تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     11-10-2021

ٹی ٹرالی اور لڑکیاں

ہمارے برصغیر یعنی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں عمومی طور پر رشتے چائے کی پیالی پر طے ہوتے ہیں۔ لڑکے والے جب لڑکی کے گھر رشتہ دیکھنے جاتے تو ادھر تین‘ چار دن پہلے سے ہی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ گھر کا کونا کونا چمکایا جاتا ہے ہر جالا اور مٹی کے داغ دھبے گھر سے مٹا دیے جاتے ہیں۔ ڈارئنگ روم کے صوفوں پر سے چادریں ہٹا دی جاتی ہیں اور ہر وہ چیز نکال کر صاف کی جاتی ہے جو گھر والوں کے لیے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مہمانوں کے لیے نئے برتن نکالے جاتے ہیں‘ کئی سیٹ تو ویسے ہی پیک ہوتے ہیں اور ان کو مدتوں سے نہیں کھولا گیا ہوتا تاکہ یہ نئے ہی رہیں۔ ''خاص مہمانوں‘‘ کی آمد پر ان نئے برتنوں کو کھولا جاتا ہے، گھر کی صفائی کے بعد اس چیز پر توجہ دی جاتی ہے کہ کھانے پینے میں کیا رکھا جائے گا۔ چائے کے نام پر رشتہ لے کر آنے والوں کو ایک پُرتکلف عشائیہ دیا جاتا ہے۔
مڈل کلاس کے پاس ہے ہی کیا عزت اور دسترخوان کے سوا؟مزید کچھ خواب ہوتے ہیں جو وہ اپنے بچوں کے لیے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان خوابوں میں سے ایک خواب یہ ہے کہ ان بچی کا گھر بس جائے اور وہ اپنے گھر پر راج کرے۔ عمومی مڈل کلاس گھرانوں میں بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کے بیاہ کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں، ماں چھوٹی چھوٹی چیزیں ٹرنک میں بھرنا شروع کر دیتی ہے یا کمیٹی ڈالتی رہتی ہے جس سے گاہ بہ گاہ بستر، چادروں، کمبلوں اور رضائیوں جیسی چیزیں خرید کر رکھ لی جاتی ہیں۔ ماں باپ کی ساری زندگی اسی جدوجہد میں گزر جاتی ہے اور جب بچی کا رشتہ آتا ہے تو ساری جمع پونجی اور پوری کمیٹی خرچ کرکے لڑکی کے ''ہونے والے سسرال‘‘ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر لوگوں کے رشتے خاندان میں ہوجاتے ہیں اور کچھ رشتے کرانے والیوں کو کہہ رکھتے ہیں کہ کوئی مناسب رشتہ آئے تو بتانا۔ جب یہ خبر ملتی ہے کہ رشتہ کرانے والی لڑکے والوں کو ساتھ لے کر آ رہی ہے تو ایک طرف کافی خوشی ملتی ہے تو دوسری طرف کچھ خدشات بھی گھیر لیتے ہیں کہ کتنا خرچہ ہوگا‘ کتنے مہمان ہوں گے اور بات طے بھی ہوپائے گی یا نہیں۔ شوکیس سے چینی اور کانچ کے برتن نکلتے ہیں‘ گرم گرم پکوان گھر پر تیار ہوتے ہیں‘ بیکری آئٹمز کا ایک ڈھیر میز پر سجایا جاتا ہے اور ٹی سیٹ کو ٹرالی پر رکھ کرکے لڑکی کو کمرے میں آنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ گھر میں ایک دو ڈشز ضرور تیار کی جائیں تاکہ صرف بازار کی چیزوں کا طعنہ نہ ملے۔ کمرے میں جب لڑکی ٹرے لے کر یا ٹرالی کے ساتھ داخل ہوتی ہے توبہت سے لوگ اس کی لمبائی چوڑائی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں ناپ رہے ہوتے ہیں۔ اس قد کتنا ہے‘ اس کا رنگ کیسا ہے‘ اس کے ہاتھ پائوں ٹھیک ہیں، دانت پورے ہیں، ناک کھڑی ہے یا نہیں، زیادہ موٹی تو نہیں، کالی تو نہیں، بال لمبے اور گھنے ہیں یا نہیں، چال ٹھیک ہے، آواز کیسی ہے، کھانا بنانا آتا ہے، کپڑے دھو سکتی ہے، تعلیم کتنی ہے اور کیا ''گونگی‘‘ بن کر سسرال میں زندگی گزار لے گی۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اگر تمام مذکورہ سوالات کے جواب ہاں میں ہوں‘ تبھی رشتے کے لیے ہاں کی جائے۔ کچھ خواتین تو اس موقع پر باقاعدہ ہاتھ لگاکر لڑکی کو چیک کرتی ہیں کہ وہ ٹھیک ہے۔ جس وقت لڑکی کیتلی سے گرم گرم چائے کپوں میں انڈیل رہی ہوتی ہے‘ اس چائے کی بھاپ میں اس کا ماضی‘ حال اور مستقبل بھی دھندلا رہا ہوتا ہے۔ دوسری طرف مہمان بھاپ کے اُس پار لڑکی کی زندگی کے بیس‘ بائیس سالوں کو بیس بائیس سیکنڈ میں جانچ کر‘ ان پر تنقید کا بہانہ سوچ رہے ہوتے ہیں۔ سموسے اور کیک کے ہمراہ چائے پیتے ہوئے پوری کوشش کی جاتی ہے کہ لڑکی میں کوئی نَقص نکالا جائے، اس کے شخصیت یا ظاہری خدوخال کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ اس کا رنگ پھیکا ہے‘ ناک ٹھیک نہیں‘ آنکھیں چھوٹی ہیں‘ گردن صراحی کی طرح نہیں‘ ایسے تمام جملے لڑکی کے گھر میں بیٹھ کر‘ اس کے ماں باپ کے پیسوں سے آیا کیک اور روسٹ کھاتے ہوئے پوری بے شرمی سے بول دیے جاتے ہیں۔ اگر لڑکی چاند کا ٹکڑا ہو تب بھی اس کے طریقے سلیقے یا پھر کھانے اور برتنوں میں عیب نکل آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چائے مزیدار نہیں تو کوئی بیکری بدلنے کا مشورہ دیتا ہے‘ کسی کو کراکری پرانی لگتی ہے اور کچھ نہیں تو لڑکی والوں کے رہائشی ایریا کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
