تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-10-2021

اہلِ فکر و نظر سے مطلوب کردار

ہر جانب سے منفی خبریں ہی سننے کو ملتی ہیں۔ ایک طرف بے روزگاری کا رونا ہے تو دوسری طرف مہنگائی کا۔ اور غربت کا واویلا تو ہے ہی مستقل۔ ملک کرپشن کی کھائی میں گرا ہوا ہے۔ کوئی ایک شعبہ بھی کرپشن کی زد سے بچا ہوا نہیں۔ سرکاری مشینری کا تو خیر کہنا ہی کیا‘ نجی شعبے کا بھی حال بُرا ہے۔ منافع کی شرح بلند کرنے کے لیے لاگت کے معاملے میں اصولوں پر سودے بازی عام ہے۔ کاروباری طبقہ خام مال خاصے کم نرخوں پر خریدنے کی صورت میں بھی اپنے منافع کی کوئی حد از خود مقرر یا متعین نہیں کرتا۔ حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔ بہت سے معاملات اب اُس کے اختیار میں بھی نہیں رہے۔ سرکاری مشینری میں کرپشن جڑ پکڑ چکی ہے۔ سرکاری اہلکاروں کی اکثریت ''بالائی‘‘ آمدن کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے وہاں وہ اپنی چال چلنے سے گریز نہیں کرتا۔ جو کرپشن یا ناجائز ذرائع کی آمدن کے ساتھ جی رہا ہے وہ اپنی روش ترک کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ نیک و بد کا فرق سبھی جانتے ہیں مگر مرزا غالبؔ والا مخمصہ دماغ کو جکڑے رہتا ہے ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
کیا صرف ہمارے ہاں سرکاری مشینری کرپشن زدہ ہے؟ کیا صرف ہمارے ہاں کاروباری طبقہ منافع ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے اور لوگوں کی جیب خالی کرنے پر تلا رہتا ہے؟ کیا حکومتی پالیسیوں کی کمزوری صرف ہمارے معاشرے میں دکھائی دیتی ہے؟ کیا ایسا ہے کہ ہم خرابیوں کی طرف اِس حد تک جاچکے ہیں کہ اب کچھ کیا ہی نہیں جاسکتا؟ کیا اصلاحِ احوال کی کوئی صورت کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ہم جن الجھنوں سے دوچار ہیں ویسی ہی الجھنیں دوسرے بہت سے معاشروں کو بھی لاحق ہیں اور گزرے ہوئے زمانوں میں بہت سے معاشرے ایسی ہی الجھنوں سے دوچار رہے ہیں۔ تو پھر اُن معاشروں نے خرابیوں کا سدِباب کس طور کیا؟ یہ سوال ضرور غور طلب ہے اور اس حوالے سے غیر معمولی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ گوناگوں مسائل سے اَٹا ہوا کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت اصلاحِ احوال کی طرف جاسکتا ہے جب وہ خود ایسا چاہے یعنی عوام و خواص‘ سب کی سوچ یہ ہو کہ ملک و قوم کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوں۔ یہ سب کچھ خود بخود تو ہو نہیں جاتا۔ جب خرابیاں خطرناک یا ہلاکت خیز حد تک بڑھ گئی ہوں تب اپنی مدد آپ کی بنیاد پر کچھ کرنا پڑتا ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ اصلاحِ احوال کے بارے میں سوچنے کی طرف بھی مائل نہیں ہوسکا۔ بیشتر شعبے سڑ اور گل چکے ہیں۔ اخلاقی اقدار شدید کمزوری سے دوچار ہیں۔ روحانی اقدار کے بارے میں سوچنے کی تو کوئی زحمت بھی گوارا نہیں کر رہا۔ دین، آخرت، اخلاقی اقدار، تہذیبی روایات‘ یہ سب کچھ خواب و خیال کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اِس میں حیرت کی بات کچھ بھی نہیں۔ جب آوے کا آوا بگڑ چکا ہو تو اصلاح کی بات کرنے والوں کو لوگ چونک کر دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ کسی اور دنیا سے تو نہیں آگیا! تباہی کے دہانے تک پہنچے ہوئے ہر معاشرے کا یہی معاملہ ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں مکمل تباہی کی حدوں کو چھو رہے ہیں۔ چند ایک معاملات اب بھی ایسے ہیں جن کے بارے میں سوچ کر دل کو سکون سا ملتا ہے کہ مکمل مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، اصلاحِ احوال کی گنجائش موجود ہے۔ چند ایک معاملات میں ہم اب بھی زندہ ہیں‘ بے دم نہیں ہوئے۔ سطح تھوڑی کم ہی سہی مگر دینی معاملات میں اب بھی صورتحال بہتر ہے۔ اخلاقی اقدار کے حوالے سے صورتِ حال اگرچہ پریشان کن ہے مگر پھر بھی چند ایک اقدار اچھی خاصی حالت میں زندہ ہیں۔ ہم چاہیں تو بعض معاملات کو پژمردگی کی دلدل سے نکال سکتے ہیں، اُن کے لیے دوبارہ تازگی اور توانائی کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے ہاں خاندانی نظام کسی نہ کسی حالت میں اب بھی زندہ ہے۔ ہاں! اُس کی تاثیر گھٹ گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچا سلامت ہو تو عمارت دوبارہ تعمیر کی جاسکتی ہے۔ ہماری بہت سی معاشرتی خصوصیات اب تک برقرار ہیں اور اُنہیں بنیاد بناکر ہم دوبارہ زندگی، تازگی، توانائی، ترقی اور خوشحالی کی طرف جاسکتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں اصلاحِ احوال اُسی وقت ممکن ہے جب ہم ایسا چاہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ایسا چاہنے کی طرف مائل نہیں ہو رہے۔ کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ ضبطِ نفس ممکن نہیں ہو پارہا۔ جن خرابیوں نے زندگی کا بیڑا تقریباً غرق کردیا ہے اُن کی ''کشش‘‘ دم نہیں توڑ رہی۔ انسان کو کسی چیز کی لت لگ جائے تو مشکل سے چھوٹتی ہے۔ ہمیں خرابیوں کی عادت لت لگ چکی ہے۔ اب عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر معاملات کبھی اچھائی کی طرف جارہے ہوں تب بھی دل ڈرتا ہے کہ کہیں اِس میں بھی کوئی خرابی نہ چھپی ہو۔ یہ تو وہی ''دبنگ‘‘ والی بات ہوئی کہ ''تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب! پیار سے لگتا ہے‘‘۔
جب کوئی معاشرہ کم و بیش تمام ہی معاملات میں اچھے خاصے بگاڑ کی طرف جاچکا ہو، ہر طرف اندھیرا چھا گیا ہو، کہیں سے امید کی کوئی کرن بمشکل دکھائی دیتی ہو اور بظاہر ایسا کوئی میکنزم نہ ہو جو معاملات کو درستی کی طرف لے جاسکے تب اہلِ فکر و نظر کو میدان میں آنا پڑتا ہے۔ پیچیدہ مسائل سے اَٹے ہوئے کسی بھی معاشرے کو اگر سنبھالا ہے تو اہلِ فکر و نظر نے۔ معاشرے کی حقیقی اور ناگزیر اصلاح کے حوالے سے بنیادی کردار وہی لوگ ادا کرسکتے ہیں جو عمومی فکری سطح کو خیرباد کہتے ہوئے آفاقی شعور کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوں۔ جن کی فکری سطح بلند ہو اور جو اخلاقی اعتبار سے توانا اور اصلاح پسند ہوں وہی معاشرے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے اب تک ہلچل پیدا نہیں ہوئی۔ اساتذہ، مصنفین، مقررین اور مبصرین کو معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ پستی سے اُسی وقت نکل سکتا ہے جب اُس کے اہلِ دانش نے کچھ کر گزرنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ ہمارے سامنے سب سے نمایاں مثال یورپ کی ہے۔ کئی صدیوں تک یورپ جہالت کے اندھیروں میں گم رہا۔ جب مسلم دنیا میں ترقی کا غلغلہ تھا اور تہذیب رو زبروز فروغ پارہی تھی تب یورپ شدید پسماندگی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سوال صرف معاشی پسماندگی کا نہیں تھا بلکہ اخلاقی اقدار کا معاملہ بھی دگرگوں تھا۔ یورپ نے مذہبی تعلیمات کو صرف فراموش ہی نہیں کردیا تھا بلکہ اُن کے تمسخر کی روش پر گامزن ہو گیا تھا۔ ایسے میں کہ جب مکمل تباہی کی راہ ہموار ہوچکی تھی‘ اہلِ فکر و نظر نے معاملات کو درست کرنے کی ٹھانی۔ اُن کی شبانہ روز محنت پر مشتمل کئی عشروں کے عمل سے نشاۃِ ثانیہ ممکن ہو پائی اور روشن خیالی پیدا ہوئی۔ روشن خیالی نے معاشرے کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالا، پسماندگی دور کرنے پر توجہ دینے کی راہ ہموار کی، فطری علوم و فنون میں پیشرفت ممکن ہو پائی اور یوں یورپ جہالت و پسماندگی کی کھائی سے نکل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکا۔ ایک یورپ کی کیا بات کیجیے‘ ہر پس ماندہ معاشرے کو پستی کی دلدل سے اُنہی لوگوں نے نکالا ہے جن کی نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پُرسوز تھی۔ ہمارے ہاں بھی اجتماعی سطح پر اصلاحِ احوال کی راہ وہی لوگ ہموار کرسکتے ہیں جو دلوں میں قوم کا حقیقی درد رکھتے ہوں۔ اہلِ فکر و نظر کو آگے بڑھنا ہے، اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اساتذہ کو نئی نسل کی تربیت کرنی ہے۔ لکھنے والوں کو اپنی تحریروں کے ذریعے اور بولنے میں ملکہ رکھنے والوں کو اپنی تقریروں اور مباحث کے ذریعے لوگوں کو اس بات کی تحریک دینی ہے کہ وہ اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہوں، اپنے معمولات و معاملات کو اِس طور تبدیل کریں کہ زندگی واقعی بسر ہو، محض ضائع نہ ہو۔ اہلِ قلم کو آگے آکر تحریکِ اصلاح میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہے۔ قوم کو مثبت طرزِ فکر و عمل کی ضرورت ہے۔ جو صاحبِ نظر ہیں اور ابلاغ کا ہنر بھی جانتے ہیں‘ وہ اس مرحلے پر تماشائی بنے نہ رہیں بلکہ میدانِ عمل میں اتریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved