تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     11-10-2021

افغانستان اور عالمی برادری:مستحکم تعلقات کی تلاش

افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار میں آئے دو ماہ ہونے والے ہیں۔ یہ ان کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ طالبان نہ صرف امریکی فوجی اور معاشی طاقت سے بچ گئے بلکہ انہوں نے ایسی صورتحال پیدا کردی جس نے اتحادیوں کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ یہ ان کی طرف سے اعتراف تھاکہ وہ افغانستان کو اپنی ترجیحات کے مطابق تبدیل نہیں کر سکے۔ طالبان کو افغانستان کو اس انداز میں چلانے کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے کہ آبادی کی اکثریت مطمئن رہے اور بین الاقوامی برادری طالبان کے ماتحت افغانستان کو اپنا عام رکن تسلیم کرلے۔ افغانستان میں موجودہ حکومت کیلئے یہ اہم ہے کیونکہ بین الاقوامی تعاون کے بغیر وہ اپنے معاشی معاملات نہیں چلا سکتی۔ پاکستان اور دوسرے قریبی پڑوسی مسائل سے نمٹنے میں مدد کر رہے ہیں؛ تاہم افغانستان کو تباہی سے بچنے کیلئے مزید بین الاقوامی معاشی تعاون اور سیاسی مدد کی ضرورت ہے۔
تاحال طالبان حکومت کو کسی خطرناک سیاسی اور سکیورٹی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے‘ تاہم اسے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد عالمی برادری اور پاکستان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اہم مسئلہ جو کابل حکومت اور عالمی برادری کے تعلقات کو متاثر کرے گا، یہ سوال ہے کہ کیا موجودہ طالبان حکمران 1990 کی دہائی کے دور میں واپسی والا معاملہ ہیں یا طالبان کی موجودہ نسل 'دنیا ان سے کیا توقع رکھتی ہے؟‘ کی بہتر تفہیم کے ساتھ مختلف ہے۔
عالمی برادری سے توقع نہیں کہ وہ اس سوال کے جواب کا غیرمعینہ مدت تک انتظار کرے۔ طالبان اس معاملے میں جتنی تاخیر کریں گے‘ ان کیلئے عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔ تاخیر طالبان کے مخالفین کو ان کے خلاف اس پروپیگنڈا کا موقع فراہم کرے گی کہ وہ ماضی کے طالبان سے بہتر نہیں ہیں۔ طالبان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ کو افغانستان سے غیررسمی طور پر نکلنے پر سیاسی بدنامی کا سامنا کرنا پڑا‘ لہٰذا امریکہ اور یورپ میں طالبان کے خلاف تعصب موجود ہے، اور وہ سماجی مسائل اور شہری و سیاسی حقوق کے حوالے سے طالبان کے کمزور یا غیرضروری تاخیر سے کیے گئے فیصلوں کو قبول نہیں کریں گے۔ مغربی ممالک کو طالبان کیخلاف بات کرنے کیلئے کسی ایشو کی ضرورت ہے تاکہ دنیا یہ بھول جائے کہ امریکہ نے افغانستان سے کیسے انخلا کیا تھا۔ بین الاقوامی برادری کی بات نہ بھی کریں تو پاکستان سمیت افغانستان کے ساتھ مشترک سرحد والی تمام ریاستیں چاہتی ہیں کہ طالبان خواتین کی تعلیم‘ ان کے سرکاری اور نجی سروس میں داخلے کے حق، تنوع کو قبول کرنے اور مختلف نسلی گروہوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ ان معاملات پر مثبت جواب آتا ہے تو پڑوسی ریاستیں نہ صرف طالبان حکومت کو تسلیم کرنا شروع کردیں گی بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر طالبان کیلئے لابنگ کی بھی پوزیشن میں ہوں گی۔
طالبان حکومت کو کچھ داخلی نظریاتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ کچھ طالبان خواتین کو تعلیم اور شہری و سیاسی حقوق دینے کیلئے تیار ہیں؛ تاہم کچھ رجعت پسند ہیں جو تنگ سوچ رکھتے ہیں اور اسے قبائلی طرز عمل سے جوڑتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو مغربی تصور اور شہری و سیاسی حقوق کو مغربی ایجنڈا تصور کرتے ہیں جسے ان کے خیال میں ایک مسلم ریاست اختیار نہیں کر سکتی۔ ایک واضح پالیسی کے ساتھ آگے آنے کیلئے طالبان کو اس داخلی بحث کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ چونکہ افغان حکومت کیلئے عالمی برادری اور اپنے پڑوسیوں کو مطمئن کرنے کے حوالے سے فوری فیصلے کرنا مشکل ہو رہا ہے، اس لیے پاکستان کو افغانستان پر پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ افغانستان میں طالبان کا عروج پاکستان کیلئے ایک مثبت پیشرفت ہے کیونکہ بیس سال سے زیادہ عرصے کے بعد کابل میں پاکستان مخالف حکومت نہیں ہے۔ موجودہ طالبان حکومت پاکستان کے ساتھ مثبت تعامل کو برقرار رکھتی ہے تو یہ صورت حال پاکستان کی مغربی سرحد کو خطرے سے محفوظ کر دے گی۔
ایک مستحکم افغانستان پاکستان کو وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ مضبوط دوطرفہ تجارتی تعلقات استوار کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ وسطی ایشیا سے گیس اور بجلی کے حصول کے منصوبوں کو اب متشکل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو سڑکوں کی نسبتاً آسان رسائی کے ذریعے وسطی ایشیا میں نئی منڈیاں بھی مل سکتی ہیں۔ پاکستان وسطی ایشیا کی ریاستوں کو گوادر اور کراچی کے ذریعے سمندر تک رسائی بھی فراہم کر سکتا ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان وسطی ایشیا اور افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گا‘ کیونکہ افغانستان کی جانب سے اس سمت میں کسی مثبت پیشرفت کے فی الحال آثار نہیں ہیں۔ افغانستان کو دو مسائل سے نمٹنا ہوگا۔ پہلے کا تعلق بین الاقوامی برادری پر یہ واضح کرنے سے ہے کہ وہ شہری و سیاسی حقوق کے عالمی معیار پر پورا اترتے ہیں‘ خواتین کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں‘ اور نسلی اور لسانی شناختوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے تیار ہے۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں ازبک اور تاجکوں کے حقوق کی ضمانتوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایران ہزارہ اور فارسی بولنے والوں کے بارے میں فکرمند ہے۔ چینی اور روسی انتہا پسندی کے افغانستان سے اپنے ملکوں میں پھیلنے سے خوفزدہ ہیں۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی کو بے اثر کرے۔ ابھی تک، کوئی بھی پڑوسی پُراعتماد دکھائی نہیں دیتاکہ طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔
پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جو کابل میں تبدیلی سے پیدا ہوا ہے‘ تاہم اگر افغانستان اپنے سماجی و اقتصادی مسائل سے نہیں نمٹ پاتا اور اسے بین الاقوامی سطح پر قبولیت نہیں ملتی تو وہاں ایک مستحکم حکومت قائم نہیں ہو سکتی۔ یہ اندیشہ پاکستان کی فکرمندی میں اضافہ کرتا ہے۔ اگر افغانستان میں داخلی تنازع پھوٹ پڑتا ہے اور معاشی صورتحال مستحکم نہیں بنائی جاتی تو پاکستان میں مزید افغان مہاجرین داخل ہو سکتے ہیں۔ ایک اور پاکستانی تشویش کا تعلق یہاں طالبان نواز گروہوں کی جانب سے سرگرمی کے اندیشے سے ہے۔ یہ رجحان نئے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اب تک ایسے گروہوں کی طرف سے طالبان کی حمایت اور وفاداری کے عوامی مظاہرے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
پاکستان کو افغانستان سے متعلق ایک اور چیلنج کا سامنا ہے۔ امریکہ پاکستان پر فضائی راہداری کیلئے سفارتی دباؤ بڑھا رہا ہے جس کے ذریعے وہ بحیرہ عرب/ بحر ہند میں اپنے بحری بیڑے سے اپنے فوجی طیارے افغانستان کیلئے اڑا سکے۔ امریکہ افغانستان میں ڈرون طیارے اڑانے کیلئے بھی پاکستان میں سہولیات مانگ رہا ہے۔ اس سے ایک مشکل صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے مانگی گئی سہولیات کی فراہمی پاکستان کے طویل مدتی مفادات پر منفی اثر ڈالے گی اور پاکستان کو امریکہ کے ساتھ ٹیگ کر دیا جائے گا، بصورت دیگر، بھارت کا سٹریٹیجک پارٹنر۔ اس لیے پاکستان کو ایک مشکل سفارتی صورتحال کا سامنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved