تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-10-2021

لال سوہانرا کی کہانی…(1)

اب اس سیلانی اور بے چین طبیعت کا کیا کیا جائے؟ بابر اور ملک خالد کا تقاضا کہ میں برطانیہ چکر لگا لوں۔ میں نے انہیں کہا کہ سفر اس امید پر کیاجاتا ہے کہ اس کے اختتام پر سہولت ملے گی‘ دوستوں کی محبت سے لطف اندوز ہوں گے‘ قابلِ دید مقامات سے آشنائی ہوگی اور طبیعت کو سکون حاصل ہوگا مگر اب کیا ہو رہا ہے؟ پہلے ڈیڑھ دو گنا کرایہ، پھر کورونا نیگٹو رپورٹ کی خجالت، سفر کی مشقت کے بعد پھر ایک عدد ٹیسٹ کی مصیبت اورخرچہ۔ غرض سفر کے اختتام پر بھی مشقت ختم نہیں ہوتی۔ خیال آیا کہ ایک عرصہ ہو گیا ہے لال سوہانرا نہیں گیا۔ تب دل سے پوچھا: اے دل! کیا خیال ہے ؟ دل نے کہا: ضرور چلتے ہیں۔ اور جب دل تائید کر دے تو پھر بھلا کون ہے جو روک سکے؟ ڈاکٹر عنایت سے پوچھا کہ چلیں گے؟ جواب ملا نیکی اور پوچھ پوچھ۔
لال سوہانرا عجیب جگہ ہے بے چین سے بے چین دل لگ جائے۔ اب صرف ایک مرحلہ درپیش تھا اور وہ تھا اپنے پسندیدہ ریسٹ ہاؤس میں رہائش کی سہولت کا حصول۔ یہ کام فرحان انور نے اتنا آسان کر دیا کہ گویا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ کیا جگہ ہے؟ سامنے سر سبز میدان، اُس کے پار رواں نہر اور اس نہر کے پار ایک راستہ جس کا اختتام جھیل پر ہوتا ہے۔ یہ پٹی سار جھیل ہے۔ کئی سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی جھیل جس کی سطح پر لاکھوں کنول اور ہزاروں پرندے ہیں۔ ریسٹ ہاؤس کے دائیں طرف ایک چھوٹی سی جھیل ہے۔ اس کے پیچھے شیروں کا جنگلا تھا جس میں اب نیل گائے ہیں۔ اس کے آگے جنگل ہے اور پیچھے ایک لق و دق صحرا ہے۔ سینکڑوں میل پر پھیلا ہوا چولستان، خواجہ فرید کی روہی۔ ٹوبے‘ چنکارہ‘ لومڑیاں‘ سیاہ گوش‘ تلور‘ شکرے اور ریت پر دوڑتے ہوئے سانڈے۔ حکیم فیروز مرحوم بتاتے تھے کہ کبھی ادھر گریٹ انڈین بسٹرڈ یعنی ''بکھڑ‘‘ بھی ہوتا تھا مگر اب ندارد ہے۔ سنا ہے بھارت میں بھی بس سو ڈیڑھ سو باقی بچے ہیں۔ اڑنے والے پرندوں میں دنیا کا سب سے بڑا پرندہ۔ یہ کبھی چولستان کی شان تھا مگر اب چولستان میں معدوم ہو گیا ہے۔
ایک دن کی مسافت کے اندر اندر سب کچھ موجود ہے۔ رواں پانی‘ جھیل‘ پرندے‘ پارک‘ سیاہ ہرن‘ جنگل اور صحرا۔ ''دلِ من‘ مسافرِ من‘‘ کو بھلا اور کیا چاہئے؟ ایک زمانہ تھا یہ مسافر بچوں کو گاڑی میں بٹھاتا اور لال سوہانرا نکل پڑتا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے سال لال سوہانرا کا چکر لگ جاتا تھا۔ پچاس پچاس سال پرانے شیشم کے درخت‘ چالیس چالیس سال قدیم سفیدے کے درخت اور سفیدہ بھی دو اقسام کا (ممکن ہے اقسام اس سے بھی زیادہ ہوں‘ مگر مجھ جیسے اناڑی کے نزدیک یہ دو اقسام ہیں) سینکڑوں سیاہ ہرن‘ روہی کے اندر دور تک ریگستان کا سفر‘ کریر کے درخت‘ ٹوبوں پر زندگی کی رونق اور جنگل میں میلوں تک ڈرائیونگ۔ یہ تب تک چلتا رہا جب تک سفر میں ساتھ دینے والی موجود تھی اور بچے بھی ابھی اس حد تک مرضی کے مالک نہیں بنے تھے کہ انکار کر دیتے۔ بیس سال پہلے جب آخری دفعہ لال سوہانرا گیا تو جنگل کی بربادی کا آغاز ہو چکا تھا۔ پھر سنا کہ شیشم اس بے دردی سے کٹی ہے کہ جنگل کا سارا حسن برباد ہو گیا ہے۔ درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور چوری نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ پنجاب میں کبھی شیشم کے درختوں کی بہتات تھی۔ جنوبی پنجاب میں تین چار ذخیرے بڑے مشہور تھے۔ چیچہ وطنی‘ پیرووال‘ لال سوہانرا اور چک کٹورا۔ ان میں سے چک کٹورا تو بالکل ختم ہو گیا۔ پیرووال اور لال سوہانرا بھی بری طرح برباد ہو گئے۔ درختوں اور جنگلوں کا یہ شوقین بھلا ان برباد شدہ جنگلوں میں کیا کرتا سوائے کڑھنے کے ؟ سو ان سے کنارا کر لیا۔ اب کسی نے بتایا کہ لال سوہانرا کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ اوپر سے مزید بہتری یہ آئی کہ محکمہ جنگلات و حیات جنگلی کے سیکرٹری کے طور پر ایک اہل شخص کا تقرر ہو گیا۔ یہ تعیناتی حبس زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔
شاہد زمان اس سے قبل گلگت بلتستان میں سیکرٹری وائلڈ لائف تھے۔ وہاں معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ کیلئے ان کے کیے گئے اقدامات کا بڑا مثبت نتیجہ نکلا۔ خاص طور پر مارخور کے حوالے سے وہاں کی لوکل آبادی کو شکار کیلئے جاری کئے جانے والے پرمٹ کی رقم کا بیشتر حصہ دینے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہاں کی لوکل آبادی نے ناجائز شکار کا از خود سدباب کردیا اور اپنے علاقے کی حیات جنگلی کی ازخود حفاظت شروع کر دی۔ porchers یعنی ناجائز شکار تقریباً ناممکن ہو گیا کیونکہ مقامی باشندوں کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ شکار ممکن ہی نہ تھا۔ مقامی آبادی کو جب شکار کے پرمٹ کی رقم کا بیشترحصہ جائز طریقے سے ملنا شروع ہو گیا تو انہوں نے ناجائز شکار کرنے والوں کا خود محاسبہ شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر مارخور کے پرمٹ ہی کو لیں تو گزشتہ سال ایک مار خور کے شکار کے پرمٹ کی بولی باسٹھ ہزار ڈالر لگی۔ یہ رقم پاکستانی روپوں میں ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ مارخور‘ آئی بیکس‘ مارکوپولو شیپ‘ نیلی بھیڑ اور دوسرے جنگلی جانوروں کے شکار کے جاری کردہ کل چوہتر پرمٹوں کے عوض کل چار اعشاریہ چھیاسی ملین ڈالر یعنی ستر کروڑ روپے کمائے گئے بلکہ ان اقدامات سے حیات جنگلی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ 2001ء میں مارخور کی تعداد محض پندرہ سو سے دو ہزار کے درمیان تھی اب دو گنا ہو چکی ہے۔ بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ اب گلگت بلتستان سے واپس پنجاب آنے والے نئے سیکرٹری جنگلات و حیات جنگلی نے پنجاب میں بھی اسی ڈیزائن پر اقدامات کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ اس میں سب سے اہم پیش رفت یہ کی جا رہی ہے کہ ناجائز شکار پر محکمے کے اہلکاروں کو شکاریوں پر عائد کئے گئے جرمانے کی رقم کا بیشتر حصہ بطور انعام دیا جائے گا۔ اس سے یہ ہوگا کہ محکمہ کے اہلکار جو پہلے شکاریوں کے ساتھ مل کر ناجائز شکار کروانے کے عوض رشوت لیتے تھے اب جائز طریقے سے انعام کی رقم وصول کر سکیں گے۔
لال سوہانرا میں کالے ہرنوں کیلئے دو بڑے جنگلے مختص ہیں ان میں ساڑھے پانچ سو ہرن موجود ہیں جبکہ یہاں پیدا ہونے والے چھ سو سے زائد ہرن پرائیویٹ شوقینوں اور چڑیا گھروں کو دیے جا چکے ہیں۔ فی الوقت بلیک بک انکلیو میں موجود ہرنوں کی تعداد ان کیلئے میسر جگہ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو چکی ہے اور خاص طور پر نر ہرن اپنی مطلوبہ تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ ہرن پرائیویٹ لوگوں کو نسل کشی اور ذاتی فارمز میں رکھنے کی غرض سے فروخت ہوتے رہے ہیں لیکن اب ان کی فروخت بند ہے۔ جس کے باعث جنگلے میں قید یہ ہرن جگہ کی تنگی کے باعث مختلف مسائل کا شکار ہیں لیکن دوسری طرف یہ عالم ہے کہ چار من سے زائد وزن کی نیل گائے سرکاری نرخ پر پچاس ہزار روپے میں فروخت ہوئیں اور خریدنے والوں نے انہیں پالنے اور نسل کشی کرنے کے بجائے ذبح کیا اور گوشت کھا گئے۔ پچاس ہزار روپے میں تو چار من وزن کی گائے بھی منڈی میں دستیاب نہیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved