تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-10-2021

حالات نئی سوچ چاہتے ہیں

ہم زندگی بھر بہت کچھ بدلتا ہوا دیکھتے ہیں۔ تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور دنیا کی رعنائی میں اضافے یا کمی کا ذریعہ ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ لوگ جب حالات سے تنگ آ جاتے ہیں اور معاملات درست کرنے کی کوشش میں بار بار ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو زمانے کو بُرا کہنے لگتے ہیں۔ ایک مستند حدیث ہے کہ زمانے کو بُرا نہ کہو کہ ربِ کریم خود زمانہ ہے۔ یہ بھی اللہ ہی کا طے کردہ معاملہ ہے کہ ہمارے ارد گرد کچھ بھی یکساں نہیں رہتا۔ تبدیلیاں ہر آن رونما ہوتی رہتی ہیں۔ ان تبدیلیوں ہی سے تو دنیا کا حسن برقرار ہے۔ اگر سب کچھ یکسانیت سے ہم کنار رہے تو ہم بیزاری سے دوچار ہو رہیں۔ سبھی کچھ بدلتا رہتا ہے، اگر نہیں بدلتا تو تبدیلی کا چلن۔ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ایک سوال بار بار ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے کہ جب سب کچھ بدل رہا ہو تو ہم کیا کریں، اپنے آپ کو تبدیلی کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کس راہ پر گامزن ہوں۔ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ جب سبھی کچھ بدل رہا ہو تو آپ بھی بدل جائیے۔ اللہ نے کائنات کا نظام بنایا ہی اِس نہج پر ہے کہ سب کچھ بدلتا رہے اور نیرنگی پیدا ہوتی رہے۔ انسان اِسی کائنات کا محض حصہ نہیں بلکہ کلیدی اور مرکزی حصہ ہے۔ دنیا کی نیرنگی سے ہم اُسی وقت کماحقہٗ مستفید ہوسکتے ہیں جب ہم بھی خود کو بدلنے پر مائل ہوں۔ بدلتے ہوئے حالات بدلی ہوئی سوچ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ جس فکری سطح پر رہتے ہوئے آپ نے کسی مسئلے کا سامنا کیا ہے اُس سے بلند سطح پر جاکر ہی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق اِسی کا تو نام ہے کہ ہم علمی اور فکری سطح پر جہاں کھڑے ہیں‘ اُس مقام سے آگے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہمارے ماحول میں بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہو تو فکری سطح پر اُس سے ہم آہنگی پیدا کیے بغیر ہم اپنے لیے بہتری کے امکانات یقینی نہیں بناسکتے۔
زمانہ تو ہر آن بدلتا رہتا ہے مگر ہاں! بڑی تبدیلیاں زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہیں۔ ایسی تمام تبدیلیوں کے جواب میں ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہو اُس کے لیے تیاری لازم ہے۔ تیاری کے بغیر کچھ کرنا تو دور کی بات‘ سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ہر دور اپنے ساتھ چند چیلنج لاتا ہے۔ کوئی بھی چیلنج فکری سطح بلند کرنے کے سوا یا اِس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا۔ ہر انسان کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہی چاہیے۔ تبدیلی یعنی بہتری۔ ہر نئی صورتِ حالات ہم سے فوری تفکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ فکری سطح بلند کیے بغیر ہم اپنے آپ کو اپنے عہد سے ہم آہنگ نہیں رکھ سکتے۔ اب آئیے اس سوال کی طرف کہ فکری سطح بلند کرنے سے کیا مراد ہے۔ ہمیں مختلف سطحوں پر سوچنا پڑتا ہے۔ فکری ساخت کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ ہر پرت ایک خاص نہج تک لے جاتی ہے۔ شعبہ بدلتا ہے تو سوچ بھی بدلتی ہے۔ معاشی معاملات میں آپ کو جس انداز سے سوچنا ہوتا ہے وہ انداز معاشرتی معاملات میں کبھی مکمل طور پر کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا۔ معاشی معاملات میں پروفیشنل اِزم اور دیانت تو چلتے ہیں، دوستی نہیں چلتی جبکہ معاشرتی معاملات میں دوستی اور اخلاص چلتے ہیں نہ کہ پروفیشنل اِزم۔ بالکل اِسی طور اہلِ خانہ کے معاملے میں آپ کی جو سوچ ہوتی ہے وہ باقی خاندان کے معاملات میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ دفتر یا فیکٹری کے ساتھیوں یعنی رفقائے کار سے معاملت میں آپ جو طرزِ فکر و عمل اختیار کرتے ہیں وہ اہلِ محلہ یا اہلِ علاقہ سے معاملت میں بروئے کار نہیں لائی جاسکتی۔ ہر معاملے میں الگ سوچ درکار ہوتی ہے۔ جب ہم بیشتر معاملات میں ایک ہی انداز یا زاویے سے سوچتے ہیں تب خرابیاں بڑھتی ہیں‘ مسائل کی پیچیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور حل تلاش کرنے کا مرحلہ دشوار تر ہوتا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں ہم فکر و نظر کے معاملے میں شدید الجھنوں کا شکار ہیں۔ چیلنج بڑھتے جارہے ہیں۔ فکر و نظر کی پختگی کی منزل تک پہنچنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ پریشان کن ضرور ہے، حیرت انگیز نہیں۔ انسان مادّی ترقی کے جس منہج پر پہنچ چکا ہے وہاں یہ سب ہونا ہی ہے۔ فی زمانہ کم و بیش سبھی انسانوں کے حواس تابڑ توڑ حملوں کی زد میں ہیں۔ ہر شعبہ فقید المثال پیشرفت کا حامل ہے۔ اب کسی بھی شعبے میں کامیابی اور شہرت کا حصول آسان نہیں۔ خالص پیشہ ورانہ شعبوں میں کچھ کر دکھانے کے لیے انسان کو شدید نوعیت کی مشقت کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے میں محض سوچنا کافی نہیں بلکہ ڈھنگ سے سوچنا بھی آنا چاہیے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں حکومتیں عوام کو ڈھنگ سے سوچنے کے قابل بنانے پر خاص توجہ دیتی ہیں تاکہ اُن میں قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرنے کا شعور پروان چڑھے اور وہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں۔
ہمارے جیسے معاشروں میں اب تک یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ سوچنا بھی ہے! سوچنے کو اہمیت دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کسی بھی سطح کی حکومت اس بات کو زیادہ پسند نہیں کرتی کہ لوگ ڈھنگ سے سوچنے کے قابل ہوسکیں۔ عوام کو شعور کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے بجائے ریاستی مشینری چاہتی ہے کہ وہ ذہنی اعتبار سے بھیڑ بکری کی سطح پر رہیں یعنی خود سوچنے کی زحمت گوارا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی تقلید کے ذریعے جئیں۔ اہلِ دانش اور اہلِ قلم کو بہت کچھ کرنا ہے۔ اُنہیں زیادہ متحرک ہوکر عام آدمی کو سمجھانا ہے کہ جینے کا وہی ڈھنگ کام کا ہے جو فکر کے نتیجے میں پیدا ہو اور عمل کے ذریعے پروان چڑھے۔ عمل بھی وہی کارگر ہے جو فکر کا نتیجہ ہے۔ سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کر گزرنے سے زندگی کا معیار بلند نہیں کیا جاسکتا۔ اہلِ علم کو قلم کے ذریعے جہاد کرنا ہے یعنی لوگوں کو بتانا ہے کہ اُن کے لیے سوچنا کس حد تک لازم ہے۔ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے والے سوچنے کی طرف اُسی وقت آسکتے ہیں جب وہ یہ محسوس کریں کہ ڈھنگ سے سوچنے کے قابل ہونے کی صورت میں اُن کی زندگی میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی رونما ہوگی، کیریئر پروان چڑھے گا اور معاشرتی سطح پر اُن کے لیے زیادہ قبولیت پیدا ہوگی۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کے معاملات کا سرسری کا بھی جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ساری کی ساری مادّی ترقی صرف اور صرف سوچنے کے عمل سے ممکن ہو پائی ہے۔ ہر شعبے میں غیر معمولی تفکر کی عادت پروان چڑھائے بغیر کوئی بھی معاشرہ کسی بھی درجے میں پروان نہیں چڑھ سکتا۔ علوم و فنون میں پیش رفت اُسی وقت ممکن ہوتی ہے جب فکر و نظر کو حرزِ جاں بنایا جائے۔ اہلِ علم بھی اُسی وقت کچھ کر پاتے ہیں جب وہ اپنے شعبے میں ہر اہم پیش رفت پر نظر رکھیں اور اُس کے مطابق تبدیل ہوں۔ آج ہمارے معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت سوچ کی ہے۔ اور سوچ بھی وہ جو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ سوچنے کا عمل ہی ہمیں اُن جہالتوں سے بچا سکتا ہے جن کے ہاتھوں ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی شدید منفی رجحانات کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔
حکومت سے تو یہ توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ معروضی طرزِ فکر کو پروان چڑھانے میں کوئی کردار ادا کرے گی۔ کاروباری طبقے کا مفاد بھی یہ نہیں ہے۔ تو پھر عام آدمی کو ڈھنگ سے سوچنا کون سکھا سکتا ہے یا سکھانا چاہے گا؟ اہلِ علم، اورکون؟ اہلِ علم و دانش کا فرض ہے کہ لوگوں کو معروضی انداز سے اور غیر معمولی تبحر کے ساتھ سوچنے کی تحریک دیں۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کو سوچنے پر مائل کرنے میں بھی ایک مدت لگے گی۔ یہ تو فطری امر ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ ابھی تو کوشش بھی شروع نہیں کی گئی۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے یعنی تاخیر کی گنجائش کب کی ختم ہوچکی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved