امریکا کی افغانستان میں عبرتناک شکست و ہزیمت ، معاشی زوال ، ٹرانس اٹلانٹک تعلقات میں کشیدگی ، کابل سے انخلا اور اتحادیوں کے ساتھ کوآرڈی نیشن کے فقدان نے لندن سے برلن تک‘ یورپ بھر کے دارالحکومتوں میں جو بائیڈن کے دور کی شروعات کو تلخ بنا دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد افغان سر زمین پر جرمن افواج کی تعیناتی جرمنی کا پہلا بڑا جنگی مشن تھا لیکن جس طرح اس کا اختتام ہوا‘ اس کے بارے میں گہری مایوسی پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں جو بائیڈن کیلئے جو نرم گوشہ تھا‘ وہ اب تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکا نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اتحادیوں کی مدد سے جو بساط بچھا ئی تھی‘ اس میں وہ خود بری طرح پھنس چکا ہے۔ یورپ کے چھوٹے مگر پُرامن اور خوبصورت ممالک‘ جن کو امریکا نے روس کے خوف سے یرغمال بنایا ہوا تھا‘ اب اس کے سحر سے نکل رہے ہیں، دوسری جانب عالمی افق پر اقتدار کی جنگ میں چین نے بھی اب واضح سبقت حاصل کر لی ہے ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا کو چین کی شکل میں ایک ایسے مدمقابل کا سامنا ہے، جس کی معیشت جلد یا بدیر اُس کے برابر ہوجائے گی۔ سوویت یونین سے امریکا کی سرد جنگ تقریباً 40 سال چلی؛ تاہم سوویت اکانومی کبھی بھی امریکی معیشت کے 40 فیصد سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ یوں امریکا کو اُس پر واضح برتری حاصل رہی، لیکن چین کا معاملہ دوسرا ہے۔ چین اِس وقت بھی کئی لحاظ سے امریکا کے برابر ہے‘ خاص طور پر اس کی کنزیومر مارکیٹ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ اسی طرح چینی زرِمبادلہ کے ذخائر بھی امریکا سے کچھ ہی کم ہیں۔ ایسے میں خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خائف واشنگٹن کی یہ کوشش ہے کہ نئے ا تحاد اور نئے معاہدوں کے ذریعے چین کے خلاف گھیرا تنگ اور اقتصادی راہداری ''ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے سے روکا جائے ۔ چین دنیا کا ایسا ملک ہے جس کی سرحد 14ممالک کے ساتھ لگتی ہے، چین اگرمڈل ایسٹ، جنوبی یورپ اور افریقی ممالک کے ساتھ تجارت کیلئے انڈین سمندری حدود استعمال کرتا ہے تو اسے بہت طویل سفر کرنا پڑتا ہے، لیکن سی پیک کے ذریعے جب پاکستان میں ٹرین کے ذریعے گوادر بندرگاہ تک سامان پہنچایا جائے گا توتقریباً 10ہزار کلومیٹر کے ساتھ ایک مہینے کے وقت کی بچت بھی ہو گی، سی پیک چین کیلئے سوئز کینال جیسی اہمیت رکھتا ہے اس لیے سی پیک کو ڈرائی سوئز کینال بھی کہا جاسکتا ہے ۔
عالمی تناظر میں اگر ہم امریکا اور برطانیہ کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں تو دونوں ہی چین کی بڑھتی اقتصادی اور فوجی قوت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا ایسے گروپ اور فورم قائم کر رہا ہے جو چین سے مقابلے میں اُس کے معاون ثابت ہوسکیں، برطانیہ بھی یہی کام کرنا چاہتا ہے مگر بریگزٹ کی وجہ سے احتیاط سے قدم اٹھا رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ گزشتہ سالوں میں اُس کی جانب سے خاصے تلخ بیانات سامنے آئے‘ وہ چین کے ساتھ مخاصمت کے بجائے مفاہمت کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ چین ایک ایسی اُبھرتی ہوئی طاقت ہے جسے بزورِ طاقت روکنا ممکن نہیں لیکن امریکی ' اوکس‘ (AUKUS ) اور ' کواڈ ‘جیسے عسکری معاہدے اسی مذموم سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ ''کواڈ‘‘ چار ممالک کی تنظیم ہے جس میں امریکا، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان شامل ہیں ۔ ''اوکس‘‘ میں امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اس معاہدے سے فرانس جیسا امریکی اتحادی بھی ناراض ہے ۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اسے فرانس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ آسٹریلیا کی فرانس سے جو دفاعی ڈیل ہوتے ہوتے رہ گئی‘ وہ 45بلین ڈالر مالیت کی 12 ایٹمی آبدوزیں تیار کرنے کا معاملہ تھا۔ یہ امریکا کی اپنے اتحادیوں سے غداری کے باب میں ایک نیا اضافہ ہے کہ فرانس آسٹریلیا کو جوہری آبدوز فراہم کرنے کا معاہدہ کیے ہوئے تھا‘ جسے نظر انداز کر کے امریکا اور برطانیہ نے آسٹریلیا کو جوہری پاورڈ سب میرین فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یورپی سیاستدانوں کی بڑے پیمانے پر جاسوسی ، کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد یورپ کی رسد کو روکنا ، افغانستان سے فوجی انخلا کے وقت اتحادیوں کو نظر انداز کرنا‘ ان تمام امور میں امریکا نے درحقیقت اپنے اتحادیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ '' امریکا فرسٹ‘‘ کی تعصبانہ سوچ کے تحت امریکا اپنے اتحادیوں کو سیاسی مفادات کا آلہ سمجھتا رہا۔ ایک زمانے میں آسٹریلیا چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا مگر امریکا نے آسٹریلیا اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کا فائدہ اٹھایا اور آسٹریلیا کے چین کے لیے برآمداتی آرڈرز چھین لیے۔ ''آسٹریلین ڈائیلاگ‘‘ میں شائع ایک مضمون کے مطابق امریکا ایسی کئی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو آسٹریلیا کے لیے نقصان دہ ہیں اور چین کے خلاف امریکی اقتصادی اتحاد کو فروغ دینا آسٹریلیا کی ایک ''غلطی‘‘ ہوگی۔
''کواڈ ‘‘ہو یا ''اوکس‘‘، دونوں کے قیام کا مقصد چین کا گھیرائو ہے۔ کواڈ بنیادی طور پر ایسی تنظیم ہے جسے 2007ء میں اُس وقت کے جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے نے اُس وقت کے امریکی نائب صدر ڈک چینی، آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ اور بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ مل کر قائم کیا تھا۔ بعد ازاں جب آسٹریلیا میں کیوین روڈ کی حکومت آئی تو انہوں نے اس حوالے سے چینی احتجاج کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کر لی؛ البتہ بھارت، جاپان اور امریکا نے فوجی مشقیں جاری رکھیں۔ اوکس ایک سہ فریقی فوجی اتحاد ہے جس کا مقصد انڈو پیسیفک ریجن میں چین کے غلبے کو روکنا اور 1945ء کے بعد کے ورلڈ آرڈر کا دفاع کرنا ہے۔ امریکا کی اس وقت سر توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح چین کی ابھرتی قوت کے سامنے بند باندھا جائے تاکہ اس کی اکانومی کو بھی نقصان ہو اور اس کی بری، بحری، فضائی اور خلائی تحقیق کی قوت کو بھی نیچے لایا جا سکے لہٰذا امریکا نے اوکس معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو جدید ترین جوہری آبدوز ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کر سکے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکا نے یہ ایڈوانس ٹیکنالوجی صرف ایک بار (1958ء میں ) اپنے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ کو دی تھی۔ اس وقت دنیا میں عمومی طور پر تین قسم کی آبدوزیں پائی جاتی ہیں۔ ایک ڈیزل سے چلنے والی سادہ آبدوزیں‘ جو میزائل سے لیس ہوتی ہیں ، دوسری آبدوزیں وہ ہیں جو چلتی تو ڈیزل سے ہیں لیکن ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے سبب بڑے پیمانے پر تباہی لا سکتی ہیں۔ تیسری قسم کی آبدوزیں ایٹمی ایندھن سے چلتی ہیں اس لیے یہ بہت لمبے عرصے تک زیرِ آب رہ سکتی ہیں۔ یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھی ہو سکتی ہیں اور بہت تباہ کن بن جاتی ہیں۔ ایٹمی ایندھن سے چلنے والی آبدوزیں چونکہ بہت لمبے عرصے تک زیرِ آب رہ سکتی ہیں اس لیے ان کو ڈھونڈنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
دوسری طرف امریکا یورپی یونین کے ساتھ مل کر چین کے خلاف اقتصادی جنگ بھی شروع کرنے کے درپے ہے۔ اس وقت امریکا سائبر ٹیکنالوی اور زیرِ سمندر ٹیکنالوجی پر کھربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے‘ وہ چین کو اسی طرح اسلحے کی دوڑ میں الجھانا چاہتا ہے ، امریکا کی اس خطرناک حکمتِ عملی سے دنیا بالخصوص ماحولیات کی تباہی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ امریکا اب وسطی یا جنوبی ایشیا کے بجائے چین کے خلاف مشرقی ایشیا میں اتحادی بنا رہا ہے، انڈوپیسیفک سمندر میں سیٹو کی نئی شکل 'اوکس ‘ہے۔ اور انڈو پیسیفک ریجن میں چین امریکا سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔ نیوکولڈ وار کا سارا مرکز اب یہی علاقہ ہوگا۔ جنوب مشرقی ایشیا عسکری اور اقتصادی لحاظ سے اب دنیا کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کے اثرات بحرالکاہل ہی نہیں بحرِ ہند کے ممالک پر بھی مرتب ہوں گے۔