اس ساری صورتحال میں لڑکی والے اس وجہ سے چپ رہتے ہیں کہ اگر کل کلاں کو ان کی بیٹی کو رخصت ہو اسی گھر میں جانا پڑا تو اسے اس سب کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا مگر جو پہلی ملاقات سے ہی خائف ہوں‘ وہ آگے چل کر کس طرح اچھے ثابت ہو سکتے ہیں؟ لڑکے والوں کی طرف سے آئی ہوئی خواتین کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی والوں کے پورے گھر کا دورہ کیا جائے‘ بیڈ رومز میں تانک جھانک کے بعد کچن اور واش رومز کا بلاوجہ چکر لگایا جاتا ہے۔ جیسے باز اپنے شکار کی طرف لپکتا ہے‘ ویسے ہی کوئی غلطی پکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے تاکہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کا مذاق اڑایا جا سکے۔ خوب خاطر مدارت کے بعد چائے کی ٹرالی واپس چلی جاتی ہے، لڑکے والے اٹھ کر جانے لگتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سوچ کر جواب دیں گے اور جو زیادہ بے دید و بے لحاظ ہوتے ہیں‘ وہ اسی وقت انکار کرکے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے بیٹی پیاری نہیں۔ اس وقت والدین حیران رہ جاتے ہیں کہ جس بچی کو انہوں نے اتنے پیار سے پالا‘ اس کو دینی و دنیاوی تعلیم دی‘ جس کے ہنسنے سے ان کے آنگن میں بہار آجاتی ہے‘ اس کو کوئی بدصورت کیسے کہہ سکتا ہے۔
جب اس خطے کا رنگ ہی سانولا ہے تو گوری بہو کی ڈیمانڈ کیوں کی جاتی ہے؟ کچھ لڑکیاں اسی وجہ سے مضرِ صحت کریمیں خرید کر اپنی سکن خراب کرلیتی ہیں۔ موٹا‘ پتلا جسم‘ سب اللہ کی دین ہے، پھر کیوں کسی کو موٹا کہہ کر اس کی تذلیل کی جاتی ہے؟ اکثر لڑکیاں پتلے ہونے کے چکر میں بسا اوقات جان سے گزر جاتی ہیں۔ جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے لوگ سود کے جال میں پھنس جاتے ہیں‘ والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے لیکن جہیز نہیں پورا ہوپاتا۔ اس کے علاوہ جو دل کو ٹھیس پہنچتی ہے‘ جو احساسات مجروح ہوتے ہیں‘ ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔خدارا! ایسے مواقع پر کسی کا دل نہ توڑیں‘ حقوق العباد کا خیال کریں۔ اگر ہم نبی پاکﷺ کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی خواتین پر سختی نہیں کی‘ اپنی ازواجِ مطہرات سے کوئی جہیز نہیں لیا۔ہم چونکہ بہت عرصہ ایک ہندو اکثریتی معاشرے میں رہے ہیں‘ اسی لیے ان کے بہت سے رسوم و رواج کی جھلک ہمارے معاملاتِ زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ جہیز کی آڑ میں لڑکی کے گھر والوں سے جتنا پیسہ لوٹ سکتے ہو لوٹ لو‘ تحائف لو‘ سلامیاں لو‘ پلاٹ لو‘ گاڑی لو اور جب تک ان کی بیٹی آپ کے گھر میں ہے‘ اس کے ماں باپ کو نچوڑتے رہو‘ یہ نہایت غلط رسم ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ صرف رائج بلکہ فروغ پذیر ہے۔ کسی کے گھر بچی کو دیکھنے جائیں تو ان کی میزبانی کی تعریف کریں اور اگر رشتہ نہیں بھی ہو پاتا، تب بھی بچی کو دعائیں دے کر آئیں۔ عیب جوئی مت کریں، لڑکی والوں کو کمزور جان کر ان کی تذلیل مت کریں، ان کی بیٹی کو کالا‘ چھوٹا قد‘ بدصورت مت کہیں۔ اللہ کی تخلیق کا مذاق مت بنائیں۔ جب چائے کی ٹرالی پکڑے سہمی ہوئی لڑکی کمرے میں داخل تو اس کو اٹھ کر گلے لگائیں اور پیار سے اپنے ساتھ بٹھائیں۔ آپ کسی کی بیٹی کو عزت دیں گے تو اللہ آپ کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرے گا۔ اس کے علاوہ جہیز لینے اور دینے سے انکار کریں‘ شادی کی رسومات پر بلاوجہ پیسے مت خرچ کریں‘ شادی سادگی سے کریں اور مسجد میں نکاح کے رواج کو عام کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved