تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     11-10-2021

علماء کرام کی ذمہ داریاں

کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے جہاں پر بہت سے ماہرین اپنے اپنے دائرۂ کار میں کردار ادا کرتے ہیں وہیں پر علماء کرام بھی اس حوالے سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ ایک معاشرے کی تکمیل کے لیے جہاں پر اچھے ڈاکٹر ز، انجینئرز، صنعتکاروں،تاجروں اور کسانوں کا ہونا ضروری ہے وہیں پر معاشرے کو مکمل کرنے کے لیے علماء کرام کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ یقینا علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے اور یہ انسان کو دیگر انسانوں کے مقابلے میں ممتاز کرتا اور کسی ایک مخلوق کی دوسری مخلوق پر برتری کا بڑا سبب بنتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں جملہ اشیا کے ناموں کا علم عطا فرمایا تھا۔ جب ان اشیا کے ناموں کے بارے میں فرشتوں سے پوچھا گیا توا نہوں نے لا علمی کااظہار کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سور ہ بقرہ کی آیات 31سے 33میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور اس نے آدم کو سکھا دیے وہ سب نام (جو چاہے) پھر پیش کیا ان کو فرشتوں پر‘ پس فرمایا (اللہ نے ) مجھے بتاؤ ان چیزوں کے نام اگر ہو تم سچے۔ (وہ )کہنے لگے: تو پاک ہے کوئی علم نہیں ہمیں مگر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ بے شک تو ہی خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (اللہ نے) فرمایا : اے آدم بتا دو انہیں ان کے نام تو جب اس نے بتا دیے اُنہیں ان کے نام (تو اللہ نے ) فرمایا کیا میں نے نہیں کہا تھا تمہیں‘ بے شک میں ہی جانتا ہوں غیب (کی باتیں) آسمانوں اور زمین کی اور میں جانتاہوں جو تم ظاہر کرتے اور جو تم چھپاتے ہو‘‘۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہو گئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم نہ کیا تو وہ قیامت تک کے لیے راندۂ درگاہ قرار دے دیا گیا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے واقعہ کو بھی بیان کیا ہے کہ اللہ نے اُن کو علم کی نعمت سے نوازا تھا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نمل کی آیت نمبر 15میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ ہم نے دیا داؤد اور سلیمان کو ایک علم اور ان دونو ں نے کہا: سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے فضیلت دی ہمیں اپنے مومن بندوں میں سے اکثر پر‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ علم کی وجہ سے اہلِ علم کو دوسرے لوگوں پر ممتاز فرماتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کائنات میں اس اعتبار سے انتہائی ممتاز ہستیاں ہیں کہ انہوں نے علم کو براہِ راست اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے حاصل کیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر اس بات کو واضح کیا کہ وہ لوگ جو صاحبِ علم ہیں‘ ان کے درجات دیگر لوگوں کے مقابلے میں بلند ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 11میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ بلند کرے گا (اُن لوگوں کو) جو ایمان لائے تم میں سے، اور (اُن لوگوں کو) جو علم دیے گئے درجوں میں ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زمر کی آیت نمبر 9میں بھی ا س بات کا ذکر فرمایا ہے کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔ ارشاد ہوا: ''کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ (لوگ) جو علم رکھتے ہیں اور وہ (لوگ) جو علم نہیں رکھتے؟‘‘۔
ان تمام آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ علم کے درجات کو علم کی وجہ سے بلند فرمایا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر نعمتِ علم عطا فرمانے کی وجہ سے علماء کرام کو ممتاز کیا ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ علم پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں جن کا نبھانا اہلِ علم کے لیے ضروری ہے۔ کتاب وسنت کے مطالعے کے بعد جو چند اہم ذمہ داریاں سامنے آتی ہیں‘ وہ درج ذیل ہیں:
1۔ علم پر عمل کرنا: علماء کی پہلی ذمہ داری علم پر عمل کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس رویے کو انتہائی غلط قرار دیا ہے کہ انسان دوسروں کو ایسی بات کی نصیحت کرے جس پر اس کا اپنا عمل نہ ہو۔ سورہ صف کی آیات 2 تا 3میں ارشاد ہوا: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! کیوں تم کہتے ہو (وہ بات) جو تم (خود) نہیں کرتے ہو۔ (یہ) بہت بڑی (بات) ہے ناراضی کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک کہ تم (وہ بات) کہو جو تم نہیں کرتے ہو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44میں بھی اس بات کا ذکر کیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اور خود اس پر عمل نہ کرنا انتہائی غلط رویہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا: '' کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور تم بھول جاتے ہو اپنے آپ کو ۔ حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو کتاب کی‘ پس کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘ ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بے عمل علمائے یہود کاذکر کیا اور یہ بات واضح کی ہے کہ ان کی مثال گدھے کی مانند ہے جس پر کتابوں کے بوجھ کو لاد دیا گیا ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ جمعہ کی آیت نمبر 5میں ارشاد فرماتے ہیں: ''مثال (اُن لوگوں کی) جو تورات کا بوجھ ڈالے گئے پھر انہوں نے اس (کی تعمیل) کے بوجھ کو نہ اُٹھایا‘ گدھے کی طرح ہے (جو بڑی بڑی) کتابیں اُٹھائے ہوئے ہو‘ بری ہے مثال ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور اللہ (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو‘‘۔
2۔ علم کا ابلاغ: عالم دین پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ علم کا ابلاغ کرے اور اس کے پاس جو علم موجود ہو اس کو چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے علماء کے لیے وعید سنائی کہ جو اپنے علم کو چھپاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 159میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اسے جو ہم نے نازل کیا‘ واضح دلائل اور ہدایت کو اس کے بعد کہ ہم نے کھول کر بیان کر دیا اسے لوگوں کے لیے (اس) کتاب میں‘ وہی لوگ ہیں (کہ) لعنت کرتا ہے ان پر اللہ اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے‘‘۔
3۔ حق بات اور باطل کی آمیزش سے گریز: علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق بات کو بغیر کسی کمی بیشی کے بیان کریں اور حق اور باطل کی آمیزش سے گریز کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 42میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور حق کو (نہ) چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
4۔ ریاکاری سے اجتناب: عالم دین کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے ریاکاری سے بھی اجنتاب کرنا چاہیے اس لیے کہ ریاکاری انسان کے جملہ اعمال کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ اللہ پوچھے گا کہ تُو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآنِ پاک کی قرأت کی، اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، اللہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآنِ مجید کی قرأت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتیٰ کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تجھے پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا ہے، تو نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، یہ سخی ہے،ایسا ہی کہا گیا،پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
5۔ لالچ اور خوف سے اجتناب: عالمِ دین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صاحبِ اقتدار اور اہلِ ثروت لوگوں کے دباؤاور ترغیبات سے متاثر ہوئے بغیر حق کا ابلاغ جاری رکھے اور اس حوالے سے آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔ جو عالمِ دین یہ کام کرتا ہے وہ اپنے منصب کا حق اد ا کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام اہلِ علم کو صحیح طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved