقی پاکستان میں اس وقت کی دونوں عالمی طاقتوں کی مرضی اور مدد کے ساتھ سقوط ڈھاکہ کے بعد اس نے ایک پسماندہ ملک ہونے کے باوجود 1974ء میں دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت کا مظاہرہ کر ڈالا ۔اب آپ اس بھیانک جنگی جنون کی بات ہی کر لیں اور خود فیصلہ کریں کہ اگر بھارت ایٹمی دھماکہ نہ کرتا تو کیا پاکستا ن کبھی خواب بھی دیکھ سکتا تھا کہ وہ بھی ایٹمی پروگرام شروع کرے ؟چلیں ایک اور پہلوسے دیکھ لیتے ہیں کہ اگر بھارت 11مئی 1998ء میں دوسری بار ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو پاکستان کبھی ایٹمی صلاحیت کا اظہار دھماکوں کی شکل میں کر سکتا تھا ؟اس وقت بھی بھارت کی گیم تھیوری یہ تھی کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکہ کرے گا تو اس پر معاشی پابندیا ں لگ جائیں گی ‘اس صورت میں عالمی قرضہ ادا نہ کر سکنے پر پاکستان معاشی دیوالیہ ہو جائے گا ۔مطلب یہ کہ اس موقع پر بھی بھارت کا مقصد پاکستان کو قومی سطح کا مزید نقصان پہنچاناتھا۔اس کے بعد جب امریکہ افغانستان میں آیا تو بھارت محض پاکستان دشمنی کی خاطر افغانستان بھی پہنچ گیا ‘وہاں پر ٹورازم ‘ٹرانسپورٹ وغیرہ کے نام پر جنگی سرمایہ کاری شروع کر دی۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی امریکی ایما پر افغان آرمی کی ٹریننگ اپنے ملک میں شروع کر دی۔اس کے بعد افغانستان سے عام لوگوں کو بھاری رقوم کے عوض تیار کرکے پاکستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک نئی دہشت گرد تنظیم شروع کر کے پاکستان کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ شروع کر دی۔اس کو افغانستان کے خلاف امریکی جنگ کا ایک باب کہہ سکتے ہیں جسے پاکستان کے خلاف بھارت کی ایک خفیہ جنگ برپا کر نا کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں صرف آرمی نہیں بلکہ پورا پاکستان ہدف پر تھا۔ اس کے لیے شر پسندوں کے بہت سے مراکز پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں قائم کئے گئے۔دنیا کے انتہائی خطرناک ہتھیار‘ خود کش دھماکوں کا ستعمال کرنا شروع کر دیا گیا ۔ اس طرح کے بہت سے دھماکے ریموٹ کنٹرول سے بھی کئے جاتے تھے۔ہر شعبۂ زندگی کے لوگوں اور مراکز پربم دھماکے کروائے گئے۔ اس میں بھارت کی مداخلت بلکہ کھلم کھلا اعلان کا مرحلہ اس وقت آیا جب بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سابق افسر اور سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے ایک لیکچر میں اظہارکر دیا اور بتایا کہ وہ کئی ملین ڈالر دے کر افغان لوگوں کو بھرتی کر لیتے ہیں ۔اس حوالے سے پاکستان نے جو ثبوت فراہم کئے ہیں ان کے مطابق دہشت گردی کے 87 تربیتی مراکز بھارت نے افغانستان اور بھارت کے اندر قائم کر رکھے ہیں۔واضح رہے افغانستان کی حالیہ جنگ میں تقریباً اڑھائی لاکھ افغان جان سے گئے‘جبکہ اسی جنگ میں دوسرا بڑا نقصان پاکستان نے 70 ہزار سے زیادہ جانوں کے نذرانہ کی شکل میں اٹھایا۔اس لئے اس بیس سالہ جنگ میں افغانوں کے ساتھ پاکستان بھی فاتح ہے۔یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنا ہی پڑے گی اور جب بھی کوئی تاریخ لکھے گا تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو گی ۔
یاد رکھیں اصل اور غیر جانب دارتاریخ اس وقت سامنے آتی ہے جب واقعات اور سانحات کو گزرے کم از کم ایک دہائی گزرجاتی ہے۔ان واقعات میں شامل بڑے عہدوں کے لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں ‘پھر کتابیں لکھتے ہیں یا انٹرویوز دیتے ہیں تو ان کے منہ سے سانحات کی کہانیاں آتش فشاں سے لاوے کی طرح اگل جاتی ہے۔اس کے لیے آپ مشرقی پاکستان میں مسلح مداخلت کے لیے اُس وقت کے روسی ایجنسی کے اہلکاروں کے لیکچر سن سکتے ہیں ‘روس ٹوٹنے کے بعد مسلم ممالک پر امریکی حملوں اور مداخلت کے لیے امریکی فور سٹار جنرل Wesley Clarkکے انٹرویو بھی موجود ہیں ۔مکمل تفصیل کے لیے ان کی کتابیں بھی موجود ہیں۔
اب ان سب حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ بخوبی اندازہ ہی نہیں فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ پاکستان بنیادی طور پربھارت کی وجہ سے جنگی کیفیت کا شکار ہے۔ پاکستان اپنی بقا کے لیے دنیا کی سب سے مشکل ‘ ہشت پہلواور طویل جنگ یا جنگیں لڑنے والادنیا کا واحد ملک ہے ۔اب دنیا اپنی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی دیکھنے جا رہی ہے جس میں امریکی حکمرانی کا سورج مکمل غروب نہ بھی ہو تو ڈھل ضرور رہا ہے ۔اس لئے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو پاکستان ایک ناقابل فراموش ملک کے طور پر لکھااور یاد کیا جائے گا جبکہ بھارت کے حصے میں بھیانک اوربیمار سوچ اور بربریت آئے گی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved