تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     12-10-2021

بلوچستان: سیاسی بحران اور زلزلے کی تباہ کاریاں

اہم جغرافیائی محل وقوع اور شاندار، قابل فخر، سماجی اور ثقافتی روایات کے باوجود، بلوچستان جب کبھی زلزلوں اور سیلابوں کی صورت میں یا سیاستدانوں کے پیدا کردہ بحرانوں کی شکل میں تباہی، بربادی اور عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے، اس کے نتائج نہ صرف بلوچستان کو ایک لمبے عرصے تک بھگتنا پڑتے ہیں بلکہ ان کے اثرات سے ملک کا باقی حصہ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ 7 اکتوبر کے زلزلے سے اب تک 24 افراد‘ جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور درجنوں ابھی تک لا پتہ ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی ہرنائی میں ہوئی مگر کوئٹہ اور سبی بھی 5.9 طاقت کے اس زلزلے سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ اطلاعات کے مطابق بعض مقامات پر 70 سے 80 فیصد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت مٹی کے بنے ہوئے گھروں کی ہے، جن کے مکین اب باہر گلیوں، سڑکوں یا میدانوں میں کھلے آسمان تلے اپنے بچے کھچے سامان اور خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے افراد خانہ کے ساتھ رات دن گزارنے پر مجبور ہیں۔
معلوم نہیں 2005ء کے زلزلے سے سبق سیکھتے ہوئے، وفاقی اور صوبائی سطح پر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کیلئے جو ڈیزاسٹر مینجمنٹ تنظیم بنائی گئی تھی، ان کے پاس ہزاروں ٹن مٹی اور کنکریٹ کو ہٹا کر دبے ہوئے انسانوں کو نکالنے کیلئے ضروری مشینری اور مہارت موجود ہے یا نہیں‘ تاہم پاک فوج کے دستے حسب روایت متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر بھی متاثرہ علاقوں اور زلزلے میں زخمی ہونے والوں کی امداد کیلئے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے متاثرہ علاقوں میں گئی ہیں مگر میڈیا کے ساتھ متاثرین کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریلیف مہیا کرنے کی رفتار نہ صرف سست ہے بلکہ انتہائی ناکافی بھی۔ صوبائی حکومت نے زلزلے سے تباہ ہو جانے والے مکان کی تعمیر کیلئے ہر خاندان کو 2 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے، جو مہنگائی کے اس دور میں انتہائی کم ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے بلوچستان کی صوبائی حکومت ہزاروں متاثرین کو شاید ان کی ضروریات کے مطابق معاوضہ نہ دے سکے اس کیلئے وفاقی حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے اور جس طرح افغانستان کے عوام کو ریلیف مہیا کرنے کیلئے وزیر اعظم نے قومی سطح پر ایک کوآرڈی نیشن سیل قائم کرنے کا اعلان کیا، بلوچستان کے زلزلہ متاثرین کیلئے اسی قسم کا اقدام کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سوشل سکیورٹی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے بیان کے مطابق وفاقی حکومت بلوچستان کے زلزلہ زدگان کے لیے ایک پیکیج کے متعلق سوچ بچار کر رہی ہے۔ اس سے پہلے کی وفاقی حکومتوں کے رویے بھی اس سے مختلف نہیں تھے۔
بلوچستان میں 1998 اور اس کے بعد 2010ء میں تباہ کن سیلاب آئے تھے۔ صوبے کا سڑکوں اور پلوں کی صورت میں جو تھوڑا بہت انفراسٹرکچر تھا، ان سیلابوں میں تباہ ہو گیا تھا۔ ان میں سے بیشتر پلوں اور سڑکوں کی مرمت اب تک نہیں کی گئی اور یہ بات یقینی ہے کہ 7 اکتوبر کا زلزلہ اپنے پیچھے جو تباہی اور بربادی چھوڑ گیا ہے، اس کے نشان بھی کئی برسوں تک قائم رہیں گے۔ اس لئے کہ صوبائی حکومت کو اس وقت اپوزیشن کی طرف سے شروع کی گئی ''وزیر اعلیٰ ہٹاؤ‘‘ مہم کا سامنا ہے اور ان کی تمام تر توجہ، توانائیاں اور وسائل اس مہم کو ناکام بنانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ زلزلہ زدگان کی طرف توجہ دینے کی اسے فرصت نہیں، اس کا ثبوت میڈیا پر متاثرین کی بیان کردہ داستانیں ہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے جاری بلوچستان کا سیاسی بحران بھی وفاقی حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف صوبائی حکومت میں گورننس اور ترقیاتی کام متاثر ہو رہے ہیں اور دوسری طرف غیریقینی اور کشیدگی کی اس فضا میں قومی مفادات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے‘ اس لئے کہ بلوچستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور معدنی دولت کی وجہ سے پاکستان کی علاقائی سلامتی اور معاشی ترقی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے‘ خصوصاً اس موقع پر جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو دہشتگرد تنظیمیں پُر کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
بلوچستان میں سیاسی اتحاد اور ریاست کی رٹ کو مؤثر طور پر نافذ کرنے والی ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے‘ مگر رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کی گزشتہ تقریباً نصف صدی کی تاریخ سیاسی عدم استحکام کی ایک افسوسناک اور لمبی کہانی ہے۔ اس عرصے میں بلوچستان میں کسی بھی صوبائی حکومت کو ٹک کر حکومت کرنے اور صوبے کو درپیش مسائل حل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کی وجہ ایک سابق وزیر اعلیٰ کا یہ بیان ہے کہ بلوچستان میں انتخابات ہوتے رہے ہیں‘ مگر صوبے میں ایک صحیح نمائندہ حکومت کو قائم نہیں ہونے دیا گیا اور اگر کسی طور کسی حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ صوبے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی تو اس کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے۔ صوبے میں وزیر اعلیٰ جام کمال کی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی مرکز میں برسر اقتدار تحریک انصاف کی حلیف ہے۔ صوبائی سطح پر بھی، تحریک انصاف کو 40 رکنی کابینہ میں نمائندگی حاصل ہے، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ نہ صرف اپوزیشن اور کابینہ میں شامل دیگر اتحادی پارٹیاں‘ جن میں تحریک انصاف بھی شامل ہے‘ وزیر اعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں، بلکہ جام صاحب سے خود ان کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کابینہ نے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ بلوچستان کا یہ سیاسی بحران گزشتہ جون میں صوبائی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے موقع پر شروع ہوا تھا۔ اپوزیشن نے اسمبلی کے گیٹ بند کرکے بجٹ پر بحث کو بلاک کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے گیٹ توڑ کر وزیر اعلیٰ کے حامی اراکین اسمبلی کو ایوان میں داخل ہونے اور بجٹ منظور کرنے کا موقع دیا۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ صوبائی معاملات میں اپوزیشن کو مکمل نظر انداز کرتے ہیں اور ہر کام اپنی مرضی سے کرتے ہوئے آمرانہ روش اختیار کی ہوئی ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے کوئٹہ کا دورہ کرکے وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن کے مابین صلح کروانے کی کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن دونوں اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ صوبے کے اس سیاسی بحران میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب جام صاحب کے تین وزرا اور دو معاونین خصوصی نے استعفا دے دیا۔ اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ اگر جام صاحب مستعفی نہ ہوئے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس تحریک کا ڈٹ کا مقابلہ کریں گے۔ اس سے اپوزیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے حکومتی اور دیگر ذرائع سے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ اگر ایسا کیا گیا تو بحران نہ صرف موجود رہے گا بلکہ مزید شدت اختیار کرے گا اور اس کے اثرات صوبے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ صوبے سے باہر وفاق تک محسوس کیے جائیں گے۔ اب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 14 اراکین کے دستخطوں سے تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔ صوبے کے اہم سٹیک ہولڈر خصوصاً وفاقی حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے بلوچستان کے بارے میں عدم توجہی پر مبنی اس روش کو ترک کرکے فوری طور پر سیاسی بحران کے حل اور زلزلے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved