پاکستانی عوام ڈالر کی قیمت کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں ڈالر کا 125 روپے سے بڑھ کر 172 روپے تک پہنچ جانا یقینا تشویشناک ہے‘ مگر جب حکمران جماعت سے اس بارے استفسار کیا جاتا ہے تو یہ کہہ کر جان چھڑ وا لی جاتی ہے کہ پچھلی حکومتوں نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے قابو میں رکھا جس سے درآمدات بڑھ گئیں‘ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا اور اربوں ڈالرز مارکیٹ میں پھینکے گئے تا کہ ڈالر کی قیمت 105 روپے پربرقرار رہ سکے۔ ان کا کہناہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ان اصولوں کے مطابق پالیسیز بنا رہی ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں۔ سب سے زیادہ توجہ برآمدات بڑھانے پر دی جارہی ہے جس کے لیے سب سے زیادہ ضروری ڈالر کی اصل قیمت کا تعین کرنا ہے۔ تین سال پہلے تک مقامی سطح پر تیار کی جانے والی اشیا کو بیرون ملک بیچنا نقصان دہ ثابت ہوتا تھا کیونکہ پراڈکٹ کی تیاری میں جتنے اخراجات آتے تھے اس کے بدلے ڈالر میں حاصل رقم سے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے تھے کیونکہ ڈالر کی قیمت دنیا کے باقی ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم رکھی گئی تھی‘ لہٰذا سامان تیار کرنے کی بجائے زیادہ توجہ درآمدات پر تھی جس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل‘ الیکٹرانکس‘ جوتے‘ زیورات سمیت ضروریاتِ زندگی کی اکثر اشیا بیرون ممالک سے در آمد کی جاتی تھیں نتیجتاً سمال اینڈمیڈیم انڈسٹری تقریباً خاتمے کے قریب پہنچ چکی تھی۔سیالکوٹ‘ فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں بیشتر چھوٹی فیکٹریاں بیچ دی گئیں اور ان کی جگہ گوداموں نے لے لی جہاں درآمد کیا گیا سامان رکھا جاتا تھا۔ لیکن اب حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ حکومت کی نئی پالیسیوں کی بدولت چھوٹی صنعتیں چل پڑی ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں اس قدر سرمایہ کاری ہو گئی ہے کہ ماہر کاریگروں کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ کچھ ٹیکسٹائل ملیں چین سے ماہر کاریگر بلا کر اپنی ضروریات پوری کر رہی ہیں اور مقامی کاریگر منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔
وزارت کامرس اور نیشنل ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ذرائع کے مطابق بنگلہ دیش کا بڑا ٹیکسٹائل گروپ بھی پاکستان میں ٹیکسٹائل یونٹس لگانے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے اور اس حوالے سے کافی کام بھی ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش دنیا میں ٹیکسٹائل کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے۔ بنگلہ دیش میں اوسطاًہر دوسرا شہری اس شعبے سے کسی نہ کسی صورت میں جڑا ہوا ہے۔ حال ہی میں بین الاقومی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بنگلہ دیش کے ساتھ کئی ممالک نے معاہدے توڑے ہیں۔ پاکستانی ٹیکسٹائل کی مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے بنگالی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔ بنگال سے مشینری پاکستان منتقل کی جائے گی اور یہاں کپڑا تیار کر کے Made in Pakistan کی مہر کے ساتھ بیرون ملک بھیجا جائے گا۔ اس کے علاوہ چین کی ایک کمپنی نے پاکستان میں سب سے بڑا ٹیکسٹائل یونٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر میڈ اِن چائنا کی مہر والی مصنوعات کا یورپ اور امریکہ میں بکنا مشکل ہو رہا ہے۔ کورونا اور عالمی تجارتی جنگ نے چین کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ان حالات میں ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے پاکستان سے زیادہ موزوں ملک چین کی نظر میں نہیں ہے۔ چین بھی میڈ اِن پاکستان کی مہر لگا کر ٹیکسٹائل پراڈکٹس دنیا میں بیچنے کا خواہاں ہے جو کہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستانی برآمدکنندگان نے معیار کو برقرار رکھا ہے اور پروفیشنل اپروچ کے تحت دنیا کے ساتھ معاملات طے کیے ہیں جس کی وجہ سے آج بنگلہ دیش اور چین بھی پاکستان سے برآمدات کرنے کے خواہاں ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کامرس‘ ٹیکسٹائل انڈسٹری‘پروڈکشن اور انویسٹمنٹ رزاق داؤد صاحب کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر میں پاکستان میں 5ارب ڈالرز سے زیادہ سرمایہ کاری آ رہی ہے جس سے ایک سو ٹیکسٹائل یونٹس لگائے جائیں گے۔ ایک ٹیکسٹائل یونٹ اوسطاً پانچ ہزار نوکریاں پیدا کرتا ہے‘ اس حساب سے سو یونٹس پانچ لاکھ نوکریاں پیدا کریں گے جس سے بے روزگاری میں کمی واقع ہو گی۔ حکومت نے نئے مالی سال کے پہلے کوارٹر میں تقریباً پانچ ارب ڈالرز برآمدات کا ہدف رکھا تھا جو کہ نہ صرف آسانی سے حاصل کر لیا گیا ہے بلکہ ہدف سے تقریبا ًدو ارب ڈالر زیادہ برآمدات ہوئی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ حکومت سالانہ ہدف سے زیادہ برآمدات کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس وقت پاکستان کی سالانہ برآمدات تقریباً 15 ارب ڈالر ہیں جو کہ موجودہ مالی سال کے اختتام پر بڑھ کر 21 ارب ڈالرز ہو سکتی ہیں۔ ہماری پالیسیوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے‘ پاکستان صحیح راستے پر چل نکلا ہے جس کا فائدہ عوام کو منتقل ہو رہا ہے۔
رزاق داؤد صاحب اور دیگر حکومتی عہدیداران کے دعوے درست دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔ برآمدات اور سرمایہ کاری کے اعدادوشمار پیش کیے جارہے ہیں لیکن درآمدات میں ہوشربا اضافے کو حکومتی ناکامی تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ نئے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستانی درآمدات تقریباً 18 ارب 63 کروڑ ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں جو کہ پچھلے سال کی نسبت تقریباً 7 ارب ڈالرز زیادہ ہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ 5 ارب 81 کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 11 ارب 66 کروڑ ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ یہ 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہے۔ جسے خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے برآمدات پر توجہ نہیں دی اس لیے درآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور تجارتی خسارہ بڑھتا رہا۔ تحریک انصاف کے مطابق تین سال کے دورِ حکومت میں تمام پالیسیاں اس طرح بنائی گئی ہیں جو تجارتی خسارہ کم کرنے کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر درآمدات میں ریکارڈ اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے اور اصل حقائق تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد عوام کے سامنے آئیں گے۔ اگر برآمدات میں ہدف سے زیادہ اضافہ درآمدات میں توقع سے زیادہ اضافے کی وجہ سے ہے تو ایسی برآمدات کا ملک کو فائدے سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔برآمدات کی پالیسی ڈالر کی قیمت پر مزید کیا اثرات چھوڑتی ہے اس کا علم مستقبل قریب میں ہو جائے گا۔ فی الحال ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے کے لیے حکومت نے نئے ایس او پیز جاری کیے ہیں جن کے مطابق کسی بھی شخص کے لیے پانچ سو ڈالر خریدنے پر بائیو میٹرک کروانا ضروری ہے۔ دس ہزار ڈالر یا اس کے مساوی کرنسی کی ٹرانزیکشن بذریعہ بینک ٹرانسفر یا کراس چیک ہو گی۔افغانستان کے سفر کے لیے ایک شخص ایک وزٹ پر ایک ہزار امریکی ڈالر اور سالانہ چھ ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ رقم نہیں لے جا سکے گا۔اس حوالے سے جب ایسوی ایشن آف پاکستان ایکسچینج کمپنی کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے سٹیٹ بینک کے ان اقدامات کو تسلی بخش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ڈالر کی قیمت کم ہونے میں مدد ملے گی اور افغانستان کرنسی سمگلنگ بھی کم ہو سکے گی۔ اس سے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر بھی عمل درآمد ہو سکے گا اور پاکستان جلد ہی گرے لسٹ سے نکل آئے گا۔ ظفر پراچہ صاحب کافی پرامید دکھائی دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن نتائج کی توقع کی جارہی ہے کیا وہ حقیقی طور پر حاصل بھی کیے جا سکیں گے یا نہیں؟ کیونکہ پاکستان میں یہ روایت عام ہے کہ پالیسی کا اعلان ہو جاتا ہے لیکن عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ تجارتی خسارے میں کمی اور ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے عوام دوست پالیسیز بنائے اور انہیں اصل روح کے ساتھ لاگو کرے تا کہ مہنگائی کم ہو اور عام آدمی کو صحیح معنوں میں ریلیف مل سکے۔